تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     13-10-2015

مُنہ کالا

خورشید قصوری صاحب لاکھ کہیں میں بھارت میں امن اور محبت کا پیام لے کر آیا ہوں مگر نریندر مودی کے سیکولر دیش میں وہ محض مسلمان ہیں اور پاکستانی‘ زیادہ درست الفاظ میں ملیچھ ‘شودر اور قابل نفرت ۔ اُن کی مرضی مانیں یا نہ مانیں۔
گزشتہ روز خورشید قصوری اپنی کتاب NEITHER A HAWK NOR A DOVE کی تقریب رونمائیکے سلسلے میں بھارت پہنچے تو انہیں حکومت کی اتحادی شیوسینا کی تنگ نظری‘ پاکستان اور مسلم دشمنی کا تجربہ ہوا۔ تقریب کے آرگنائزر سیندھدرا کلکرنی کا شیو سینا کارکنوں نے رنگ پھینک کر مُنہ کالا کر دیا اور انہیں مجبور کیا کہ وہ کتاب کی تقریب منسوخ کر دیں۔ سیندھدرا کلکرنی کوئی معمولی آدمی نہیں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور لال کشن ایڈوانی کے قریب ساتھی ہیں‘ عرصہ دراز تک ان کے تقریر نویس کے فرائض انجام دیتے رہے اور شیو سینا کے کارکن ان کی اس حیثیت سے واقف ہیں۔
خورشید قصوری صاحب کی کتاب جستہ جستہ میں نے دیکھی ہے‘ ایک ہزار کے قریب صفحات پر مشتمل کتاب بالا ستیعاب پڑھ نہیں سکا۔ کتاب کا بیشتر حصہ ان کے وزارتی دور کے تجربات ‘ واقعات اور سفارتی کامیابیوں پر مشتمل ہے۔ ملک کے اہم سیاستدانوں ایئر مارشل اصغر خان ‘ ذوالفقار علی بھٹو ‘ غلام مصطفی کھر‘ شیخ مجیب الرحمن ‘ عبدالحمید خان بھاشانی‘ بے نظیر بھٹو ‘ میاں نواز شریف‘ عمران خان‘ حسین شہید سہروردی اور دیگر سے ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کئی دلچسپ واقعات بیان کیے۔ ان میں سے کچھ میاں محمود علی قصوری کے دوست تھے اور کچھ خورشید قصوری کے۔
اپنی کتاب میں خورشید قصوری نے ایک تحریری پیشکش کا ذکر کیا ہے جو 1997ء کے انتخاب میں میاں نواز شریف نے عمران خان کو کی۔ عمران خان سے کہا گیا کہ اگر تحریک انصاف مسلم لیگ (ن) سے مل کر انتخاب لڑنے پر آمادہ ہو تو انہیں پسند کی تیس نشستیں دی جائیں گی مگر عمران خان نہیں مانے۔ انتخابات ہوئے تو عمران خان ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکے۔ لاہور میں انہیں طارق عزیز (نیلام گھر فیم ٹی وی سٹار) نے ہرا دیا۔ اس وقت سردار ایاز صادق بھی تحریک میں شامل تھے۔ مجھے 12اکتوبر کے بعد میاں محمد اظہر نے بتایا کہ اگر عمران خان اس پیشکش سے فائدہ اٹھا کر اسمبلی میں پہنچ جاتے تو جنرل پرویز مشرف کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی مسلم لیگی بآسانی عمران خان کی سربراہی میں متحد ہو کر اسمبلیاں بحال کرا لیتے۔
خورشید قصوری نے غلام مصطفیٰ کھر کی دل پھینک طبیعت کا ذکر کرتے ہوئے اپنی سادہ لوحی کاایک واقعہ بیان کیا ہے جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ لگائی گئی شرط کی تفصیل دلچسپ ہے۔ خورشید قصوری صاحب کا خیال تھا کہ 1970ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی آٹھ سے زیادہ نشستیں نہیں جیت سکتی۔ بھٹو صاحب کی رائے مختلف تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ وہ اکیس نشستیں لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ انتخابی نتائج آئے تو دونوں اپنے غلط اندازوں کی بنا پر ہار گئے ۔ قصوری صاحب کہتے ہیں سب سے زیادہ شرمندگی مجھے ہوئی۔
کتاب میں بھارت کے خلاف نفرت انگیز مواد شامل ہے نہ قصوری صاحب نے لشکر طیبہ ‘ حزب المجاہدین یا سید علی گیلانی کو گلیمرائز کیا ہے۔ انہوں نے یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کی بہتری دونوں ملکوں کے عوام کے مفاد میں ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی اس معاملے میں قائدانہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود شیو سینا کو ان کی کتاب بھارت میں فروخت کے لیے پیش اور وہاں تقریب رونمائی کرنے پر اعتراض ہے۔ سیندھدرا کلکرنی کا قصور یہ ہے کہ وہ شیو سینا کی دھمکیوں میں نہیں آتے نتیجتاً شیو سینا نے ان کا منہ کالا کر دیا۔ شکر کرنا چاہیے کہ منہ کالا کرنے کے بعد انہیں گدھے پر بٹھا کر شہر بھر کا چکر نہیں لگوایا۔ ورنہ وہ یہ بھی کر سکتے تھے ۔
سوشل میڈیا پر ایک تصویر موجود ہے‘ ایک دلت خاندان کی خواتین‘ مردوں اور بچوں کو معلوم نہیں کس گستاخی پر برہنہ کر کے گلیوں میں پھرایا گیا۔بے چاری خواتین اپنی برہنگی چھپانے کے لیے چھوٹے بچوں کو سینے سے لگاتی ہیں تو پریڈ کرانے والے انہیں زدو کوب کرتے ہیں۔ یہ انسانی حقوق کے علمبردار‘ خواتین کی ناموس کے محافظ اور سیکولر ڈیجیٹل بھارت کا وہ مکروہ چہرہ ہے جو پاکستانی عوام کو دکھانے کے بجائے ہمارے دانشور ہمیشہ ایشوریا رائے‘ کرینہ کپور اور کترینہ کے پیچھے چھپاتے ہیں تاکہ بھارت کی ترقی و خوشحالی ‘ فراخدلی و روشن خیالی اور انسان دوستی کاجو پروپیگنڈہ انہوں نے برسوں تک کیا اس کا پول نہ کھلنے پائے۔
پاکستان میں بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کی کتاب کی تقریب رونمائی دھڑلے سے ہوئی ۔ پاکستان اور بھارتی صحافیوں‘ سیاستدانوں اور دانشوروں نے اس کے گن گائے حالانکہ مہاشے کی پُرکاری کتاب کے ایک ایک صفحے پر عیاں ہے مگر کسی نے تقریب پر حملہ کیا نہ دوران تقریب بھارتی مہمان کی عزت و تکریم پر حرف آنے دیا۔ کچھ عرصے سے بھارتیوں کے ریوڑ لاہور اور اسلام آبادمیں اپنی مخصوص چراگاہوں پر آتے‘ ہم پیالہ ہم نوالہ دوست احباب سے ملتے‘ بازاروں میں گھومتے اور واہگہ کی لکیر مٹانے کا بھاشن دے کر چلے جاتے ہیں مگر کسی نے ان سے کبھی تعرّض نہیں کیا۔الٹا کوئی اگر ان کی آمدورفت تودرکنار ‘بین الاقوامی سرحد کے تقدس و احترام کے منافی بیانات پر ہلکا سا احتجاج بھی کرے تو اس بے چارے کوانتہا پسندی کا طعنہ سننا پڑتا ہے بھارت جانے والے اکثر سیاستدان‘ صحافی‘ فنکار اور زائرین ہندو انتہا پسندی کا سامنا کرتے ہیں۔ کسی کی رگ حمیت پھڑکتی ہے نہ ڈیجیٹل بھارت کی مسلم و پاکستان دشمنی پر غصہ آتا ہے۔
چند روز قبل پاکستانی گلو کار غلام علی کی پُونے میں محفل موسیقی منسوخ ہوئی۔ چند برس قبل بھارتی غزل گائیک جگجیت سنگھ نے یہ بیان دیا تھا کہ غلام علی آخر کیوں بھاگے بھاگے ہندوستان آتے ہیں‘ میں تو پاکستان کبھی نہ جائوں۔ یہ ان لوگوں کے مُنہ پر طمانچہ تھا جو یہ راگ الاپتے ہیں کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور فنکار کبھی متعصب نہیں ہو سکتا۔ میکال حسن بھی اسی بھارتی تعصّب کا نشانہ بن چکے ہیں جبکہ ممبئی دھماکوں کے بعد پاکستان کے لبرل‘ سیکولر دانشوروں اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے چمپئنز کو اپنے ہوٹلوں میں بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ بھارت میں جو سلوک ہوا وہ انہیں کبھی بھول نہیں سکتا۔
بھارت نے سیکولرزم‘ روشن خیالی اور ترقی و خوشحالی کا نقاب محض امریکہ و یورپ کی آنکھیں چندھیانے کے لیے اوڑھ رکھا ہے‘ ورنہ اندر سے وہ پرلے درجے کا انتہا پسند‘ جنونی اور پسماندہ ملک اور معاشرہ ہے۔ صرف ذہنی طور پر نہیں بلکہ معاشی طور پر بھی۔جس ملک میں لاکھوں خواتین کو رفع حاجت کے لیے بیت الخلا میسر نہ ہو اور دیواروں کی اوٹ لینے پر مجبور ہوں‘ کروڑوں لوگ سڑکوں‘ پارکوں اور چوراہوں پر سونے کے عادی ہوں‘ جہاں کا وزیر اعظم نریندر مودی گجرات میں ایک ہزار سے زائد مسلمانوں کے قتل عام کو ایک واقعہ کا ردعمل قرار دے اور جہاں ایک مسلمان محمد اخلاق کو گھر میں گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں جان سے مار دیا جائے‘ اس کی ترقی و خوشحالی اور وسیع القلبی و روشن خیالی کا ڈھنڈورا کوئی عقل کا اندھا پیٹ سکتا ہے جو مفادات کے پجاری ڈھٹائی سے پیٹ رہے ہیں۔
سیندھدرا کلکرنی کے ساتھ شیو سینا نے جو کیا یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے ‘ ہمیں اس پر پریشان ہونے کی اس لیے ضرورت نہیں کہ اسے بھی آئی ایس آئی کی سازش قرار دیا جا سکتا ہے مگر اطمینان بخش بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خورشید محمود قصوری کو شیو سینا کے شر سے محفوظ رکھا۔ ان سے بھارتی انتہا پسند وہ سلوک نہیں کر پائے جو عدلیہ بحالی تحریک کے دوران معزز وکلا نے قصور کے ایک سپوت احمد رضا قصوری کے ساتھ کیا تھا۔ وہ بھارت کو '' امن و محبت‘‘ کا پیغام دینے میں کامیاب رہے۔ یہ پیغام کس نے سنا اور کتنا اثر قبول کیا؟ ویسے آپس کی بات ہے خورشید قصوری کتاب کی تقریب رونمائی بھارت میں نہ بھی کرتے تو کیا فرق پڑتا؟ ''بھارتی حکمرانوں کے قریب ترین اتحادیوںیعنی شیو سینا کو پاکستان اور مسلمانوں سے نفرت کے اظہار کا موقع نہ ملتا‘‘۔ اگر یہ بات ہے تو پھر درست ہوا۔ 
شیو سینا اورسیندھدرا کلکرنی دونوں کا شکریہ۔ بھارت کے روشن خیال چہرے پر کالک شیو سینا نے ملی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved