اگرآپ لاہور کے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین سے پوچھیںکہ وہ اپنے چھ سالہ بیٹے کو تعلیم کے لیے کہاں بھیجنا چاہیں گے تو امکان ہے اُن کا جواب ہوگا ''ایچی سن کالج‘‘۔ اس میں ہر سال داخلے کے لیے صرف 124 نشستیں دستیاب ہوتی ہیں، اس لئے یہاں داخلے کے لیے انتہائی سخت مسابقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حال ہی میں گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق کچھ اساتذہ نے داخلہ امتحان سے پہلے سوال نامہ دکھانے کے عوض والدین سے بیس لاکھ روپے لیے۔
اگرچہ یہ بات واضح نہیں کہ ایک چھ سالہ بچے کی قابلیت جانچنے کے لیے کیا پیمانہ بنایاجائے، اس کے باوجود جب ایک سال پہلے ادارے نے جب پرنسپل ڈاکٹر آغا غضنفر کی خدمات حاصل کیں، ان سے کہا گیا کہ وہ بچوں کی قابلیت کی جانچ کریں۔ پنجاب کے سابق گورنر چوہدری محمد سرور اور کالج کے بورڈ آف گورنرز کے سربراہ نے اعلان کیا کہ آج کے بعد طلبہ کو ہمیشہ میرٹ پر داخلہ ملے گا۔ اس سے پہلے کالج کے سابق طلبہ کے بیٹوں یا پوتوں کے لیے خصوصی نشستیںہوتی تھیں، جو ختم کردی گئیں۔ درحقیقت 1886ء میں، برطانوی د ور میں قائم ہونے والے اس تعلیمی ادارے کا نام چیفس کالج تھا اور اس کا مقصد ہی انڈین اشرافیہ کے بچوں کوتربیت دینا تھا۔ یہ بات قابل ِفہم ہے کہ اس نئی پالیسی نے بہت سے اہم افراد کو ناراض
کردیا۔ اس کے بعد جیسے ہی چوہدری سرور کی گورنری کا عہد تمام ہوا، لاہوری مافیا آگے آیا اور داخلوں کا سابق طریق ِکار بحال کردیا۔ جلد ہی نئے پرنسپل کو ان حقائق کا سامنا کرنا پڑا جو عملی دنیا میں اصولوں کو دبادیتے ہیں۔ ایک ایسے پرنسپل کا جو میرٹ کی سختی سے پاسداری کرتا ہو، افشا ہونے والے امتحانی پرچوں کو تبدیل کردیتا ہو، طاقتور افراد کی اولاد کو داخلہ دینے سے انکار کرنے کی جسارت کرتا ہو، اس کا اس ادارے میں کیا کام؟ چنانچہ بورڈ نے آغا غضنفر کو برطرف کردیا۔ وہ لاہور ہائی کورٹ چلے گئے اور عدالت نے اُنہیں عارضی طور پر عہدہ اور تنخواہ کا حقدار قراردیا، لیکن اُن کے پاس اختیارات نہ رہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ قومی اخبارات نے اس تمام صورت ِحال کو اجاگر کیا۔ مجھے اس معاملے میں دلچسپی اس لیے ہے کہ میرے بیٹے شاکر نے ایچی سن کالج میں تعلیم حاصل کی تھی اور یقیناً میں نے اُسے داخل کرانے کے لیے رقم کا سہارا نہیں لیا تھا۔ اگرچہ اس کالج کا تعلیمی معیار اوسط درجے کا ہے، لیکن اس میں تعلیم حاصل کرنا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ شاکر نے وہاں بہت سے دوست بنالیے اور وہ آج بھی اُس کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ درحقیقت پاکستانی سیاست میں ایسے کئی
افراد موجود ہیں جنہوں نے اس ادارے سے تعلیم حاصل کی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پرنسپل آغا غضنفر سول سروس کے دور سے میرے پرانے دوست ہیں۔ انہوں نے ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ ان تمام چیزوں سے قطع نظر ایچی سن کالج کے معاملے میں دلچسپی لینے کی اصل وجہ یہ ہے کہ داخلوں کا موجودہ تنازع پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت کو علامتی طور پر بیان کرتا ہے۔ اپ اس ذہنیت کی جھلک ہر طرف دیکھ سکتے ہیں، چاہے ایئرپورٹ ہو یا کوئی ہوٹل، آپ کو وی آئی پی پروٹوکول کا عذاب جھیلنا پڑے گا۔ اگر اُنہوں نے بیرونی ممالک کا سفر اختیار کرنا ہو تو اُن کے پاسپورٹ ترجیحی بنیادوں پر سٹمپ کیے جائیںگے، مبادا وہ قطاروں میں کھڑے دکھائی دیں۔ ان میں شاید ہی کوئی بینک میں اپنا چیک کیش کرانے جاتا ہو، یا کسی نے کسی ایئرلائن کے کائونٹر سے اپنا ٹکٹ خریدا ہو۔ یہاں ایک اعتراف کرتا چلوں کہ اپنی سرکاری ملازمت کے دور میں ، میں بھی اسی ''کلب‘‘ کا ایک جونیئر رکن تھا۔
بدترین بات یہ ہے کہ یہ استحقاق یافتہ طبقہ، یہی احساس ِبرتری اپنے بچوں کے ذہن میں بھی انڈیل رہا ہے۔ ہوسکتا ہے اُن کے بچے ذہین نہ ہوں، لیکن اُنہیں کسی بھی طریقے سے بہترین سکولوں میں داخل کرایا جائے گا۔ اس کے بعد ان کی غیر ملکی یونیورسٹیوں کی طرف راہ ہموار ہوجائے گی۔ ان یونیورسٹیوں کو فل فیس چاہیے، باقی سب خیر ہے۔ جب یہ ''اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان‘‘ وطن لوٹتے ہیں تو اُنہیں ڈیڈی کے اثر و رسوخ کی وجہ سے کسی بھی کمپنی میں پرانے اور تجربہ کار ملازمین سے اوپر ملازمت مل جاتی ہے۔ شاید پرائیویٹ اداروں میں اقربا پروری کی وجہ سے اتنا نقصان نہ ہوتا ہو کیونکہ کسی نااہل شخص کو رکھنے کا مطلب اُس کمپنی کی بتدریج تباہی ہوگی، لیکن جب یہ لوگ سرکاری اداروں کے ''مالک‘‘بنتے ہیں تو ریاست کی چولیں ہلا کررکھ دیتے ہیں۔
سرکاری سکولوں میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے غریب خاندانوں کے لاکھوں بچے دینی مدرسوں میں داخلہ لے لیتے ہیں ۔ وہاں اُن کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔ یہ عمل ریاست کے مستقبل کے افرادی وسائل کو ضائع کرنے مترادف ہوتا ہے۔ اسی طرح لاکھوں لڑکیاںبھی زیور ِتعلیم سے محروم رہتی ہیں؛ چنانچہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ہم مجموعی طور پر فکری اور مادی پسماندگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے ہاں دستیاب ٹیلنٹ کو بہت کم آگے بڑھنے کے مواقع ملتے ہیں۔ اگر یہ ہونہار بچے سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کریں تو نہ وہ انگریزی بول سکتے ہیں اور نہ ہی ان میں اعتماد آتاہے۔ یقیناً یہ اشرافیہ کی حکمرانی پاکستان تک محدود نہیں، دنیا میں ہر جگہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ برطانیہ میں سکول سسٹم ایسے نوجوان پیدا کرتا ہے جو اپنے سے کم حیثیت رکھنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ تاہم ایک فرق ہے، برطانیہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں کسی بھی شخص کا ٹیلنٹ ضائع نہیں جاتا۔ اُسے کسی نہ کسی میدان میں آگے بڑھنے کے مواقع مل جاتے ہیں۔ آکسفورڈ اور کیمبرج جیسے تعلیمی ادارے صرف اشرافیہ کے لیے ہی مخصوص نہیں ہیں، اب ریاستی سکولوں میں پڑھنے والے عام بچے بھی ان معتبر ترین یونیورسٹیوں میں جاسکتے ہیں۔ لیکن آپ پاکستان میںکسی عام بچے کو ایچی سن کالج میں داخل کرا کے دکھائیں۔ موجودہ تنازع کا عالمی میڈیا میں آنا پاکستان کی کتنی بدنامی کا باعث بناہے! کیا ہم سکولوں میں داخلے جیسے معاملات بھی درست نہیں کرسکتے؟