تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     11-10-2015

مظلومیت کے سوداگر

لاہور میں الیکشن کا بخار عروج پر ہے۔ میں بھی دوستوں کے ہمراہ لاہور میں موجود ہوں۔ لاہور کے ساتھ بہت یادیں جڑی ہیں۔ میں اور شعیب بٹھل یہاں بیروزگار اور خالی جیب سڑکوں پر جوتے گھساتے تھے۔ یہ بہت مشکل کا دور تھا لیکن گزرگیا، اب سب اچھا لگتا ہے بلکہ مشکل دنوں کے ساتھ عجیب سا رومانس ہو گیا ہے۔ شاید قرۃ العین حیدر نے درست لکھا تھا، جب انسان مشکلات سے دو چار ہوتا ہے تو اسے لگتا ہے وہ پیدا ہی مشکلات کے لیے ہوا تھا، لیکن جونہی مشکل دور گزر جاتاہے، اسے لگتا ہے وہ ایسے ہی پریشان رہا، یہ تو کوئی بات ہی نہیں تھی۔ پھر گزرے ہوئے مشکل وقت کو یاد کر کے آنسو بہاتا ہے، ماضی اسے اچھا لگتا ہے کیونکہ ماضی اور اس سے جڑی مشکلات واپس نہیں لوٹ سکتیں۔ 
ان یادوں کو تڑکا اس وقت لگا جب رات گئے عامر متین، ارشد شریف، حامد میر، طاہر ملک، عاطف متین کو ہمارے جگری دوست اور صحافی ہما علی لاہورکا روایتی کھانا کھلانے لے گئے۔ ہما علی کو ہم سب پیار سے ڈارلنگ کہتے ہیںکیونکہ جو بھی اس سے ملتا ہے وہ اس کے لیے ڈارلنگ کا درجہ رکھتا ہے۔ ہما علی نے اپنے نام کا بہت فائدہ اٹھایا۔ 1990ء کی دہائی میں سات دفعہ لاہور پریس کلب کا صدر بنتا رہا۔ اکثریت یہ سمجھتی تھی کہ ہما علی کسی خوبصورت مٹیار کا نام ہوگا۔ چھ فٹ سے زیادہ قد، فربہ جسم، چہرے پر مونچھیں اور مونچھوں میں مسکراہٹ سب کو ہما علی کا گرویدہ بنا دیتی ہے۔ 
ہر جگہ الیکشن کی بات ہو رہی ہے۔ عمران خان کی لاہور میں موجودگی نے الیکشن کا رنگ بدل دیا ہے۔ ایاز صادق‘ جو آرام سے علیم خان سے جیت رہے تھے، اب مشکل میں ہیں۔ دانتوں کو پسینہ آنے کا محاورہ سنا تو تھا لیکن اس کا عملی مظاہرہ لاہور میں دیکھ رہا ہوں جہاں آٹھ سال سے پنجاب میں چوتھی دفعہ وزیراعلیٰ اور تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم بننے والے شریف برادران کے شہر میں تحریک انصاف نے لاہوریوںکو اس حد تک بدظن کر دیا ہے کہ ایک درجن سے زیادہ وزراء حلقے میں جتے ہوئے ہیں۔ سب کی تنقید کا محور عمران خان ہے۔ لگتا ہے، اس ملک میں جو اچھا ہوا وہ شریف برادران کی بدولت اور جو برا ہوا اس کا ذمہ دار عمران خان ہے۔ عمران خان ہارے یا جیتے لیکن یہ طے ہے کہ اس نے پاکستان کے لوگوںکو بڑی کامیابی سے یہ تاثر دے دیا ہے کہ اس ملک میں اصل اپوزیشن وہی ہے۔ اس کا فائدہ عمران خان کو نئے الیکشن میں ہوگا۔ پیپلز پارٹی اللہ کے فضل سے تقریباً دم توڑ چکی ہے۔ زرداری صاحب بیرون ملک اپنے اور اپنے یاروںکے بنک اکائونٹس بھرتے بھرتے اپنی پارٹی کی پیٹھ میں ایسا چھرا گھونپ بیٹھے ہیں‘ جس کا علاج اب شاید حکیم لقمان کے پاس بھی نہ ہو۔ اب پیپلز پارٹی کو نہ کوئی سنجیدگی سے لیتا ہے اور نہ لاہورکے جلسوں میں ان بے چاروں کی کوئی جلسی نظر آتی ہے۔ دکھ ہوتا ہے کہ پارٹی تباہ ہوکر رہ گئی، اور اس کا قتل اس کے اپنے لیڈروں کے ہاتھوں ہوا۔ 
سوچتا ہوں، نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے موجودہ لیڈرآخر کب تک اپنی مظلومیت کی داستان سنا کر میرے جیسے چھوٹے دل کے لوگوں کو رلاتے رہیںگے۔ تین دفعہ ملک کا وزیراعظم، چار دفعہ وزیراعلیٰ اور اربوں روپوں کے کاروبار اور منافع کے بعد بھی رونا دھونا نہیں گیا ۔ حمزہ شہباز کی تقریر سنی، وہ عوام کو رلا رہے تھے کہ دیکھیں ان کے ساتھ کیا ظلم ہوا۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو اپنے باپ کی میت بھی قبر میں اتارنے کی اجازت نہ ملی۔ انہوں نے جس طرح مظلومیت کی داستان سنائی، میرے جیسے انسان کے بھی آنسو نکل آئے۔ وہ یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ اس دھرتی کو چھوڑ کر سعودی عرب میں ڈیرے لگانے کا فیصلہ ان سب کا اپنا تھا۔ ان کے پاس چوائس تھا، انہوں نے جو چوائس استعمال کیا، اس پر رونا کیسا؟ اس میں ہمارا کیا قصور؟ اگر وہ سب بہادری سے جیل میں بیٹھے رہتے تو پیرول پر رہا ہوکر یہ سب رسومات ادا کر سکتے تھے۔ نواز شریف صاحب سے جب بھی کسی کی ملاقات ہوتی ہے وہ پاکستان آرمی کے ان جرنیلوں کے نام بتانا نہیں بھولتے جنہوںنے ان کو وزیراعظم ہائوس سے گرفتارکیا اور ہتھکڑیاں لگا کر جہاز میں کراچی لے گئے۔ یہ داستانِ غم ہم سب نے سینکڑوں بار سنی اور آنسو بہائے ہیں۔ وہ شکر ادا نہیں کرتے کہ جس ملک کے وہ حکمران ہیں وہاں کی پولیس اور ادارے عوام کا کیا حشر کرتے ہیں‘ یہی پولیس اور ادارے ان کے ذاتی غلام بنے ہوئے ہیں۔ کیا وہ اس باپ سے بھی زیادہ مظلوم ہیں جو لاہور کے ایک تھانے کے باہر ساری رات کھڑا رہا کہ اسے ایک سپاہی نے اطلاع دی تھی آج رات تمہارے بیٹے کو پولیس مقابلے میں مار دیا جائے گا۔ اس نے سب کو فون کیے، منتیں کیں،۔ پائوں پکڑے لیکن بالآخر اسے اپنے جوان بیٹے کی لاش لے کر گھر جانا پڑا۔ لمحہ بھر اپنے آپ کو اس باپ کی جگہ رکھ کر سوچیں۔ دوستو وسکی جیسے ادیب کے ہاتھ وہ چند لمحے لگ جاتے تو وہ کتنا بڑا ادب تخلیق کرتا، اس سے بہتر انسانی نفسیات پرکوئی نہیں لکھ سکتا۔ ذرا سوچیں، ایسے میںایک باپ پرکیا گزری ہوگی! یہ واقعہ لاہور میں ہوا تھا۔ ایسی مثالیں آپ کو فیصل آباد میں بھی ملیںگی۔ ماتم کرتی چار مائوں کی ویڈیو یوٹیوب پر مل جائے گی، جن کے چار بچوں کو پولیس نے پکڑ کر گولیاں مار دیں۔ کون زیادہ مظلوم ہے؟ آپ یا وہ مائیں جن کے بچوںکو بھون ڈالاگیا! شاید اسی لیے یو ٹیوب بند ہے کہ ان کے بھی بہت سے کرتوت وہاں دفن ہیں۔
پیپلز پارٹی بھی مظلومیت بیچتی چلی آئی ہے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی سے لے کر مرتضیٰ، شاہنواز اور بینظیر بھٹو تک۔ اس میں کوئی شک نہیں، بھٹو خاندان کے ساتھ سب سے زیادہ ظلم ہوا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ ایک پارٹی کب تک مظلومیت کے سہارے سیاست کرے گی؟ کوئی جلسہ دیکھ لیں، ٹی وی شو یا اسمبلی کے اجلاس، جب کچھ نہیں ملے گا تو پھر یہی مظلومیت ہی ہوگی۔ 
کیا آپ نے کبھی بھارت میں کانگریس پارٹی کی لیڈر سونیا گاندھی یا راہول گاندھی کو کسی جلسے میں اپنے خاندان کی مظلومیت کا رونا روتے دیکھا؟ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی دونوں قتل ہوئے، سنجے گاندھی ہیلی کاپٹر حادثے میں مارا گیا۔ بھارت میں کتنی دفعہ اس خاندان نے مظلومیت کارڈ کھیلا ؟ وہاں یہ گنجائش نہیں کہ آپ مظلومیت کا رونا روئیں۔ تھرڈ ورلٖڈ ممالک کا حکمرانوں کی وجہ سے ہی یہ حشر ہوا، وہاں اسی طرح کی سیاست ہوتی ہے، تخت یا تختہ ! یہ لوگ پارٹی میں کسی اورکو اوپر نہیں آنے دیتے۔ برطانیہ کی لیبر پارٹی یا امریکہ کی ری پبلکن پارٹی کی طرح آپ کی پارٹیوں میں کوئی ڈیبیٹ نہیں ہوتی۔ وہاں تاحیات پارٹی لیڈر نہیں ہوتے۔ اگرآپ سب کچھ اپنے ہاتھ میں رکھیں گے، تاحیات پارٹی کے سربراہ اور ملک کے حکمران رہنا چاہیں گے، عوام کے ان داتا بنے رہنے پر اصرار کریں گے تو حضور! پھر سب عذاب بھی آپ پر ہی اتریںگے۔ یہ حکمرانوں کی سرمایہ کاری ہے، سیاست ان کا کاروبار ہے، جس کا ریٹرن بہت زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ سب اپنی جانوںکا رسک لے کر سیاست کرتے ہیں۔ یہ کاروبار فائدے اور نقصان کی طرح ہے۔ جہاں آپ کو زیادہ منافع نظر آتا ہے آپ وہی کاروبار کرتے ہیں۔ اگر میاں نواز شریف کے لیے پارٹی قیادت اور حکمرانی کانٹوں کا ہار تھی اور انہیں مصیبتوں کا سامناکرنا پڑگیا تو مان لیں، غلطی ان کی اپنی تھی۔ اقتدار پھولوں کی سیج نہیں ہوتی، کانٹوںکا ہار ہی ہوتا ہے۔کوئی کسی کے پاس گھر جا کر دعوت نہیں دیتا کہ وہ ان کالیڈر بنے۔ یہ آپ کا چوائس ہوتا ہے۔ آپ اس چوائس کو استعمال کرنے کے بعد نہیں کہہ سکتے کہ آپ پر ظلم ہوا۔ ظلم ہرانسان کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ سیاست میں داخل ہونے کے لیے جنرل جیلانی کی کتنی منتیں اور ترلے ہوئے۔ اگر آپ پر ظلم ہوئے تو آپ کو اس کا فائدہ بھی ہوا، بچوں اور نسلوں تک کو فائدہ ہو رہا ہے۔ 
پاکستانی عوام بھی یونانی ڈراموں کے کرداروں کی طرح ہر بڑے انسان پر ہونے والے ظلم پر آنسو بہاتے ہیں۔ کبھی سیزر کی لاش پر رومن رو رہے تھے اور مارک انطونی‘سیزر پر ہونے و الے مظالم کی داستان سنا کر مجمع کو بغاوت پر اکسا رہا تھا یا سوفوکلیز کے شاہکار ڈرامے ایڈی پس کنگ کے ساتھ ہونے و الی ٹریجڈی پر تھیٹر میں موجود سارے رومن رو رہے تھے یا پھر کنگ لیئر کے ساتھ اپنے بچوں کے ہاتھوں ہونے و الے مظالم بھی انسان کو رونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہ صدیوں پہلے طے ہوچکا کہ بڑے انسان پر ہونے و الا ظلم ٹریجڈی کہلاتا ہے۔ عام انسان پر مظالم کا وہ اثر نہیں ہوتا۔ یہ بات ہمارے حکمران سمجھ چکے ہیں اور وہ بار بار اپنی مظلومیت کا رونا روکر عوام کو اس طرح رلائیں گے جیسے رومن شہریوںکو تھیٹر میں سوفوکلیزکے ڈرامے آنسو بہانے پر مجبورکر دیتے تھے۔ یہ حکمران اپنی خوش حالی اور عوام کے پیسوں پر عیاشی کی داستان کا ذکر کبھی نہیں کریںگے۔ ہمارا ملک عجیب ہے جہاں عوام اور حکمران دونوں مظلوم ہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved