تحریر : ریحام خان تاریخ اشاعت     11-10-2015

اے راہ حق کے شہیدو

اسفند یار کا ذکر شاہنامہ میں کچھ یوں آیاہے کہ جس نے اسفند یار کا خون بہایا۔ان کی زندگی پر نحوست اور موت میں جہنم یقینی ہوگی۔ اسفند یار کو زر تش نے اپنے دشمنوں سے لڑنے کے لیے جنت سے ڈھال اور زنجیر دی تھی۔ مرنے سے پہلے اس نے رستم کے جسم پر اتنے وار کیے کہ وہ نڈھال ہوگیا۔ آخر میں اسفند یار کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ تھارستم نے اس کی آنکھ میں ایک مخصوص لکڑی کا تیر مارا تو وہ گر پڑا۔ اٹک میں بسنے والے ڈاکٹر فراز اور ان کی اہلیہ کے آنگن میں جس پھول نے جنم لیا اس کا نام رکھتے ہوئے شاہد انھوں نے سوچا ہو کہ وہ ایران کے شہزادے کی طرح تاریخ کا حصہ بنے گا۔ کیپٹن اسفند یار نے محض ستائیس سال کی عمر میں شجاعت کی وہ مثال قائم کر کے اپنے نام کی لاج رکھ لی۔ ان کی بہادری کا قصہ سن کے ہی لگتا ہے کہ ان کے پاس بھی DIVINE طاقت تھی۔ آج اس نوجوان کی وجہ سے جو اگر اپنے کمرے میں یا اپنی گاڑی میں بیٹھا رہتا تو محض ایک عام کپتان رہ جاتا لیکن اس کے آگے بڑھ کے لڑنے کی وجہ سے سات سو لوگوں کی جانیں بچ گئیں۔یہ نوجوان شہادت کا خواہشمند تھا۔ چودہ اگست کو جب وہ آخری بار اپنی سالگرہ کے موقع پر گھر آیا تو ماں نے پوچھا کہ تمھارے لیے کیسی لڑکی ڈھونڈیں۔اس پر اسفند یار نے خوبیوں کی ایک لمبی فہرست بیان کر ڈالی۔جس پر گھر والوں نے کہا کہ ایسی تو جنت کی حور ہی ہوگی وہ مسکرایا اور جواب دیا کہ میں تو ایسے بھی شہید ہوں گا لڑکی نہ ڈھونڈیں حور کا انتظار کر لیتے ہیں۔ جب میں اسفند یار کی والدہ کے پاس افسوس کے لیے گئی تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگیں کہ شہادت تو میرے بیٹے کا نصیب تھا۔ لیکن اتنی جلدی شہادت اسفندیار کو گلے لگا لے گی یہ کیا خبر تھی، ماں کی التجا یہ تھی کہ جس نوجوان نے اتنے کم سالوں میں انگنت کامیابیوں، شیلڈ، تمغات، سرٹیفکیٹ سے گھر بھر ڈالا۔اعزازی شمشیر لینے والا یہ ماں کا شہزادہ بڈھ بیر بیس میں رہنے والوں کی جانیں تو بچا گیا لیکن اس کی قابلیت کی اگر حفاظت کی جاتی تو وہ اپنے کیرئر میں آگے جاکر پاکستان کے اعلیٰ ترین سپہ سالاروں میں ہو سکتا تھا۔ ماں نے بیچارگی سے بھری ہوئی بے خواب آنکھوں سے میری طرف دیکھ کر کہا کہ میں ایک شہید کی ماں ہوں اﷲ پاک نے ہمیں بہت بڑا اعزاز دے دیا ہے لیکن پاکستان نے ہمیں کیا دیا۔ ستائیس سال کی راتوں کے جگ راتے کا حساب مجھے کون دے گا؟۔27 سالوں کی تربیت کا نتیجہ مجھے کیا ملا؟ ہم جیسے والدین جو اپنے بچوں کو پاکستان کی بقاء کے لیے لڑنے کا سبق دیتے ہیں جو حلال کی کمائی اور سچ اور حق پرکھڑے رہنے کی تلقین کرتے ہیں ان کی محنت کا کیا یہ صلہ ہے ۔ بڈھ بیر بیس میں دہشت گردوں نے فضائیہ کے محافظوں کا بھیس ڈھال کر 35 معصوم جانوں کو شہید کر ڈالا۔اگر وہ وردی جس کے لیے اسفند یار نے کیڈٹ کالج کے ٹیسٹ پاس کیے مثالی کارکردگی دکھائی اعلیٰ اعزازات حاصل کیے ، باکسنگ، ہاکی، فٹ بال، سوئمنگ، ڈیبیٹنگ، بیالوجی یعنی ذہنی اور جسمانی ہر شعبے میں ایک اعلیٰ معیار حاصل کیا۔ کیا وہ وردی اتنی سستی ہو گئی ہے کہ کوئی بھی کچھ سکوں کے عوض وردیاں خرید کر قوم کے قیمتی اثاثے کا لہو بہا سکے ۔اگر ایسا ہی ہے تو والدین اپنے بچوں کو وردی پہنانا چھوڑ دیں گے ۔وطن کے سجیلے جوان جو وردی زیب تن کریں جو بیج ان کے بہادر سینوں پر آراستہ ہوں اور جو ستارے ان کے ذمہ دار کندھوں کے لیے مخصوص ہوں وہ کیا اتنی آسانی سے مل جانے چاہیے ؟ کہ کوئی بھی انھی جوانوں کو انھی کی وردی پہن کر شہید کر ڈالے ۔ سرفروشی ان کا ایمان یقینا ہے ۔ جراتوں کے پر ستار ضرور ہوں گے اور ہماری سرحدوں کی حفاظت کے لیے جان وارنے سے کتراتے نہ ہونگے ۔ لیکن کیا ہم دشمن کو جوانوں کے گھروں میں آکر قتل کرنے کی گنجائش دیتے رہیں گے ؟
میرا بیٹا جب ٹرین میں سوار ہوتا ہے تو میں یہ فکر کرتی رہتی ہوں کہ کہیں وہ دروازہ بند ہونے سے زخمی نہ ہو جائے ۔ گاڑی چلاتا ہے تو ڈرتی ہوں کہ تیز نہ چلائے ۔ اور اسفند یار کی ماں کا سوچیں کہ وہ کس آزمائش سے گزرتی ہو ں گی۔ ہر شام جب تک وہ اپنے لال کا چہرہ(skype) پر نہ دیکھتی ہوگی تو اسے نیند کیسے آتی ہو گی۔خطروں سے واقف ہو کے ایسی مائیں بڑی ہمت سے اپنے بچے فوج میں بھیجتی ہیں۔کیا ان کی ہمت کو ہم اس طرح سلام سے سلام پیش کر رہے ہیں،کتنی اور لاشیں کتنے اور جوان کتنے اور نمازی کتنے اور بچوں کی قربانی چاہیے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں کتنے اور حکمران کتنے اور سیاست دان کتنے اور بیانات برداشت کرنے پڑیں گے ۔
اے پی ایس کے بعد سوچا تھا کہ اب قوم اور ادارے سب ہنگامی حالات میں اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے ۔نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہو گا لیکن یہ صاف ظاہر ہے کہ دشمن ہم سے زیادہ متحد اور چالاک ہے ۔ اپنا کم سے کم نقصان کر کے ہمیں بھاری نقصان دے جاتا ہے اور ہم اگلے سانحہ کا انتظار کرتے ہیں۔ فیس بک پر شہید کی تصویر لگا لیتے ہیں،ٹاک شوز کو ہفتے کا مواد مل جاتا ہے اور ہم اپنے بیرونی دوروں اور اپنی طویل میٹنگز میں مصروف ہو جاتے ہیں،کسی نے مجھ سے یہ پوچھا کہ آپ نے اتنی جلدی جاب کیسے ڈھونڈی، اتنی جلدی کامیاب کیسے ہوگئی، عرض یہ ہے کہ جب انسان کو ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے تو وہ راہیں نکال لیتا ہے ۔ میں نے تین بچوں کو پالنا تھا یہ چوائس نہیں تھی کہ آرام سے بیٹھ جاؤں اسی لیے مشکلات کا حل نکالا نیک نیتی سے محنت کی۔ اﷲ نے دروازے خود کھول دیئے ۔ میں شرطیہ کہہ سکتی ہوں کہ آپ اسفند یار کی ماں کو نیشنل ایکشن پلان پر لگا دیں گے ۔آپ سب کی کمٹمنٹ اور کارگردگی ہم نے دیکھ لی ہے ۔ ٹی وی کا ایک اصول ہے ،ریٹنگ نہ دو تو فارغ کر دیا جاتا ہے ۔یہاں بغیر پرفارمنس اور نا اہلی کے باوجود ہمارے ہی ووٹوں سے لوگ منتخب ہوتے ہیں جبکہ عوام کا خون بہتا رہتا ہے کہ ہم چپ چاپ سہتے چلے آئے ہیں اورچلے جائیں گے ۔

 

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved