تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     12-10-2015

قندوز کے مُلا ؟

قندوز پر طالبان کے حملے کا الزام بالآخر پاکستان پر آہی گیا لیکن یہ کیسا اتفاق ہے کہ قندوز پر '' ملا حسن اور مولانا عبد السلام‘‘ کے طالبان نے حملہ ایسے وقت میں کیا جب نیویارک میں جنرل اسمبلی کا70 واں اجلاس ہونے جا رہا تھا اور قندوز پر حملہ کرنے والے ملا عبد السلام اخوند اور ملا محمد حسن اخوند طالبان کے وہ لیڈرتھے جنہیں پاکستان نے بڑی مشکل سے گرفتار کیا تھا اور جنہیں اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی کی پاکستان کی سیا سی حکومت سے بار بار کی جانے والی درخواستوں پر ان کی نیک چلنی کی حامد کرزئی سے ذاتی ضمانت لینے کے بعد افغانستان کے حوالے کیا گیا تھا۔ ملا عبد السلام اور ملا حسن دونوں کو حامد کرزئی نے اپنے انتہائی قریب رکھا اور پھر ایک دن جب جنرل اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے لگتا ہے تو طالبان کے ذریعے قندوز پر قبضہ کرا دیا جاتا ہے۔ پھر اسی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھارت کی سشما سوراج اور افغانستان کے عبد اﷲ عبد اﷲ تک کی طرف سے وہی ایک عبارت جو بھارت کی کتابوں میں پاکستان کے بارے میں لکھی ہوئی ہے‘ دہرا ئی جانے لگتی ہے‘ بھارت کا تو اپنا یہ حال ہے کہ اس کے کسی بھی حصے میں اگر ہوا میں تیزی اور گرمی آ جائے تو اس کی ذمہ داری بھی پاکستان پرڈ ال کر ایک جانب اپنی عوام کو مطمئن کر دیا جاتا ہے تو ساتھ ہی لگائی جانے والی اس آگ سے انتہا پسندانہ ہندو نظریئے کو گرماتے ہوئے ووٹ بھی بٹورے جاتے ہیں۔ جب افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان کو مسلمان ہونے کے ناتے سے اپنا برادر ملک ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھائی بھائی نہیں بلکہ صرف علیحدہ علیحدہ ریاستیں ہیں توبات سمجھ آ گئی تھی کہ 
اشرف غنی بھارتی اثر و رسوخ کے سامنے اب بے بس ہو چکے۔ اشرف غنی نے اچھا ہی کیا کہ وہ نقاب جو انہوں نے ایک سال سے اپنے چہرے پر چڑھایا ہوا تھا خود ہی اتار کر بی بی سی کے ذریعے دنیا کے سامنے پھینک دیا۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ وہ بی بی سی کے اس انٹر ویو میں یہ بھی بتا دیتے کہ اس وقت کابل میں حکومت کس کی ہے؟۔ جناب اشرف غنی کی یا عبد اﷲ عبداﷲ کی، افغان فوج کی یا بھارت کی، دوستم ملیشیا کی یاNDS کی اور امریکہ کی یا نیٹو افواج کی ؟۔ مستقبل مزاجی سے عاری کسی شخص، حکمران، قبیلے یا ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا اگر آپ کے دائیں بائیں کھڑا ہوا شخص ہی آپ سے خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے تو وہ آپ کی حفاظت کی بجائے اپنے آپ کو بچانے میں ہی لگا رہے گا۔ یہی حال اس وقت نئے افغان صدر اشرف غنی کا ہو چکا ہے جن کی پالیسیوں میں آئے روز ہونے والی تبدیلیوں کے تنا ظر میں پوچھا جا رہاہے کہ ان کی کس بات کا یقین کیا جائے ایک وقت میں وہ کس کس کو مطمئن اور خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اگر کسی پالیسی پر عمل کرنے کا آج ایک طرف سے اعلان کیا جا رہا ہے تو کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا کل کس کی مرضی پر چلے گا؟۔ اگر اس وقت افغانستان میں طاقت کا توازن دیکھیں تو چیف ایگزیکٹو عبد اﷲ عبد اﷲ کی پشت پر ایک طرف اگر بھارت کی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیاں ہاتھ ملائے کھڑی ہیں تو ساتھ ہی حامد کرزئی کے طویل دور حکومت کے دوران مقرر کی جانے والی مراعات یافتہ بیوروکریسی اور ارکان پارلیمنٹ بظاہر اس وقت سب سے زیا دہ طاقتور نظر آ رہے ہیں۔ 
قندوز پر حملے کا پس منظر اور بھارت نواز عبد اﷲ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کے خلاف دشنام طرازیوں کو جانچنے کیلئے سابق افغان صدر حامد کرزئی پوپلزئی کے برطانوی اخبار گارڈین کو دیئے جانے والے ایک انٹر ویو کو سامنے رکھیں جس میں اس نے پاکستان سے اپنی اندرونی نفرت اور عداوت کو سامنے لاتے ہوئے عبد اﷲ عبد اﷲ، اشرف غنی اور افغان پارلیمنٹ کو خبردار کیا تھا کہ اگر وہ پاکستان سے اپنے تعلقات کو دوستانہ رکھنے کی کوئی کوشش کریں گے تو یہ افغانستان سے غداری ہو گی اور اگر پاکستان کے ذریعے انہوں نے طالبان سے کسی بھی قسم کی امن بات چیت کا آغاز کیا تو یہ سو سال پہلے برطانوی استعماریت کے خلاف افغانوں کی لڑی 
جانے والی جنگ سے بھی غداری سمجھی جائے گی !! اس سے آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ طالبان سے امن مذاکرات کے خلاف ملا عمر والی سازش کس نے کی؟۔ اور یقیناََ یہی وجہ ہے کہ افغان پارلیمنٹ میں موجود کرزئی گروپ نے قندوز پر طالبان کے قبضے کے دوسرے ہی دن اشرف غنی سے مستعفی ہونے کیلئیبھرپوردبائو ڈالنا شروع کر دیاہے۔ پاکستان پر قندوز حملے کا الزام اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ کابل میں دنیا کے مختلف سفارتی اور دفاعی اہلکار افغان فوج کے اہل کاروں سے پوچھ رہے ہیں کہ قندوز پاکستان کی سر حد سے کوئی 600 کلو میٹر دور افغان کے شمال میں واقع ہے اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پاکستان سے لوگ افغانستان میں جگہ جگہ پھیلی ہوئی امریکی اور نیٹو افواج کو نظر آئے بغیر چھ سو کلومیٹر دور جا کر کارروائی کر سکیں؟۔ اگر یہ کہا جائے کہ قندوز پر حملے کے ذریعے حامد کرزئی اور بھارت نے افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات کو مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے کرایا ہے تو غلط نہیں ہو گا کیونکہ مری میں افغان حکومت اور طالبان کی پہلی امن بیٹھک امریکی اور چینی نگرانی میں شروع ہوئی تو مذاکرات کے پہلے دور سے ہی یہ تاثر سامنے آگیا تھا کہ معاملات سنجیدہ نوعیت کی امن بحالی کی جانب بڑھنے کے امکانات پیدا ہو نے لگے ہیں لیکن پھر ایسا کیا ہوا کہ جیسے ہی افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مری میں مذاکرات کا دوسرا اور اہم ترین دور شروع ہونے میں چند گھنٹے ہی باقی رہ گئے تھے کہ اچانک افغان انٹیلی جنس کی جانب سے بی بی سی کو افغان طالبان کے امیر ملا عمر کی دو سال قبل ہونے والی موت کی خبر مہیا کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ ان کی وفات کراچی میں ہوئی تھی ۔ یہ خبر ایک بم شیل بن گئی جو باہر آکر پھٹتے ہی اپنے ساتھ جاری امن مذاکرات کو بھی کھا گیا۔۔۔بات ملا عمر کی نہیں وہی کرزئی+ بھارت NDS+سمیت افغان فوج کے با اثر کمیونسٹ جنرلز کے گٹھ جوڑ کی ہے ۔۔۔حامد کرزئی کے دس سالہ دور حکومت میں بھارت نے افغانستان کے کالجوں، یونیو رسٹیوں کے طلباء، تاجروں اور میڈیا سمیت رائے عامہ کے دوسرے شعبوں میں بے تحاشا مالی وسائل کے ذریعے رابطے بڑھائے جس کے ذریعے افغانستان کے مختلف شعبوں میں قدم جمائے ان وفاداروں کو اب پاکستان کے خلاف استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ ملا عمر کے انتقال کی خبر سامنے آنے پرطالبان میں اختلافات اور دھڑے بندیوں کی خبریں کیا کچھ عجیب سی نہیں لگتیں؟۔۔۔۔کیا عقل سلیم یہ تسلیم کرسکتی ہے کہ اشرف غنی، ملا منصور یا ملا یعقوب کو ملا عمر کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا؟۔کیا یہ سب اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ ملا عمر اپنی طبعی موت سے ہمکنار ہونے کے بعد افغانستان میں ہی دفن ہیں؟۔ کیا بی بی سی کو بتانے سے پہلے افغانستان کی موجو دہ حکومت کو اس کی خفیہ ایجنسی نے ملا عمر کے بارے میں بے خبر رکھا ہوا تھا؟۔اگر ایسا ہے تو پھر مری میں ہونے والے امن مذاکرات میں تعطلی کی وجہ کچھ اور ہے جس کی جانب حامد کرزئی پوپلزئی نے برطانوی اخبار گار ڈین کو انٹر ویو دیتے ہوئے اشارہ کیا تھا ۔۔۔!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved