پھر کہتے ہیں فوج کے بعض جرنیل اقتدار کے بھوکے ہیں۔ حقائق کو دیکھا جائے‘ تو جنرلوں کو اقتدار کی طرف دھکیلنے والے خود سیاستدان ہوتے ہیں۔ سیاستدان‘ جمہوریت کو قابل قبول طریقے سے چلانے کا فیصلہ کر لیں اور ان میں اس بات پر اتفاق رائے ہو جائے کہ وہ باہمی مخالفتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے‘ جمہوریت کا ہر حال میں تحفظ کریں گے‘ تو جمہوری نظام کے ہوتے ہوئے‘دنیا کا کوئی جنرل ‘ اقتدار پر قبضہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔بھارتی جمہوریت ہم سے بہتر نہیں۔ صرف ایک فرق ہے کہ بھارتی سیاستدان‘ جمہوری نظام کو چلانے میں خاص احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ مثلاً وہ انتخابی عمل کو کبھی مشکوک نہیں ہونے دیتے۔ جو بھی انتخابی قوانین ہوں‘ انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے‘ سب ان کی پابندی کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن جن قواعد و ضوابط کے تحت ووٹنگ کا فیصلہ کرتا ہے‘ سارے فریق یعنی الیکشن کمیشن‘ انتظامیہ اور سیاستدان ان کی پابندی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پر آج تک کسی بھی الیکشن میں ہارنے والوں نے‘ جیتنے والوں پر دھاندلی کا الزام نہیں لگایا۔ ایک دوسرے کو یہ ضرور کہا کہ انہوں نے نسل پرستی‘ ذات پات یا دیگر تعصبات کو استعمال کر کے اپنے لئے وو ٹ مانگے، مگر کوئی کتنی بری طرح سے ہارا ہو‘ دھاندلی کا شور نہیں مچاتا۔ حال ہی میں کانگرس‘ بی جے پی سے جس بری طرح ہاری وہ بھارت کی سیاسی روایات کے مطابق غیرمتوقع اور غیرمعمولی تھا۔ کانگرس اچھی خاصی اکثریت سے محروم ہو کے صرف چند نشستوں تک محدود ہو گئی، لیکن اس نے انتخابی عمل پر ذرا سا اعتراض بھی نہیں کیا۔ یہ تھی بھارتی جمہوریت کے استحکام کی پہلی وجہ۔
دوسری وجہ اس سے بھی زیادہ قابلِ قدر ہے۔ جب اندرا گاندھی دوران اقتدار سیاسی بحران میں آئی ہوئی تھیں، سارے ملک میں ان کی مخالفت ہو رہی تھی، اپوزیشن انتہائی غم و غصے کی حالت میں اندرا کی مخالفت کر رہی تھی اور یوں لگ رہا تھا کہ ہر قیمت پر اسے اقتدار سے نکالنے پر تلی ہے، ان دنوں اپوزیشن کے قائد مرار جی ڈیسائی تھے۔ برسرتذکرہ بھارتی سیاست کی ایک اور خوبی بیان کر دوں کہ و ہاں مختلف پارٹیاں جو بھی متحدہ محاذ بناتی ہیں‘ اس میں شامل تمام سربراہوں پر مشتمل ایک ہائی پاور کمیٹی بنتی ہے اور اپوزیشن کے سارے فیصلے اتفاق رائے سے ہوتے ہیں۔ اس وقت بھی متحدہ جمہوری محاذ میں متعدد پارٹیوں کے انتہاپسند لیڈر شامل تھے۔مرار جی ڈیسائی کو فوج کی طرف سے پیغام آیا کہ اگر آپ آگے بڑھ کر اندراگاندھی کو ہٹانا چاہیں‘ تو فوج ان کی مدد کو نہیں آئے گی۔یہ ایک انتہائی خفیہ پیغام تھا۔ مرار جی ڈیسائی نے یہ پیغام اعلیٰ سطحی کمیٹی کے سامنے پیش کر دیا اور بتایا کہ اگر ہم چاہیں تو فوج کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کر کے‘ اندراگاندھی کو نکال سکتے ہیں۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ اندراگاندھی کے بدترین دشمنوں سمیت تمام لیڈروں نے بیک زبان ایک ہی بات کہی کہ ہم فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا راستہ نہیں دے سکتے اور اس پر مستزاد یہ کہ اتفاق رائے سے طے پایا کہ اندراگاندھی کو اس پیغام کی اطلاع دے دی جائے۔ مرارجی ڈیسائی نے اندراگاندھی کو پیغام بھیجا کہ آپ اپنے جنرلوں پر نظر رکھیں‘ ان کی طرف سے ہمیں اچھا پیغام نہیں ملا۔ ہم آپ کو باخبر کرنا چاہتے ہیں کہ جنرلوں کی نقل و حرکت پر خاص نظر رکھی جائے، جس کے بعد اندراگاندھی نے فوراً ہی صف اول کے جنرلوں کودائیں بائیں کر دیا اور سازش ناکام ہو گئی۔
یہ سب کچھ میں نے اس لئے لکھا کہ پاکستان کے عاقبت نااندیش سیاستدان جو باربار ایک ہی بل سے ڈسے جاتے ہیں‘ آج پھر اپنے آپ کو بحران میں دھکیل رہے ہیں۔ کرپشن کی انتہا کر کے‘ انہوں نے اپنی عزت خاک میں ملا رکھی ہے۔ عوام انہیں عزت نہیں‘ نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اپنی پیشہ ورانہ حدود کی سختی سے پابندی کرتے ہوئے‘ فرائض انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی نظر اٹھا کر بھی سیاسی معاملات کی طرف نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ جب پوری صورتحال نوازشریف کے خلاف ہو چکی تھی‘ انہیں حتمی فیصلے کا موقع دیا گیا، لیکن راحیل شریف نے صاف کہہ دیا کہ میں حکومت اور حزب اختلاف کے جھگڑے کو ختم کرنے میں تو کردار ادا کر سکتا ہوں، لیکن میں وزیراعظم کو ہٹانے کے معاملے میں فریق نہیں بن سکتا۔ ان کے اس ایک جملے کے بعد حوصلہ ہارے ہوئے نوازشریف‘ جو استعفیٰ دینے کا سوچ رہے تھے‘ پھر سے شیر بن گئے اور اپوزیشن، جو دائو لگانے کی تیاریاں کر رہی تھی‘ اچانک صف بندی کر کے پارلیمنٹ اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے کھڑی ہو گئی۔ لیکن ہر جنرل‘ راحیل شریف نہیں ہوتا۔ ہمیں اب تک جتنے فوجی سربراہ ملے ہیں‘ ان کی اکثریت اقتدار کی بھوکی تھی۔ چند جنرل انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ان میں ایک جنرل موسیٰ خان ہیں۔ ان کے بعد جنرل ٹکا خان حقیقی فوجی ثابت ہوئے۔ ان کے بعد وحید کاکڑ نے فوج کے وقار کو سربلند کیا۔ باقی جتنے بھی آئے یا تو اقتدار پر قابض ہوئے یا اپنی کوششوں میں ناکام ہو کر ‘ نامراد اپنے گھروں کو گئے۔ ان میں جنرل آصف نواز‘ مرزا سلم بیگ‘ اشفاق پرویزکیانی یہ سب اپنی کوششوں میں ناکام ہو کر رال ٹپکاتے ہوئے‘ گھروں کو گئے۔ ان میں سے کچھ نے میڈیا میں اپنے قصیدہ گو رکھے ہوئے ہیں۔ وہ جانیں اور ان کا کام جانے، مگر حقائق میں نے بیان کر دیئے ہیں۔
آج کی صورتحال ایسی ہے کہ جنرل جہانگیرکرامت بھی ہوتے‘ تو اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ بلکہ موجودہ حکمران سیاستدانوں کو نکالنا ثواب کا کام سمجھتے ہوئے‘ وہ اقتدار پر قبضہ کرتے اور شاید پرانے آمروں سے بہتر آمر ثابت ہوتے۔ مصیبت یہ ہے کہ ہر آمر آتے ہی‘ کرپٹ سیاستدانوں کی مدد سے اچھی حکومت چلانے کی کوشش کرتا ہے‘ جو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی اور نہ کبھی ہوئی۔اگر ان دنوں کوئی اقتدار کا بھوکا فوج کا سربراہ ہوتا اور آبپارہ کا ایک اردلی‘ وزیراعظم کے پاس پیغام لے کر جاتا‘ تو میں وثوق سے لکھ سکتا ہوں کہ ہمارے وزیراعظم ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر حسب عادت کل جماعتی کانفرنس طلب کرتے اور ہنگامی نوعیت کا پیغام دیتے کہ تمام مدعوئین دو گھنٹے کے اندر اندر وزیراعظم ہائوس پہنچ جائیں۔ اس کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے‘ وزیراعظم نے صرف اتنا ہی کہا ہوتا کہ آبپارہ سے پیغام آیا ہے‘ تو سارے حاضرین بلاتوقف ہاتھ کھڑے کر کے‘ درخواست کرتے کہ جناب وز یراعظم مزید ایک لمحے کی تاخیر بھی خطرناک ہے۔ مولانا فضل الرحمن فوراً ایک ڈرافٹ تیار کرتے۔ جسے تمام رہنما چھیناجھپٹی کر کے‘ ایک دوسرے سے پہلے دستخط کرنے کے عمل سے گزرتے۔ اس ڈرافٹ میں درخواست کی گئی ہوتی کہ پاکستان کی تمام جمہوری طاقتیں اتفاق رائے سے درخواست کرتی ہیں کہ جنرل راحیل شریف اس بحرانی دور میں بلاتاخیر ملکی انتظام سنبھال لیں۔ ہم سب اور عوام ‘ ان سے خلوص دل کے ساتھ تعاون کرنے کو بے قرار ہیں۔
مگر ان کرپٹ‘ جھوٹے اور نااہل حکمرانوں کی قسمت اچھی ہے کہ فوج انہیں فراخ دلی سے سدھرنے کا موقع دے رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کی رسی دراز کر رہی ہے، لیکن یہ عقل کے اندھے‘ وقت سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ نیب نے ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں اقتدار سے فائدہ اٹھانے والے کرپٹ لوگوں کی فہرست جمع کرا رکھی ہے۔ قانون پر عملدرآمد کر کے‘ سارے مجرموں کو سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ جنہوں نے اپنا پیسہ باہر چھپا رکھا ہے‘ وہ سب نیب کی مدد سے اپنی دولت کا ایک حصہ ملک کو دے سکتے ہیں۔ بدعنوان اور کرپٹ افسروں کو ملازمتوں سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔ کرپٹ اور بدنام سیاستدان‘ رضاکارانہ طور پر انتخابی عمل سے باہر ہو سکتے ہیں۔ اس طرح ملک فوج کے اقتدار سے بھی بچ سکتا ہے۔ ملکی نظم و نسق بھی بہتری سے چلایا جا سکتا ہے ۔ اپنی اصلاح اور توبہ کرنے والوں کو سیاسی عمل میں حصہ لینے کی اجازت بھی مل سکتی ہے اور عوام کے اندر غم و غصے کا جو لاوا پک رہا ہے‘ وہ بھی ٹھنڈا ہو سکتا ہے۔ مگر مجھے اپنے نااہل سیاستدانوں میں یہ اہلیت نظر نہیں آ رہی کہ یہ خود اپنا بچائو کر کے‘ نارمل زندگی کی طرف جا سکیں اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف‘ ان کی رسی دراز کر کے انہیںجو موقع دے رہے ہیں‘ اس کا فائدہ اٹھا سکیں۔ آخر میں عوام کے دلوں میں مچلتی ہوئی یہ خواہش بھی سامنے لانا چاہوں گا کہ اگر کوئی خدا کا بندہ اس بگڑے اور تیزی کے ساتھ تباہی کی طرف بڑھتے ہوئے نظام کو سنبھالنے کے لئے آگے نہیں آتا‘ تو پھر تاج اچھالے جائیں گے اور تخت گرائے جائیں گے۔ سارے شرق اوسط میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پاکستان ان سے الگ نہیں۔ ہمارے لیڈروں نے ہمیں بھی یہاں ایک قوم نہیں بننے دیا۔ یہاں قومی بغاوت نہیں ہو گی۔ گروہی بغاوتیں ہوں گی، جیسے کہ عراق‘ افغانستان‘ شام‘ یمن‘ لبیا‘ بحرین‘ مصر اور سارے نام نہاد عالم اسلام کے اندر ہو رہی ہیں۔ ہمارے ''برادر اسلامی ملک‘‘ جس صورتحال سے گزر رہے ہیں‘ ہم بھی اس کا شکار ہو گئے‘ تو صرف ایک فرق پڑے گا کہ یہ ایک خونی مارشل لا سے ہمیں بچانے کی آخری کوشش ہو گی۔ مجھے تو اس کوشش کی کامیابی کا بھی یقین نہیں۔