تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     09-10-2015

ٹیکس بیس میں اضافہ کیسے ہو؟

اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد ایف بی آر شرح نمو کو گیارہ سے چودہ فیصد بتاتے ہوئے اس پر فخر کرتا ہے۔ فنانس منسٹر بھی ایف بی آرکے اس کارنامے کو سراہتے ہیں، جبکہ اس کے افسران کو دہری تنخواہوں کے علاوہ حکومت کی طرف سے ایوارڈ ز اور بونس بھی دیے جاتے ہیں۔ تاہم ایک مرتبہ بھی ایف بی آر ترمیم شدہ ٹیکس اہداف کو حاصل نہیں کرسکا، لیکن اس پر انعامات ہیں کہ بارش کی طرح برستے دکھائی دیتے ہیں۔ شاید اُنہیں نااہلی اور پوٹینشل کے مطابق ٹیکس وصول نہ کرنے اور ہر سال انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد میں ہونے والی کمی کا انعام ملتا ہے۔ 
حکومت چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرائیں، لیکن ایف بی آر کا آئی ٹی سسٹم نئے ٹیکس گزاروں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ ایک مشہور ٹیکس وکیل اور ٹیکس ریفارمز کمیشن کے رکن کے مطابق۔۔۔''اگر آپ ایک نئے ٹیکس گزار ہیںتو آپ چالان حاصل کرکے ٹیکس ادا نہیں کرسکتے۔ فرض کریںکہ آپ ایک نئے ٹیکس گزار ہیں اور آپ IRIS میں خود کورجسٹر کراتے ہیں تو آپ کا شناختی کارڈ نمبر ہی آپ کا رجسٹریشن نمبر بن جاتا ہے۔ آج کل نئے IRIS ٹیکس ریٹر ن جمع کرانے والوں کو دیے گئے چالان بنک قبول نہیں کرتا کیونکہ ایف بی آر نے اُنہیںہدایت کی ہے کہ وہ پرانے نظام کے تحت فراہم کردہ چالان ہی قبول کریں۔ پرانے نظام کو آٹھ ہندسوں والا این ٹی این نمبر چاہیے ۔اس نمبر کو فیڈ کرکے آپ چالان نکال سکتے ہیں، لیکن جب آپ نئے نظام کے تحت خود کو رجسٹر کراتے ہیں تو آٹھ ہندوسوں کی بجائے آپ کا شناختی کارڈ نمبر، جو تیرہ ہندسوں پر مشتمل ہے، آپ کا رجسٹریشن نمبر بن جاتا ہے۔ اس نمبر سے آپ چالان نہیں نکلو اسکتے۔ چنانچہ اس نظام کے تحت ایک نیا شخص ٹیکس کیسے ادا کرے؟‘‘
ان کالموں میں یہ بات تواتر سے اجاگر کی گئی ہے کہ ایف بی آر نے اپنی ٹیکس کی شرح نمو میں اضافہ کرنے کے لیے ریفنڈ کی جانے والی رقم روکنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ عام شہریوں پر بالواسطہ، نہ کہ دولت مندوںپر براہ ِراست، بھاری ٹیکس لگا کر اپنی کارکردگی ظاہر کی جاتی ہے۔ محصولات کے موجودہ اعدادوشمار کے مطابق ڈیزل آئل پر یکم اکتوبر سے پچاس فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ اور تو اور، مٹی کا تیل، جو عام طور پر غریب افراد استعمال کرتے ہیں ، پر بھی تیس فیصد سیلز ٹیکس ہے۔ ایف بی آر کے محصولات کا زیادہ تر حصہ امپورٹ کردہ اشیا پر ٹیکس لگانے سے حاصل ہوتا ہے۔ چونکہ سب سے زیادہ ٹیکس پٹرولیم کی مصنوعات اور ودہولڈنگ ٹیکس سے حاصل کیا جاتا ہے ، اس لیے اس کا سب سے زیادہ اثر اُن شہریوں پر پڑتا ہے جن کی آمدنی قابل ِ ٹیکس نہیں ہوتی۔ 
بدقسمتی سے ہرقسم کے ناروا ٹیکس عائد کرنے کے باوجود ایف بی آر جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس وصول کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ چنانچہ ٹیکس کا حقیقی پوٹینشل، جو کہ آٹھ ٹریلین روپے سے کم نہیں ، کے حصول کے لیے ٹیکس بیس بڑھانی پڑے گی۔ سرکاری اور آزادذرائع کے درمیان کم از کم اس بات پر اتفاق ِ رائے پایا جاتا ہے کہ پاکستان کو جلد از جلد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ کرنا ہے۔ اس وقت اس کی شرح9.5 فیصد ہے جبکہ اسے کم از کم پندرہ فیصد ہونا چاہیے۔ اس کے لیے کچھ اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہے، جیسا کہ سیلز ٹیکس کی اونچی شرح میں کمی، مساوی ٹیکس بیس ، ٹیکس کے نظام کو سادہ او رسرمایہ کاری اور بچت کی سکیموں کو کامیاب بنانے کی ضرورت ہے۔موجودہ حکومت ایسا کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ اس لیے یہ بہت مناسب وقت ہو جب یہ اپنے ٹیکس کی ترجیحات کا ازسرِ نو تعین کرے اور تیز رفتار صنعتی اور کاروباری ترقی کے ذریعے ٹیکس کے زیادہ مواقع پیدا کرے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس وقت حکومت کی دلچسپی پرکشش منصوبوں ، نہ کہ ملک کی صنعتی سرگرمیوںمیں اضافے، میں ہے۔ اس کے علاوہ معاشرے کے طاقتور حلقے نامعلوم ناموںسے رقوم کی منتقلی میں مصروف ہیں، چنانچہ ایف بی آر اُن پر ہاتھ نہیںڈال سکتا۔ 
اس وقت پاکستان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وصول ہونے والا سیلز ٹیکس حکومت کے خزانے تک نہیں پہنچ پاتا ۔ اس وقت تک معیشت کو ڈاکو منٹ کرنے کی عمل بھی کامیابی سے بہت دور ہے۔ جب تک حکومت کے پاس افراد کی آمدنی کی رپورٹ ہی نہیں ہوگی ، وہ اُن سے درست ٹیکس کیسے وصول کرے گی؟اس کے علاوہ ضروری ہے کہ طاقتور حلقوں پر بھاری ٹیکس لگا کر عام شہری کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ بھی اپنی آمدنی میں اضافے کے ساتھ ٹیکس دینے پر راضی ہوسکے۔ ٹیکس وصول کرنے کے لیے ایک کلچر کو ترقی دینا پڑتی ہے تاکہ ریاستی اداروں پر عوام کو اعتماد ہو۔ 
ٹیکس بیس میں اضافے کے لیے ایک پر مغز اسکیم کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکس چوری اور وصول ہونے والی رقم کے ضیاع کوروکا جا سکے۔ عوام کو انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرانے پر مائل کرنا حکومت کے لیے ایک چیلنج ہونا چاہیے، لیکن لگتا ہے کہ اس کا ان امور کی طرف دھیان ہی نہیں۔ ٹیکس کے حجم میں اضافے کے لیے ٹیکس چوری کی روک تھام ناگزیر ہے ۔ اس وقت سب سے زیادہ چوری کسٹم، انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس میں ہوتی ہے ۔ اس کے لیے ٹیکس انٹیلی جنس سسٹم کو نافذ کیا جانا چاہیے کیونکہ وہ اس نظام میں ہونے والی لیکیج کی نشاندہی کرسکتا ہے۔ ایسا بہت کامیابی سے انڈیا، ترکی، تائیوان اور ونیزویلا میں کیا جاچکا ہے۔ بھارتی ریاست ، کیرالہ کی حکومت نے تمام اشیاکی فروخت پر پانچ فیصد سیلز ٹیکس نافذ کردیا اور اس کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کئے۔ اس مقصد کے لیے دکانداروں اور گاہکوںکو کچھ ترغیبات بھی دی گئیں تاکہ ٹیکس کلچر پروان چڑھ سکے۔ دکانداروں کو ریفنڈ پر دس فیصد رقم دی جاتی ہے جبکہ ہر گاہک سو روپے کی خریداری پر پانچ روپے کا کوپن حاصل کرتا ہے۔ اس کوپن پر ہر ہفتے قرعہ اندازی ہوتی ہے اور انعامات جیتنے والوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اس منصوبے سے کیرالہ میں حکومتی محصولات میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 
ایف بی آرمحصولات جمع کرنے کے اپنے اہم فرض کو نظر انداز کرتے ہوئے بے معنی کمیٹیاں تشکیل دے رہا ہے تاکہ اس کی اپنی سستی اور غفلت سے پیدا ہونے والے تنازعات حل ہوسکیں۔ درحقیقت یہ معاملات کمیٹیوں کے کرنے کے نہیں بلکہ ٹیکس ساز اور پالیسی بنانے والے اداروں کے کرنے کے ہیں۔ یہ ادارہ پارلیمان ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستانی پارلیمان میں ایسے اہم معاملات زیر ِ بحث لائے ہی نہیں جاتے۔ اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ء ایک فوجی آمر کا بنایا ہوا ہے۔ اس سے پہلا ٹیکس آرڈیننس 1979ء بھی فوجی حکومت کے دوران بنا تھا۔ ظاہر ہے کہ ان ضابطوں کی تیاری میں عوامی نمائندوں کی رائے شامل نہ تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی جمہوریت کو ٹیکس کے نظام سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انتخابات میں نعرے لگانے والے نمائندے بتادیں کہ دولت مند طبقوںسے ٹیکس لے کر عوام پر خرچ کرنے کے علاوہ جمہوریت کا کیا مقصد ہوتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved