لاہور میں جس حلقے کے انتخاب پر کسی نے توجہ نہیں دی‘ وہ پی پی 147 کی صوبائی نشست ہے۔ اس پر حکمران جماعت کی طرف سے محسن لطیف امیدوار تھے۔ محسن صاحب بیگم کلثوم نواز کے بھتیجے ہیں۔ انہوں نے اسی صوبائی حلقے سے شعیب صدیقی کو شکست دی تھی۔2013ء میں عام انتخابات کے بعد دو حلقوں میں دھاندلی کے خلاف الیکشن ٹریبونل میں اپیلیں ہوئیں۔ قومی اسمبلی میں سردار ایاز صادق کا انتخاب کالعدم قرار دیا گیا اور صوبائی اسمبلی میں محسن لطیف کے حلقے میں دوبارہ انتخاب ہوا۔قومی اسمبلی کی نشست پر ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان مقابلہ زیادہ نمایاں ہو گیا۔ حکومت نے بلاوجہ بڑھ چڑھ کر اس میں زور لگایا اور اس نشست کا الیکشن پورے ملک ہی نہیں ساری دنیا میں اہمیت اختیار کر گیا۔ جبکہ اس سے زیادہ کڑاکے کا الیکشن صوبائی نشست پر تھا۔ کیونکہ سردار ایاز صادق صرف پارٹی کے امیدوار تھے جبکہ محسن لطیف کا تعلق حکمران خاندان سے بھی تھا۔ بلاشبہ انہیں کامیاب کرانے کے لئے بھی وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں نے بڑھ چڑھ کر زور لگایا۔ لیکن وہ خصوصی انتظامات جو علیم خان کے خلاف کئے گئے‘ صوبائی نشست پر نہیں کئے جا سکے۔ حمزہ شہباز اور شہید جمہوریت کے ایک فرزند کی ساری توجہ قومی اسمبلی کی نشست پر مرکوز تھی اور محسن لطیف کی کامیابی پر حکومتی خاندان اور حکمرانوں کی منڈلی مطمئن تھی کہ روایتی جھرلو سے یہ گھر کی سیٹ واپس آ جائے گی۔ قومی اسمبلی کی طرف بعد میں آئوں گا پہلے اس صوبائی اسمبلی کی نشست کا جائزہ لیں ‘جس پر سیاسی پنڈتوں نے خاص توجہ نہیں دی جبکہ اصل مقابلہ یہیں ہوا۔ پی ٹی آئی کا ووٹر‘ حکومت کے روایتی حربوں کو روندتا ہوا آگے بڑھا اور شعیب صدیقی‘ محسن لطیف کو شکست دے کر کامیاب ہو گیا۔
اس معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے شعیب صدیقی کی انتخابی مہم پر خاص توجہ نہیں دی تھی اور شعیب کے پوسٹر بھی نہیں چھپے ۔ علیم خان پی ٹی آئی کی طرف سے جو پوسٹر شائع کرتے یا ان کے حمایتی چھپوا کر بطور عطیہ دیا کرتے ‘ ان میں کہیں جگہ ہوتی‘ تو شعیب صدیقی کی تصویر لگ جاتی‘ ورنہ علیم خان اور عمران خان کی بڑی بڑی تصویروں کی موجودگی میں‘ شعیب صدیقی کے لئے جگہ ہی باقی نہیں رہتی تھی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ حکومت کے روایتی دائو پیچ کا مقابلہ پی ٹی آئی کی سیاسی طاقت نے کیا اور ایک کمزور امیدوار ‘ حکمران خاندان کے امیدوار کو شکست دے کر کامیاب ہو گیا۔ اگر دونوں جماعتوں کی سیاسی طاقت کا اندازہ لگانا ہو ‘ تو صوبائی اسمبلی کی نشست 147 کا نتیجہ دیکھنا چاہیے۔ ایک ہی نظر میں پتہ چل جاتا ہے کہ حکومت کے روایتی ہتھکنڈوں کو پی ٹی آئی کی عوامی طاقت نے آسانی سے شکست دے دی۔ قومی اسمبلی کی نشست پر حکومت نے کوئی ترکیب اور حربہ ایسا نہیں چھوڑا‘ جس سے علیم خان کو شکست نہ دی جا سکتی ہو۔ اس کے باوجود علیم خان جتنے ووٹ لے گئے‘ اس پر یقینا خود حکمران بھی حیران ہوں گے۔ ارباب اقتدار میں کون ایسا اعلیٰ عہدیدار ہے‘ جس نے علیم خان کو ہرانے کے لئے اپنا حصہ نہیں ڈالا؟ جناب وزیراعظم نے انتخابی مہم کے دنوں میں جو بھی تقریر کی‘ اس کا بالواسطہ ہدف عمران خان تھے۔ چاہے وہ بجلی گھر کی افتتاحی تقریب ہو یا لاہور کی پریس کانفرنس‘ دونوں میں وزیراعظم نے بظاہرپی ٹی آئی کو نشانہ بنایا تھا۔ لاہور میں وزیراعظم نوازشریف کا اپنا حلقہ اثر کافی بڑا ہے۔ وزیراعظم کی تقریروں سے یقینا ان کے پرستار متاثر ہوئے ہوں گے۔ یہی ووٹ ایاز صادق کے کھاتے میں گئے۔ نوازشریف کی مقبولیت کو پیش نظر رکھا جائے‘ تو صرف ان کے بیانات پر کم از کم 10ہزار ووٹ لیگی امیدوار کے حق میں آ جانا چاہئیں تھے۔ جبکہ سردار ایاز صادق کو صرف2443 ووٹ زیادہ ملے۔ اس مفروضے کے مطابق وزیراعظم کے ذاتی حامیوں کے 10ہزار ووٹوں میں سے بھی سارے کے سارے سردار ایاز صادق کو نہیں گئے۔ پی ٹی آئی کی عوامی طاقت سے ‘وزیراعظم کاذاتی حلقہ اثر بھی متاثر ہوا۔ یہ صرف ایک پہلو ہے۔ حکومت نے اپنے امیدوار کے حق میں ووٹ حاصل کرنے کے جو روایتی حربے استعمال کئے‘ وہ پاکستان کے عام شہریوں سے پوشیدہ نہیں۔ پٹواری لازماً حرکت میں آتے ہیں اور ان کی کوششوں سے پانچ سات ہزار ووٹ ضرور سرکاری امیدوار کو مل جاتے ہیں۔ پولیس عام طور پر شہری حلقوں میں ایسے تمام ''معززین‘‘ کو حرکت میں لے آتی ہے‘ جو اس کی سرپرستی میں‘ عام شہریوں پر طاقت آزمائی کرتے ہیں۔ یہ لوگ صرف ووٹروں کو ہی سرکار کے حق میںہموار نہیں کرتے بلکہ رکشہ ٹیکسی والوں کو یرغمال بنا کر‘ ووٹروں کو ڈھونے کا بندوبست بھی کرتے ہیں۔ اس بار ایک نیاحربہ متعارف کرایا گیا‘ جو شاید آگے چل کر عام انتخابات میں حکومتی حربوں کی فہرست میں شامل ہو جائے۔ اس حلقے میں بہت سے شکستہ سرکاری کوارٹر ہیں‘ جن میں ملازمین رہتے ہیں اور ہر کوارٹر میں 4سے 8تک بالغ مردوزن قیام پذیر ہیں۔ ان سب کے ووٹ پہلے سے بنوا دیئے جاتے ہیں تاکہ کوئی ووٹ دینے سے رہ نہ جائے۔ پولیس نے ایسے ہر کوارٹر میں سے ایک بالغ یا نابالغ فرد کو اٹھا کر اپنا مہمان بنا لیا اور اس کے گھر والوں سے کہا گیا کہ تمہارا سارا خاندان‘ووٹ ڈال کر آ جائے اور اپنا بندہ لے جائے۔اگر کوئی ایک بھی ووٹ ڈالنے نہیں گیا یا اس نے سرکاری امیدوار کو ووٹ نہیں ڈالا‘ تو پھر مہمان بنے ہوئے شخص کے خلاف ایف آئی آر لکھ دی جائے گی۔ جرائم کا سٹاک پولیس کے پاس ہر وقت موجود رہتا ہے۔ وہ کوئی بھی دفعہ لگا کر ''اغوا‘‘ کو گرفتاری میں بدل سکتی ہے۔ اس طرح کے کم از کم پانچ چھ ہزار یرغمالی ووٹر سرکار کی خدمت میں پیش کئے گئے۔ ریلوے کے ملازمین کو متعلقہ وزیرنے جو مزید ترغیبات دیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ تمام عارضی ملازمین کو پکا کر دیا جائے گا۔ ان کے کوارٹرز کی چھتوں اور دیواروں کو مرمت کرایاجائے گا۔گلیوں اور نالیوں کی حالت بہتر کی جائے گی۔ چوبرجی کوارٹرز میں بھی ہزاروں سرکاری ملازمین رہتے ہیں۔ لیکن وہاں شاید پولیس والا نسخہ نہیں آزمایا جا سکا۔ اس لئے چوبرجی کوارٹرز میں سرکاری امیدوار کو شکست ہوئی۔یقینا یہ ساری باتیں الیکشن کمیشن کے علم میں ہوں گی۔ سب کچھ میڈیا میں آ چکا ہے۔ مگر الیکشن کمیشن کس کس بات کا نوٹس لے؟کتنے ہی وفاقی اور صوبائی وزیروں نے انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ایک وزیرصاحب تو پولنگ کے دن اپنی پارٹی کے کیمپوں کے چکر لگا کر کارکنوںکا حوصلہ بڑھاتے رہے۔سرکاری ملازمین خواہ وہ صوبائی تھے یا وفاقی‘ ان سب کو متعلقہ افسروں کی نگرانی میں ووٹ ڈالنے بھیجا گیا۔ کراچی سے ایک صاحبہ تشریف لائی ہوئی تھیں‘ جو سابق صدر اور ڈکٹیٹر پرویزمشرف کی تحسین و ستائش میںتحریریں لکھنے پر مامور تھیں۔ انہیں مشرف لیگ کی طرف سے قومی اسمبلی کا رکن بھی بنایا گیا تھا۔ آج کل وہ وزیراعظم نوازشریف کی پارٹی اور حکومت دونوں کے حق میں بے حد سرگرم ہیں۔ انہوں نے لاہور کے جلسوں میں میاں صاحب کے امیدوار کے حق میں تقریریں کیں۔ میری طرح بہت سے لوگوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلم لیگ کے ایسے کارکن‘ ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں ‘جنہیں مشرف کے دور میں تکلیفیں اور اذیتیں دی گئیں۔ تمام لیگی فدائین کو اپنے دکھ یاد ہیں۔ مشرف کی سابق مدح نگارکو دیکھ کر ایسے لوگوں کے زخم یقیناتازہ ہوئے ہوں گے اور ان میں سے کئی ایک نے سرکاری امیدوار کو ووٹ نہیں دیا ہو گا۔
یہ صاحبہ بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ بھی ہیں۔ کبھی تحقیقات ہوئیں‘ تو بے شمار ایسے چیک نوٹس میں آئیں گے‘ جو حلقہ 122 لاہور کی انتخابی مہم کے دوران اسی حلقے کے ووٹروں کو جاری کئے گئے ہوں۔ میں نے صرف چند اشارے کئے ہیں۔ حکومتوں کے پاس بہت وسائل ہوتے ہیں اور قومی اسمبلی کی ایک نشست جیتنا اس کے لئے مشکل نہیں ہوتا۔ تجزیہ آپ خود کر سکتے ہیں کہ ایک ہی حلقے میں‘ حکمران خاندان روایتی طور طریقے استعمال کرکے بھی‘ ایک صوبائی نشست پر کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ اسی حلقے میں قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کے لئے روایتی طور طریقے استعمال نہ کئے جاتے‘ تو حکومت کا وہی حال ہونا تھا‘ جو صوبائی اسمبلی کی نشست پر ہوا۔ یہ غیرمعمولی حربے اور طریقے تھے‘ جن کی وجہ سے علیم خان کو 2443ووٹوں سے شکست دی جا سکی۔ ان ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو اپنی اصل سیاسی طاقت کا اندازہ ہو جانا چاہیے۔ آنے والے دو سال میں اگر وہ عوامی مفاد میں بڑے فیصلے نہ کر سکی‘ تو پھر پی ٹی آئی کی جس عوامی لہر نے ‘ضمنی انتخابات میںاپنی طاقت دکھائی‘ جب وہ پورے ملک میں پھیلے گی‘ تو نتائج کا اندازہ آپ خود کر لیں۔