تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     12-10-2015

کچھ اِدھر کی‘ کچھ اُدھر کی

پچھلے دنوں ایک دوست سے‘ جو بہت اچھے شاعر بھی ہیں‘ اختلاف رائے پر بات ہو رہی تھی تو انہوں نے کہا کہ میں نے کئی دفعہ محسوس کیا ہے کہ مجھے کسی معاملے پر اپنا اعتراض ریکارڈ کرانا چاہیے اور میں تیار بھی ہوا لیکن پھر خاموش ہو رہا کہ اس کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے۔ حوصلے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ اُس اعتراض کے جواب میں آپ کے شعر پر جو اعتراض وارد کیا جائے گا‘ اُسے سننے کا آپ میں حوصلہ نہیں ہوگا ورنہ آپ دل کی بات ضرور کہہ دیتے حالانکہ آپ کے لیے بھی اس میں سے بہتری کی کوئی شکل نکل سکتی ہوگی۔ پھر‘ آپ کو حوصلہ اپنے کام ہی سے ملتا ہے یعنی اس کی کوالٹی سے دستیاب ہوتا ہے کہ وہ اعتراض برداشت بھی کر سکتا ہے یا نہیں۔ میں کئی بار اور بہت سے لفظوں میں یہ بات کہہ چکا ہوں کہ تنقیص اور تعریف میرے لیے ایک برابر ہیں‘ کیونکہ نہ تعریف میرا کچھ سنوارتی‘ نہ تنقیص کچھ بگاڑتی ہے۔ میں اتنا ہی رہتا ہوں‘ چھوٹا موٹا یا برا بھلا‘ جتنا بھی ہوں۔ ہو سکتا ہے اس کا تعلق میرے کام کی بجائے میری ڈھٹائی سے ہو۔ میں کھل کر اعتراض اس لیے بھی کرتا ہوں کہ مجھ پر بھی کھل کر اعتراض کیا جائے یعنی آبیل مجھے مار۔ ہم اگر اپنی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے لاتعلق رہیں گے تو ان کا ازالہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ ورنہ تو ہم کسی کی تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ ہماری بھی تعریف کی جائے‘ وعلیٰ ہذا القیاس‘ اور اس طرح منافقت ہماری بودوباش کا باقاعدہ حصہ بن جاتی ہے کہ ہم ایک غلط کام کو صحیح سمجھ کر یا غلط سمجھتے ہوئے بھی اس کا اثبات کریں؛ 
چنانچہ اثبات کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ آپ کسی غلط صورتِ حال پہ خاموش رہیں؛ چنانچہ میں کوئی صحیح یا غلط رائے دیتا ہوں تو جواب آں غزل کی بھی توقع رکھتا ہوں اور اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ڈائیلاگ کا فقدان بجائے خود زوال اور اضمحلال کی نشانی ہے۔ مکالمے کا لوگ نوٹس لیتے ہیں بلکہ اس سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں جبکہ کسی کی کوئی جو بھی اور جتنی بھی تعریف کرتا رہے‘ لوگ اسے اہمیت نہیں دیتے؛ چنانچہ ادبی صورتِ حال کو لاتعلقی سے بھی اسی صورت بچایا جا سکتا ہے کہ اختلاف رائے کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ اسی میں ہماری نجات کا کوئی پہلو نکل سکتا ہے اور ''مجھے کیا‘‘ والے انداز کو ترک کرکے ہی اس کا امکان پیدا ہو سکتا ہے؛ تاہم‘ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے باقاعدہ دشمنی قرار دے کر سب وشتم کا ایک بازار گرم کردیا جائے جو کہ کسی صورت بھی مطلوب و مقصود نہیں ہے جبکہ ادب کا تقاضا بھی یہ ہے کہ شائستگی اور کشادہ دلی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ مجھ پر‘ یعنی میری گفتگو یا شاعری پر جو اعتراضات وارد ہوتے ہیں‘ میں بالعموم اُن کا جواب نہیں دیتا کہ گیند جب دوسروں کے کورٹ میں پہنچ چکی ہو تو اس میں میرا دخل انداز ہونا غیرضروری ہو جاتا ہے کیونکہ جو میری سمجھ میں آیا‘ میں نے لکھ دیا اور اس کے جواب میں جو جس کے 
خیال میں آیا اس نے لکھ دیا بلکہ میں نے تو اپنی کسی بات کے درست ہونے پر اصرار چھوڑ‘ اس کا کبھی دعویٰ تک نہیں کیا بلکہ اپنے غلط ہونے کا امکان بھی برابر رکھا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر ملی جلی آراء کے آنے سے ہی میرا مقصد حاصل ہو جاتا ہے کہ بات کے ہر پہلو پر حسبِ توفیق روشنی ڈال دی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ صحت مندانہ بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
اب اس کی ایک چھوٹی سی مثال کہ میں ایسے معاملات میں چُپ کیوں نہیں رہ سکتا۔ مؤقر ماہنامہ ''فانوس‘‘ کے تازہ شمارے میں‘ میری ہی عمر کے بزرگ شاعر‘ جن کے دو چار مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں‘ اور جو شعر کی تنقید بھی بڑے ذوق وشوق سے لکھتے ہیں‘ یعنی ہمارے دوست جناب احمد صغیر صدیقی کی ایک غزل اس پرچے میں شائع ہوئی ہے‘ اس کا آخری شعر قابلِ توجہ ہے ؎
کبھی رُکتی نہیں خوبانِ سروقد کی بہار
کہ یہاں سلسلۂ دارورسن ٹوٹتا ہے
وہ اچھا شعر کہتے ہیں‘ ان کے شعر پر اعتراض نہیں‘ البتہ آپ نے دیکھا کہ موصوف نے ''سروقد‘‘ کو یکجا کرکے اسے ''بروکر‘‘ کے وزن پر باندھ دیا ہے۔ یہ ٹائپ کی غلطی بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ وزن کے لحاظ سے یہاں سروقد پورے وزن میں آتاہی نہیں ہے اور ''خوبان‘‘ اور ''کی بہار‘‘ کے درمیان سروقد کے وزن کا کوئی لفظ یا ترکیب ہو ہی نہیں سکتی‘ اب یہ تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ سروقد کا مطلب سرو جیسے قد والا ہے اور یہ لقب محبوب کے قد کے حوالے سے اکثر اشعار میں لایا جاتا ہے۔ البتہ پنجابی میں سرو کو ''سرو‘‘ یعنی ''لہو‘‘ کے وزن پر ہی لایا جاتا ہے۔ مثلاً ''سرو دا بوٹا‘‘۔ لیکن ایک تو بھائی صاحب پنجابی نہیں ہیں‘ اس لئے ان سے شعر میں پنجابی لفظ لانے کی توقع نہیں کی جا سکتی‘ اور دوسرے انہوں نے اس کے ساتھ اضافت لگا دی ہے جس سے یہ باقاعدہ مفرس ہوگیا ہے‘ اسی لیے ''سرو‘‘ یعنی پنجابی لفظ خارج از قیاس ہے۔ مدیرانِ شہیر محمد شکور طفیل اور خالد علیم میں سے ہمارے اندازے کے مطابق کم از کم ایک تو ضرور شاعر ہوں گے کہ دونوں کے نام بھی شاعرانہ ہیں‘ یا تو انہوں نے اس پر توجہ نہیں دی یا شاید ضرورتِ شعری گردانتے ہوئے اس سے درگزر کیا ہے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ صدیقی صاحب اس طرح کوئی لسانی تجربہ کر رہے ہوں‘ واللہ اعلم بالصواب۔
اور‘ اب آپ کی تواضعِ طبع کے لیے آفتاب حسین کی اسی شمارہ میں شائع ہونے والی یہ خوبصورت غزلؔ
کڑک رہا تھا فلک اور زمیں لرز رہی تھی
مگر وہ خواب کی دُنیا نہیں لرز رہی تھی
وفورِ شوق تھا‘ خوفِ خدا تھا یا کیا تھا
خیالِ سجدہ سے میری جبیں لرز رہی تھی
اک ارتعاش سا جوڑے ہوئے تھا جسموں کو
میں تھرتھراتا کہیں‘ وہ کہیں لرز رہی تھی
نکل گیا تھا کہیں اور سرسرا کے وہ سانپ
ذرا سا لمس تھا اور آستیں لرز رہی تھی
درخت تن کے کھڑا تھا قدم جمائے ہوئے
مگر وہ شاخ کہ اپنے تئیں لرز رہی تھی
کنارِ چشم سے دریا رُکا رُکا ہوا تھا
مگر وہ موج کہ تھی دل نشیں‘ لرز رہی تھی
چراغ بجھتا چلا جا رہا تھا آنکھوں میں
اور اُس کی لو مرے دل میں کہیں لرز رہی تھی
سکوتِ مرگ کا عالم تھا آفتاب حسین
دمِ وداع وہ چشمِ حسیں لرز رہی تھی
آج کا مقطع
سحر ہوئی تو ظفر دیر تک دکھائی دیا
غروب ہوتی ہوئی رات کا کنارا مجھے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved