چند روز قبل ہم نے روزنامہ' دنیا‘ میں ایک ایسی خبر پڑھی جس نے وقت کی تقسیم اور ترجیح کے حوالے سے سوچنے پر اِتنا مجبور کیا کہ ہمارے دماغ کی چُولیں ہل گئیں۔
خبر یہ تھی کہ ماضی کے بارے میں سوچنے یا ہر وقت گزرے ہوئے زمانے میں کھوئے رہنے سے کچھ نہیں ملتا۔ یہ بات تحقیق کے نتائج کی بنیاد پر کہی گئی ہے۔ تحقیق کا نچوڑ یہ ہے کہ انسان اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھتا، بلکہ گزرے ہوئے زمانے یا واقعات کو یاد کرکے صرف روتا رہتا ہے۔
ہم تو یہ خبر پڑھ کر دم بخود رہ گئے۔ بات بے بات تحقیق کا میلہ سجانے والے کتنے سنگ دِل ہیں! کیا انہیں نہیں معلوم کہ ماضی کتنا راحت بخش زمانہ ہوتاہے؟ انسان گزرے ہوئے زمانے میں آباد ہوکر سارے نہ سہی، بہت سے غم بھول جاتا ہے۔ انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ ''پاسٹ اِز این اور کنٹری۔‘‘ یعنی گزرا ہوا زمانہ دراصل ایک الگ ملک، الگ دنیا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ماضی کو یاد کرکے ہم ایک الگ ہی دنیا کے باسی ہوجاتے ہیں۔
یہ بات ہم اب تک سمجھ نہیں پائے کہ ہمارا سکون محققین کو آخر کیوں کَھلتا ہے؟ اگر گزرے ہوئے زمانے ذرا سی دیر کیلئے ذہن کے پردے پر جلوہ گر ہوجائیں اور ہم کچھ دیر کے لیے حال کی سنگینی کے شکنجے سے نکل کر ماضی کی یادوں سے دل کو بہلانے کا سامان کرلیں تو اِس میں بُرا کیا ہے؟ اور پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ماضی اگر کوئی اور ملک ہے تو خیر سے یہ ان چند ممالک میں سے ہے جہاں جانے کے لیے ہمیں (یعنی پاکستانیوں کو) ویزا نہیں لینا پڑتا! بقول غالبؔ ع
مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے!
محققین نے اگر یہ ''مژدہ‘‘ سنادیا ہے کہ ماضی سے ہمیں کچھ بھی سیکھنے کو نہیں ملتا تو کیا ہم اُن کی بات مان کر اپنا سکون مکمل طور پر غارت کرلیں؟ ہرگز نہیں، یقیناً نہیں۔ ہم اپنی روش ترک نہیں کریں گے۔ ہم بھی غالبؔ کی طرح محاذ پر ڈٹے رہیں گے ؎
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے!
مرزا تنقید بیگ کو ایسے لوگوں سے الرجی سی ہے جو ہر وقت ماضی کے دھندلکوں میں گم رہنا پسند کرتے ہیں۔ مرزا کا ماضی کچھ زیادہ تابناک نہیں تھا۔ شاید اسی لیے وہ اپنے گزرے ہوئے زمانے کو یاد کرنے سے نفرت کی حد تک گریز کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے، مرزا نے گزرے ہوئے زمانے یعنی عہدِ شباب میں کوئی بڑا تیر نہیں مارا تھا مگر ہم آپ کون سے کار ہائے نمایاں انجام دے کر بیٹھے ہیں؟ ہمارے گزرے ہوئے زمانے میں بھی کوئی سُرخاب کے پَر نہیں لگے‘ پھر بھی ہم یہی چاہتے ہیں کہ زیادہ وقت گزرتے ہوئے زمانے میں گزاریں۔ مرزا چونکہ انتہا پسند ہیں اس لیے ماضی میں گم رہنے کی کیفیت کو شدید نفسی پیچیدگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنی صوابدید کے مطابق ہی یہ طے کرلیا ہے کہ زندگی بسر کرنے کے لیے ماضی سے اچھا زمانہ کوئی نہیں۔ مرزا کا زور اس نکتے پر ہے کہ جو کچھ گزر چکا ہے اسے درست کرنا ممکن ہے نہ مزید بگاڑا جاسکتا ہے۔ پھر یادوں میں گم رہ کر اپنا قیمتی وقت کیوں ضائع کیا جائے؟
دوست کی دل جُوئی احسان کا درجہ رکھتی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر معاملے میں مرزا کی رائے کو بہتر جان کر قبول کرلیں۔ مرزا نے تو فیصلہ صادر فرمادیا کہ ماضی میں رہنا اچھی بات نہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ قوم جائے تو کہاں جائے؟ حال کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ مستقبل کے بارے میں پورے یقین سے تو خیر کیا، پوری بے یقینی کے ساتھ بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا! ایسے میں لے دے کر ماضی رہ جاتا ہے جس کی چھاؤں میں ٹھنڈک پائی جاسکتی ہے اور لوگ پاتے ہیں! مرزا یہ سایا بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔ ذرا سوچیے ؎
چُھٹ گیا جُھوٹی امیدوں کا سہارا بھی اگر
آج کے دور کا انسان کہاں جائے گا!
مرزا چاہتے ہیں کہ یہ قوم آگے دیکھے۔ وہ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انسان ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ کہتے ہیں : ''جو کچھ ہوچکا ہے وہ اب پتھر پر لکیر کے مانند ہے یعنی اسے تبدیل کیا جاسکتا ہے نہ اس سے کچھ حاصل کرنا ممکن ہے۔ ایسے میں بہتر یہی ہے کہ اپنے حال کو درست رکھتے ہوئے آنے والے زمانوں کے بارے میں سوچا جائے۔ زندگی کا معیار بلند کرنے کی ایک بہتر صورت یہی ہے۔ ہم ماضی کے پردوں سے لپٹ کر مستقبل کی روشنی دیکھنے سے محروم رہنا پسند کرتے ہیں‘ یعنی ہم خود اپنے لیے 'مرے کو مارے شاہ مدار‘ والا کام کرتے ہیں!‘‘
مرزا کو بڑی بڑی باتیں کرنے سے غرض ہے۔ کیا انہیں معلوم نہیں ایک عام آدمی کی زندگی کن مراحل سے گزرتی ہے؟ جس ماضی کو یاد کرکے لوگ رویا کرتے ہیں وہی تو کبھی شاندار مستقبل تھا! یہ گزرے ہوئے زمانے ہی تو وہ سہانے سپنے تھے جو ان کی آنکھوں میں سجے تھے یا سجائے گئے تھے۔ جو تمام اختیارات کے حامل ہیں ان کے ہاتھوں جو کچھ اس قوم پر بیتی ہے وہ ہر فرد کو مستقبل سے مایوس کرکے ماضی کی حسین یادوں میں سکون تلاش کرنے پر مجبور کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہر گزرتا ہوا دن عام پاکستانی کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ بہت پہلے گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرکے اپنے دل کو ٹھنڈک پہنچانے کا اہتمام کرے!
مرزا تو شاید یہ چاہتے ہیں کہ ہم حال میں رہتے ہوئے بے حال رہیں اور ماضی کو یاد کرکے جو تھوڑی بہت مسرّت محسوس کرسکتے ہیں وہ بھی نہ کریں۔ جن کے بس میں اور کچھ نہ ہو ان کے لیے ماضی سے اچھا زمانہ کون سا ہوسکتا ہے؟ آج ہمارے نلکے دس دس پندرہ پندرہ دن سوکھے پڑے رہے ہیں۔ خالی پن کا یہ عالم ہے کہ اب ان سے ہوا بھی خارج نہیں ہوتی! ایسے میں انسان اس زمانے کو یاد کرنے کے سوا کیا کرسکتا ہے جب ان نلکوں میں پانی آیا کرتا تھا؟ اور اب لطیفہ یہ ہے کہ جس کنکشن سے پانی کی ایک بوند بھی میسر نہیں ہوتی اس کا بل باقاعدگی سے آتا ہے!
ایک زمانہ تھا جب سرکاری سکولوں میں اساتذہ ہوا کرتے تھے اور وہ پڑھایا بھی کرتے تھے۔ کچھ مدت تک تو سرکاری سکولوں کے بچوں کو دودھ کی تھیلیاں بھی دی جاتی رہیں۔ اب یہ سب کچھ ہمارے حافظے کا حصہ ہے۔ یعنی ذہن میں گزرا ہوا زمانہ زندہ کیجیے اور کچھ دیر سکون پائیے۔ اب کہاں کے اساتذہ اور کہاں دودھ کی تقسیم؟ خیر سے اب سرکاری اسکول ہی نہیں رہے!
ماضی سبق سیکھنے کے لیے نہیں، صرف دل بہلانے اور ذہن کو کچھ دیر سکون فراہم کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ ماضی جس کام کے لیے ہے اُسی کام کے لیے مختص رہنے دیا جائے تو اچھا۔ سبق سیکھنے کے لیے مستقبل ہے تو سہی۔ آپ سوچیں گے مستقبل سے کوئی سبق کیسے سیکھا جاسکتا ہے۔ جہاں ہم نے اتنے بہت سے ٹرینڈ متعارف کرائے ہیں، ایک ٹرینڈ اور سہی۔ ویسے بھی مستقبل کو ایک دن ماضی بن ہی جانا ہے! ہمیں تو پوری قوم کا مستقبل یہی دکھائی دیتا ہے کہ ماضی کی حسین یادوں میں گم ہو رہیے۔ ایسے میں بے حال ہونے کا احساس بھی باقی نہیں رہتا یعنی ذہن کو رنج و غم کے جھٹکے کم لگتے ہیں۔ ذرا عوامی زبان میں کہیے تو زور کا جھٹکا، دھیرے سے لگے!