تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     10-10-2015

خادم اعلیٰ کا میرٹ اور چمڑے سے سکے

کل رات سرگودھا یونیورسٹی میں مشاعرہ تھا۔ صدارت عصر حاضر کے شاندار استاد‘ محقق اور شاعر جناب پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی فرما رہے تھے۔ مشاعرے سے پہلے وی سی ہائوس میں تمام شعراء کا کھانا تھا۔ کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کے لیے میں وی سی ہائوس کے واش روم میں گیا تو کمرے میں گتے کے کارٹن پیک ہوئے پڑے تھے۔ راہداری میں بھی اسی طرح پیک شدہ کارٹن پڑے تھے۔ سامنے ڈرائنگ روم کے دروازے کے ساتھ بندھے ہوئے سوٹ کیس پڑے تھے۔ میں نے باہر آ کر ڈاکٹر اکرم چوہدری سے پوچھا خیر ہے سارا گھر بندھے ہوئے سامان سے بھرا پڑا ہے ‘ ڈاکٹر چوہدری کہنے لگے میری بطور وائس چانسلر مدت ختم ہونے میں بس اب تین دن باقی ہیں۔ سامان باندھنا شروع کردیا ہے۔ انشاء اللہ دو دن بعد شفٹنگ شروع کر دوں گا۔ شکر‘ الحمدللہ کہ آٹھ سال بطور وائس چانسلر اس طرح گزارے ہیں کہ ضمیر مطمئن ہے اور دل شاد ہے کہ اس یونیورسٹی کے لیے وہ کچھ کرنے کی توفیق ہوئی کہ لوگ بھی انشاء اللہ یاد رکھیں گے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ ڈاکٹر اکرم چوہدری نے جو کہا وہ صرف سچ نہیں بلکہ سچ سے کہیں کم ہے‘ لیکن اس پر کل سہی‘ فی الحال تو بہائو الدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا خیال آ رہا ہے۔
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر میرے پرانے دوست ڈاکٹر خواجہ علقمہ بھی چھ سات دن بعد یعنی 14 اکتوبر کو اپنی مدت پوری کرکے فارغ ہو رہے ہیں مگر مجھے گمان ہے کہ انہوں نے ابھی تک اپنا ایک صندوق بھی پیک نہیں کیا ہوگا۔ انہیں اس کام کی فرصت بھی نہیں ہے۔ وہ اس عہدے سے چمٹے رہنے کی آخری کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس کالم کے چھپنے سے ایک روز قبل وہ اس سلسلے میں آخری کوشش کے طور پر وزیراعلیٰ‘ میرا مطلب ہے خادم اعلیٰ سے ملنے کے لیے لاہور آئے تھے۔ خبر نہیں کہ وہ اس سلسلے میں خادم اعلیٰ کو مل پائے یا نہیں؛ تاہم معتبر راوی کا بیان ہے کہ اس سلسلے میں ناامید نہیں ہیں۔ ہمہ وقت میرٹ میرٹ کا ورد کرنے والے خادم اعلیٰ کا دل کسی بندے پر آ جائے تو وہ میرٹ وغیرہ پرچار حرف بھیجتے ہیں۔ اپنے خواجہ علقمہ صاحب کے سلسلے میں ایسا ہی معاملہ ہے۔
سرچ کمیٹی نے شارٹ لسٹ کئے گئے تین امیدواروں کا انٹرویو وغیرہ کرنے کے بعد میرٹ لسٹ بنائی‘ پہلے نمبر پر ڈاکٹرظفراقبال جدون تھے‘ دوسرے نمبر پر ڈاکٹر محمد ظفراللہ اور تیسرے نمبر پر میرے عزیز دوست ڈاکٹر خواجہ علقمہ تھے۔ یہ میرٹ لسٹ خادم اعلیٰ کی منظوری کے لیے ان کے پاس بھیجی گئی۔ بدقسمتی سے خادم اعلیٰ نے لسٹ الٹی پکڑ لی اور تیسرے نمبر پر آنے والے خواجہ علقمہ کے بارے میں یہ سوچ کر کہ موصوف کا نام سب سے اوپر ہے انہیں پہلے نمبر پر سمجھا اور ان کے نام کی منظوری فرما دی۔ جیسا کرنا ویسا بھرنا کے مصداق جس طرح خادم اعلیٰ نے میرٹ کے پرخچے اڑائے تھے‘ خواجہ علقمہ نے بھی اسی کی تقلید کی اور خادم اعلیٰ سے بڑھ کر میرٹ کی دھجیاں اڑائیں۔ میرٹ کی بربادی کی ایک لمبی داستان ہے جس پر میں پہلے بہت کچھ لکھ چکا ہوں مگر اب یہ صورتحال ہے کہ خادم اعلیٰ بھی تقریباً سید یوسف رضا گیلانی کی طرح ہی ٹھنڈے ٹھار ہو کر بیٹھے رہتے ہیں کہ جس نے جو لکھا ہے لکھے ‘ہمارے جوتے پر۔
قریب دو سال ہوتے ہیں‘ میں جامعہ زکریا میں ہونے والی خلاف ضابطہ تقرریوں‘ لاہور کیمپس کے شکوک و شبہات سے بھرے ہوئے معاملے‘ تقرریوں اور ترقیوں میں مال پانی بنانے‘ فاصلاتی تعلیم میں ہونے والی گڑبڑ اور معیار تعلیم میں ہونے والے انحطاط کے سلسلے میں خادم اعلیٰ کے دفتر کے مدارالمہام سیکرٹری سے ملا اور سارے معاملات سے آگاہ کیا۔ سیکرٹری نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں معاملے کا جائزہ لیں گے اور تحقیق کریں گے۔ اگلی ملاقات میں مجھے خوشخبری سنائی گئی کہ آپ کی ساری شکایات درست پائی گئی ہیں اور انشاء اللہ جلدی ایکشن لیا جائے گا۔ میں نے پوچھا اس ایکشن سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کہنے لگے He will soon be sacked یعنی جلد ہی اس کی چھٹی کروا دی جائے گی۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی اور کئی ماہ تک طاری رہی۔ اتفاقاً ایک سال بعد پھر اسی مدارالمہام سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ آپ لوگوں نے اپنی تحقیق و تفتیش کے بعد وی سی کو فارغ کرنے کا فرمایا تھا اور لفظ soon یعنی جلد کا فرمایا تھا۔ سیکرٹری نے میرے سامنے ایک دو لوگوں کو فون کیا اور کہا کہ زکریا یونیورسٹی کے وی سی کو فارغ کرنے بارے فیصلہ ہوا تھا اس پر ابھی تک عمل درآمد کیوں نہیں ہوا؟ ادھر سے کیا جواب ملا؟ مجھے علم نہیں؛ تاہم ان دو ٹیلی فون کالز کے بعد سیکرٹری صاحب نے مجھ سے کہا کہ جس کام کے بارے میں چار دن نہ پوچھا جائے وہ فائلوں میں دبا دیا جاتا ہے۔ آپ کو جلد ہی اچھی خبر ملے گی۔ میں نے کہا یہ میرے لیے کوئی خوشی کی بات نہیں کہ مجھے ان سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں‘ صرف اصولی معاملہ ہے کہ میرے شہر کا ایک معتبر تعلیمی ادارہ برباد ہو رہا ہے۔ سیکرٹری صاحب نے ڈاکٹر علقمہ کے خاندانی پس منظر کے تناظر میںان کے طرزعمل پر تاسف کا اظہار کیا اور کہا کہ اب جلد ہی معاملہ طے ہو جائے گا۔ سیکرٹری صاحب یورپ میں ہیں اور وائس چانسلر صاحب اپنے دفتر میں۔
گزشتہ سنڈیکیٹ کی میٹنگ میں انہوں نے اپنے گزشتہ دو سال کے احکامات کو قانونی شکل دینے کی کوشش کی مگر سنڈیکیٹ نے بجٹ پاس کرنے کے بعد بقیہ ایجنڈے پر بحث کرنے سے معذرت کی اور ممبران اٹھ کر گھر کو چل دیئے۔ موصوف نے اپنی مدت ملازمت کا بیشتر عرصہ یونیورسٹی کو قواعد و ضوابط کے مطابق چلانے کے بجائے بطور وی سی حاصل ایمرجنسی پاور جو انہیں یونیورسٹی کیلنڈر کے سیکشن 16/3 کے ذریعے حاصل تھیں چلایا۔ یہ سیکشن محض ایمرجنسی معاملات کو چلانے کے لیے خصوصی صورتحال میں استعمال کیا جاتا ہے‘ مگر موصوف نے اسے اندھے کی لاٹھی کی طرح گھمایا اور چلایا۔ تعیناتیوں اور ترقیوں کے سیکشن 16/3 کا بے دریغ استعمال کیا جو کسی طور بھی ایمرجنسی معاملات نہ تھے۔
پہلے موصوف نے بھائی لوگوں کے ذریعے اپنی مدت ملازمت میں مزید توسیع کی کوشش کی اور گزشتہ دو تین ماہ سے خواہ کوئی تک بنتا تھا یا نہیں مگر موصوف نے ہر جگہ پر تقریر میں جنرل راحیل شریف کی تعریفوں کے پل باندھنے شروع کر دیے کہ شاید اس کارنر سے مدت ملازمت میں توسیع مل جائے اور اب آخری چارے کے طور پر ایک بار پھر خادم اعلیٰ کے درپر حاضر ہیں کہ اپنے مرحوم والد خواجہ خیرالدین کا کارڈ استعمال کر سکیں۔ خادم اعلیٰ سے کچھ بعید بھی نہیں کہ وہ ایک بار پھر میرٹ کے پرخچے اُڑائیں اور من کی مراد پائیں۔
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے نئے وائس چانسلر کے طورپر ایک نہایت عمدہ استاد اور نہایت ہی شاندار شہرت کے مالک ڈاکٹر طاہرامین کی سلیکشن ہو چکی ہے‘ مگر عالم یہ ہے کہ ڈاکٹر خواجہ علقمہ سامان باندھنے کے بجائے لاہور کے چکر لگا رہے ہیں اور جو باقی وقت بچتا ہے‘ اس میں جاتے جاتے مزید تعیناتیاں کرنے میں مصروف ہیں۔
ملتان سے تعلق رکھنے والے دور اندیش گورنر ملک رفیق رجوانہ کو جو جامعہ زکریا کے چانسلر بھی ہیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ خواجہ علقمہ کیا کر سکتے ہیں‘ لہٰذا انہوں نے احتیاطاً 2 اکتوبر کو بذریعہ سیکریٹری ہائر ایجوکیشن پنجاب ایک نوٹیفکیشن نمبر SO(Univ)6-1/2015 کے ذریعے حکم دیا تھا کہ وائس چانسلر اپنی بقیہ مدت کے اختتام تک کسی سلیکشن بورڈ‘سلیکشن کمیٹی یا کنٹریکٹ سلیکشن کمیٹی کا اجلاس منعقد نہیں کر سکتے مگر موصوف نے گزشتہ دو تین دنوں میں دو درجن سے زائد تعیناتیاں فرما دی ہیں۔ ممکن ہے تعداد اس سے زیادہ ہو مگر میرے پاس اب تک اتنے ہی نوٹیفکیشنوں کی کاپیاں آئی ہیں۔ باقی کے بارے میں یہ عاجز لاعلم ہے۔ سنتے ہیں کہ بچہ سقہ نے بھی اس طرح چمڑے کے سکے چلائے تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved