دنیا بھر میں کام کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے پر محنت کی جا رہی ہے۔ معاشرتی بہبود سے متعلق برپا کی جانے والی تحقیق کا زور اس بات پر ہے کہ انسان گھر سے خوشی خوشی کام پر روانہ ہو، کام کی جگہ پر جس قدر بھی وقت گزارے ہنسی خوشی گزارے اور دن ڈھلے گھر واپسی کے وقت بھی خوشی کا گراف نیچے نہ آیا ہو۔ گویا معاشی سرگرمیوں کو بہت حد تک پکنک سے مماثل بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔
بہت اچھی بات ہے کہ کام کو زیادہ سے زیادہ پُرسکون بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ مگر کیا یہ ہر معاشرے کا مسئلہ ہے؟ ترقی یافتہ ممالک کے اپنے، انوکھے چونچلے ہوا کرتے ہیں۔ وہاں جو کچھ ہوتا ہے یا کیا جاتا ہے وہ ہر معاشرے کے لیے موزوں نہیں ہوتا۔
ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ دنیا والوں کو معاشی سرگرمیاں آسان سے آسان تر بنانے کی کیوں پڑی ہے؟ آخر ایسی کیا ضرورت آن پڑی ہے کہ اچھے خاصے کام کاج کو بھی تفریح کا رنگ دے دیا جائے؟ کیا ایسا کرنے سے انفرادی (اور ظاہر ہے اجتماعی) کارکردگی کا گراف بلند ہو سکے گا، بہتر نتائج کا حصول آسان بنایا جا سکے گا؟
ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں سوچنے والوں کی مت ماری گئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو وہ اوٹ پٹانگ حرکتوں اور مضحکہ خیز تحقیق کے ذریعے ملازمت پیشہ افراد کا دل بہلانے کی کوششوں میں کیوں مصروف ہوتے؟
چین تیزی سے ابھر رہا ہے۔ معاشی ترقی کا گراف بلند ہو رہا ہے تو لوگوں کی طرزِ زندگی اور مزاج میں بھی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ معاشرتی سطح پر بہت سے تجربے کئے جا رہے ہیں جن کا بنیادی مقصد معاشی استعداد میں اضافہ ہے۔ ایک چینی کمپنی نے اپنے ملازمین کو لگے بندھے کام کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیزاری سے بچانے کے لیے انہیں اجازت دی ہے کہ وہ ماحول کو مختلف طریقوں سے ہلکا پھلکا رکھیں۔ اس کمپنی میں ملازمین کام کے دوران مختلف ماسک لگا کر ایک دوسرے کو چونکاتے اور ڈراتے یعنی ایک دوسرے کا دل بہلاتے رہتے ہیں۔ بیشتر ملازمین کام کے دوران اوٹ پٹانگ قسم کے ماسک لگائے رہتے ہیں تاکہ ماحول پُرسکون اور ہلکا پھلکا رہے۔ اس کے نتیجے میں ذہن پر تھکن کا احساس سوار نہیں ہوتا، کام جاری رہتا ہے اور کارکردگی کا گراف گرتا نہیں۔
ہم حیران ہیں کہ ملازمین کی کارکردگی کا گراف بلند کرنے کے لیے اتنا سوچنے اور سوچے ہوئے پر عمل کی ضرورت کیا تھی؟ ملازمین کو کام کے ماحول میں تفریح کے مواقع فراہم کرنا ان معاشروں کے چونچلے ہیں جو بہت کچھ کر چکے ہیں یا کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ کام کے ماحول کو تفریح سے مزیّن کرنا مغربی معاشروں میں عام ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ بہت کچھ کر چکے ہیں اور تقریباً سبھی کچھ پا چکے ہیں۔ چینی معاشرہ ابھی ارتقائی مرحلے میں ہے۔ ایسے معاشروں میں کام کاج کو کام کاج کی سطح ہی پر رہنے دیا جائے تو اچھا۔ اگر تفریح کی عادت پڑ گئی تو کام کون کرے گا؟
چین ہمارا دوست ملک ہے۔ ہم سے دوستی کا اتنا فائدہ تو ہونا ہی چاہیے کہ وہ ہم سے کچھ سیکھے۔ آپ سوچیں گے ہم میں ایسا کیا ہے کہ چین ہم سے کچھ سیکھے۔ آپ کا ایسا سوچنا غلط نہیں مگر چین ہم سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو یہی سیکھ لے کہ معاشی سرگرمیوں میں تفریح کا عنصر داخل کرنے سے کیا ہنگامہ آرائی ہوتی ہے۔ ملازمین کے لیے ذرا سی تفریح کا اہتمام کیجیے اور پھر دیکھیے کہ کام لینا کس قدر مشکل ثابت ہوتا ہے۔ ملازمین تفریح میں ایسے گم ہو جاتے ہیں کہ مالکان پھر (اپنے) سَر پیٹتے پائے جاتے ہیں! جب کوئی ادارہ ملازمین کا دل بہلانے کا بندوبست کرتا ہے تو ملازمین کام کو سات سلام کرکے تفریح میں گم ہو جاتے ہیں اور مالکان انہیں ڈھونڈتے ہی رہ جاتے ہیں ؎
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
ہر معاشی سرگرمی میں تفریح کا عنصر داخل کرنے کی روش نے ہمیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں صرف تفریح رہ گئی ہے، کام ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔
آج کا پاکستان معاشرہ معاشی سرگرمیوں کے ماحول میں تفریحی کلچر سے عبارت ہے۔ ہر طرف تفریح طبع ہے، ہاؤ ہُو ہے، ہلّا گُلّا ہے۔ اس شور شرابے اور ہنگامے میں کام کاج کہیں گم ہو کر رہ گیا ہے۔ اب اگر کام کا نام لیجیے تو لوگ ایسا مذاق اڑاتے ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔ دفتر ہو یا فیکٹری، دکان ہو یا پتھارا... ہر جگہ تفریح یوں براجمان دکھائی دیتی ہے کہ باقی سب کچھ کسی گہرے کنویں میں پڑا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ لوگ تفریحی سرگرمیوں کے درمیان کام کے لیے بھی کچھ وقت نکال کر ایک دوسرے کو حیرت زدہ کرتے رہتے ہیں!
اور کام بھی کیسا؟ ہر طرف ناٹک ہو رہا ہے۔ کام کے نام پر اب صرف اداکاری رہ گئی ہے اور اس اداکاری کی ہر ادا اتنی کاری ہے کہ کام کی ہر بات کا تیاپانچا کرکے دم لیتی ہے!
ترقی یافتہ معاشروں نے کام کے ماحول کو ہلکا پھلکا رکھنے کی کوشش کے ذریعے اپنا تو کیا بھلا کیا ہو گا، ہمارا حال ابتر کر دیا ہے۔ جہاں عشروں یا صدیوں سے کام ہی ہوتا رہا ہے وہاں تفریح کے بارے میں سوچنا سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں آج بھی معیار زندگی برقرار رکھنے کی خاطر زیادہ سے زیادہ کمانے کے لیے ہفتے میں پانچ دن اس قدر محنت کرنا پڑتی ہے کہ سَر سے پاؤں تک تھکن سے چُور ہو رہنے والوں کو دو دن کی ہفتہ وار تعطیل آسمان سے اتری ہوئی نعمت سی محسوس ہوتی ہے! یہی سبب ہے کہ ویک اینڈ پر وہ لوگ زمانے بھر کی مسرّتیں اپنے دامن میں سمیٹ لینا چاہتے ہیں۔
ہم کیوں تفریح کے دیوانے ہیں؟ ہم نے ایسے کون سے پہاڑ کھود ڈالے ہیں کہ ہم پر تھکن مسلّط ہو گئی ہو اور اب اس تھکن سے نجات پانے کے لیے تفریح کے مواقع تلاش کئے جائیں یا تراشے جائیں؟ ترقی یافتہ دنیا کے چونچلے اسی پر پھبتے ہیں، اچھے لگتے ہیں۔ ہمارے لیے تو یہ غیر متعلق سی چیز ہیں۔ جب ہم ترقی یافتہ دنیا کے اطوار اپناتے ہیں تو مزید مضحکہ خیز ہو جاتے ہیں، دنیا کی نظروں میں مزید تماشا بن جاتے ہیں۔ دنیا والے یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ کام وام کچھ ہے نہیں یعنی تھکن کا نام نہیں اور ہر طرف تفریح کا بازار گرم ہے۔ یہ تو ایسی بات ہے کہ کوئی بھوک نہ لگنے پر بھی زبردستی کھائے اور جواز یہ پیش کرے کہ بعد میں لگنے والی بھوک کے لیے ایڈوانس کھانا کھایا جا رہا ہے! یعنی ہم بھی اس وقت تفریح میں مصروف ہیں۔ بعد میں کبھی کام کرنے کو جی چاہا تو کام بھی کر لیں گے!
چین کی ریاستی مشینری اگر واقعی ترقی کی منازل طے کرتے رہنے کا خواہش مند ہے تو اپنے لوگوں کو ہدفِ تفریح بننے سے روکے۔ اگر مثال دیکھنی ہو تو پاکستان کا جائزہ لے بلکہ چینی نوجوانوں کو پاکستان کے اسٹڈی ٹور کرائے جائیں تاکہ وہ بر وقت کام کے فوائد اور بلا ضرورت تفریح کے نقصان سے مزید واقف ہو سکیں۔ جہاں لوگ رات دن کام کرتے رہتے ہیں وہاں دل کو بہلانے کی خاطر اوٹ پٹانگ حرکتیں بھی منطقی معلوم ہوتی ہیں کہ چلیے، زندگی میں کچھ ورائٹی تو پیدا ہو۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے کام کو کسی خاص وقت پر ٹالتا رہتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ تفریح کے مواقع بھی تلاش کرتا رہتا ہے۔ اس روش پر گامزن رہنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ کام تو کچھ ہوتا نہیں اور معمولات میں تفریح ٹاپ آف دی لسٹ ہے!
ترقی یافتہ یا تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ممالک کے اطوار اپنانے سے پہلے ہمیں علامہ اقبالؔ کے کہے پر عمل کرنا چاہیے کہ ع
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ
جس طور مخمل میں ٹاٹ کا پیوند اچھا نہیں لگتا بالکل اسی طرح کام کئے بغیر آرام اور تفریح کا سوچتے رہنا اپنا مذاق اڑوانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔