تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     11-10-2015

جھوٹ کی حکمرانی

دیانت و امانت اور اخلاقی اصولوں کے بغیر کون سی جمہوریت؟ جنابِ والا کون سی جمہوریت؟ ہر طرف جعل سازی ہے اور ہر طر ف جھوٹ کی حکمرانی ؎
خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا 
آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاںؐ گئی
عمران خان کے تلخ لہجے پر کچھ شاندار تحریریں چھپی ہیں۔ دانشور نے کہا کہ کپتان شیخ رشید کے انداز سے متاثر ہوا ہے۔ بات سچّی ہے۔ اختلاف ایک چیز ہے اور ناشائستگی بالکل دوسری۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان معزز دانشوروں نے حکومتی طرزِ عمل پر غور کی زحمت بھی گوارا کی؟ وفاقی وزیرِ اطلاعات کا یہ اعلان کہ عمران خان غدار اور ملک دشمنوں کا آلۂ کار ہے؟ کیا سمن آباد کے جلسۂ عام سے براہِ راست نشر کیا جانے والا حمزہ شہباز کا خطاب انہوں نے سنا ہے، جس میں انہوں نے ارشاد فرمایا: الیکشن کمیشن کی وجہ سے کھل کر میں بات نہیں کر سکتا‘ لیکن جتنی محبت آپ نے ہم سے کی ہے، اس سے دس گنا محبت ہم آپ سے کریں گے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ اگر آپ ہمیں ووٹ دیں تو سرکاری خزانوں کے منہ کھول دیے جائیں گے۔ اس سے قطعِ نظر کہ جائز ہے یا ناجائز، آپ کا ہر مطالبہ مان لیا جائے گا۔ 
فقط یہی ایک اعلان کافی تھا کہ الیکشن کمیشن نون لیگ کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرتا مگر بیچارہ کمیشن۔ دونوں طرف سے دبائو کا وہ شکار ہے اور یکسر بے بس۔ فقط ایک حمزہ شہباز کا خطاب ہی نہیں۔ تحریکِ انصاف کے الزامات کو چھوڑیے، آزاد ذرائع کا کہنا بھی یہ ہے کہ گھبرائی ہوئی حکومت نے ہر اس سرکاری محکمے کو انتخابی مہم میں جھونک دیا ہے، جسے جھونکا جا سکتا۔ وفاقی وزرا کی ایک ٹیم کو لاہور بھیجا گیا ہے۔ کبھی کھل کر اور کبھی اشارے کنایے میں یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ حلقہء انتخاب میں ترقیاتی منصوبوں کا انحصار ووٹروں کے رویّے پر ہے۔ 
بھکّی نام کے علاقے میں وزیرِ اعظم نے کس چیز کا افتتاح کیا؟ افتتاح اس وقت کیاجاتا ہے، جب کوئی منصوبہ پیداوار شروع کرنے والا ہو۔ کیا مشینری وہاں پہنچا دی گئی ہے اور اس کی تنصیب کا آغاز ہونے والا ہے؟ سب سے زیادہ دلچسپ خطاب وزیرِ اعلیٰ کا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 95 ارب کا یہ منصوبہ 55 ارب میں مکمل کر لیا جائے گا۔ پوری قوم سے داد کے وہ طالب ہوئے کہ کیسی دیانت اور کیسی کفایت شعاری کا مظاہرہ انہوں نے کیا ہے ۔ اس وقت جب نندی پور کی رسوا کن داستان کا چرچا ہے۔ جب اس الزام کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی ہے کہ لاہور اور اسلام آباد میں میٹرو منصوبوں کی لاگت دنیا بھر سے زیادہ ہے۔ جب یہ سوال فضا میں معلق ہے کہ دو سال گزر جانے کے باوجود قطر سے درآمد کی جانے والی گیس کی قیمت کا حتمی تعین اب تک نہیں ہو سکا، اس دعوے کا کیا اثر ہو گا کہ بجلی کے ایک منصوبے میں کفایت اور احتیاط سے کام لیا جائے گا۔ دعوے تو نندی پور کے باب میں بھی بہت تھے۔ بھکّی پر فیصلہ تب صادر ہو گا‘ جب اس کی تکمیل ہو چکے گی۔ ابھی سے آپ داد کے طالب کیوں ہیں؟ بعض دوسرے منصوبوں کا شہباز شریف صاحب نے حوالہ دیا کہ دو گنا اخراجات کے ساتھ تعمیر کیے گئے۔ فطری طور پر سوال یہ ہے کہ سینکڑوں ارب روپے برباد کرنے والوں کا احتساب کیا حکومت
کی ذمہ داری نہیں؟ آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف دندناتے پھرتے ہیں۔ پھر کیونکر یہ فرض کر لیا جائے کہ قومی دولت پر آپ حساس اور دردمند واقع ہوئے ہیں؟ اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر سرکاری اشتہارات کی بھرمار ہے۔ جن کا پیغام یہ ہے کہ سوئی ہوئی حکومت جاگ اٹھی ہے۔ عوامی بہبود کے لیے اب اس نے دن رات ایک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حلقہ 122 کے لیے؟ بلدیاتی الیکشن کے طفیل؟ 
ہفتے کے دن وزیرِ اعظم نواز شریف نے لاہور کے گورنر ہائوس میں اڑھائی گھنٹے تک اخبار نویسوں سے بات کی۔ ان میں زیادہ تر ان کے پسندیدہ صحافی شامل تھے۔ کیا یہ لاہور کے انتخابی معرکے پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں؟ تحریکِ انصاف ابھی چند ہفتے قبل ہری پور میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہار گئی تھی‘ اور وہ بھی تیس ہزار ووٹوں سے؟ کیا صوبے میں اس کی حکومت متزلزل ہو گئی؟ قومی اسمبلی میں لگ بھگ دو تہائی اکثریت رکھنے والی شریف حکومت اس قدر خوف زدہ کیوں ہے؟ اس قدر بوکھلا کیوں گئی؟ بے شک لاہو رکا انتخابی مقابلہ اہمیت رکھتا ہے مگر کتنی اہمیت؟ ایک بھگدڑ مچی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ کس قدر خوف دلوں میں جاگزیں ہے۔ وہ بھی اس پارٹی کے مقابلے میں جو حسنِ تنظیم سے محروم ہے اور اپنی ترجیحات کا ڈھنگ سے کبھی تعین نہیں کر سکی۔ خدانخواستہ اگر واقعی ہم کسی طوفان سے دوچار ہو گئے؟ فرض کیجیے، کبھی دشمن کے حملے کا خطرہ پیدا ہوا تو ہمارا فولادی وزیرِ اعظم کیاکرے گا؟ 
اچھی حکمرانی اور کرپشن کا سدّباب کرنے میں تو جناب محمد نواز شریف سے کیا امید وابستہ کی جا سکتی ہے۔ ان کی گھبراہٹ اب یاد دلاتی ہے کہ کس طرح دبے اور پچکے ہوئے طالبان سے وہ مذاکرات کی بات کر رہے تھے؛ تاآنکہ فوجی قیادت نے ضربِ عضب کا آغاز کر ڈالا۔ بے سبب نہیں کہ قوم سیاستدانوں کے مقابلے میں عسکری لیڈرشپ کی طرف زیادہ مائل ہے۔
آدمی کی شخصیت اور صلاحیت کا امتحان آزمائش میں ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ پولنگ سٹیشنوں پر فوج کی تعیناتی اور تحریکِ انصاف کی شاندار انتخابی مہم کے باوجود ایاز صادق جیت ہی جائیں۔ ضمنی الیکشن میں سرکاری امیدوار کو شکست دینا سہل نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ فوراً بعد بلدیاتی الیکشن میں وہ کیا کریں گے؟ میڈیا پر نوازشات کی بارش فرمائیں گے؟ عمران خان کی کردار کشی کریں گے؟ اربوں روپے نمائشی ترقیاتی منصوبوں پر ضائع کر دیں گے؟ اگر ایک بے خوف اپوزیشن لیڈر مرکز اور صوبے میں برسرِ اقتدار حکومت کو اس قدر پریشان کر سکتا ہے تو حقیقی مسائل سے نمٹنے کے لیے اس سے کیا امید وابستہ کی جائے؟ میاں محمد نواز شریف کے لہجے میں خوف گھلا ہے اور عملاً وہ قوم سے رحم کی اپیل کر رہے ہیں۔ مثلاً ان کا یہ ارشاد کہ گالیاں سن کر حریف کو وہ دعا دیتے ہیں۔ عابد شیر علی اور پرویز رشید کو کیا انہوں نے دعا دینے کے لیے رکھ چھوڑا ہے؟ 
کاش کہ عملی طور پر انہوں نے کچھ کر دکھایا ہوتا۔ پولیس کی حالت بہتر بنائی ہوتی۔ نچلی عدالتوں میں اصلاحات کا آغاز کیا ہوتا۔ ساڑھے سات برس میں پٹوار کی گرفت ہی کچھ ڈھیلی کر دی ہوتی۔ سکولوں کے اساتذہ کی تربیت شروع کر دی ہوتی۔ صحت کے بیمار نظام میں کچھ تھوڑی سی بہتری آ گئی ہوتی۔ بالکل برعکس صحت سمیت ہر منصوبے کا بجٹ کاٹ کر روپیہ میٹرو ٹرین میں جھونکا جا رہا ہے۔ 
کچھ بھی نہیں۔ شعبدہ بازی ہے، خوف ہے اور واویلا۔ عمران خان نے ایک ہزار غلطیاں کی ہوں گی اور ان سب پہ اس کا احتساب ہونا چاہیے۔ خود حکومت کی فردِ عمل میں مگر کیا ہے کہ جس پر وہ فخر کر سکے؟ 
لاہور کی انتخابی جنگ میں اخلاقی حدود اور تمام متعلقہ قوانین کو جس بے دردی سے پامال کیا گیا، اس کے بعد کون اس جمہوریت سے امید وابستہ کرے گا؟ واقعہ یہ ہے کہ قانون نام کی اگر کوئی چیز اس ملک میں ہوتی، الیکشن کمیشن واقعی اگر زندہ ہوتا تو انتخابی معرکے کو کالعدم قرار دے کر دونوں امیدواروں پر پابندی عائد کرتا۔ دونوں پارٹیوں پر بھاری جرمانے عائد کیے جاتے۔ 
دیانت و امانت اور اخلاقی اصولوں کے بغیر کون سی جمہوریت؟ جنابِ والا کون سی جمہوریت؟ ہر طرف جعل سازی ہے اور ہر طر ف جھوٹ کی حکمرانی ؎
خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا 
آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاںؐ گئی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved