خرابیوں سے قومیں برباد نہیں ہوتیں مگر ان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے اور فکر و تدبر سے محرومی کے نتیجے میں۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ایک نئے عمرانی معاہدے کے خدوخال اجاگر ہوں؟
نون لیگ والے کس چیز کا جشن منا رہے ہیں؟ اگر عمران خان کو نو ہزار ووٹوں سے ہرا دینے والے ایاز صادق، علیم خان پرصرف دو ہزار چار سو تینتالیس کی برتری حاصل کر سکے تو یہ ایک فیصلہ کن فتح کیسے ہو گئی۔ نون لیگ اگر مقبول عوام ہے تو صوبائی اسمبلی میں ان کا امیدوار کیوں کھیت رہا؟ ایک لاکھ اڑتالیس ہزار ووٹوں میں سے ایاز صادق کی برتری دو ہزار چار سو تینتالیس ہے۔ صوبائی اسمبلی کے لئے ڈالے گئے 60 ہزار ووٹوں میں تحریک انصاف کی تین ہزاردو باسٹھ۔ بحیثیت مجموعی کون زیادہ قابل قبول ثابت ہوا؟
فرض کیجئے، عمران خان نے مزید تین چار دن لاہور میں بتا دیئے ہوتے؟ اپنے حامیوں کو اگرچہ اس نے گرما دیا مگر لاہور میں کل کتنا وقت اس نے گزارا۔ زیادہ سے زیادہ تین دن۔ انتخابی عمل کی نگرانی نہ کر سکا اور یہ اس کے بس کی بات بھی نہیں۔ نون لیگ نے یونین کونسل کی سطح پر کمپیوٹر سنٹر قائم کر دیئے تھے۔ ایک دن پہلے ہی پرچی اپنے ووٹر کو پہنچا دی تھی کہ کب اور کہاں اسے پہنچائے۔ تحریک انصاف کے کارکن پولنگ سٹیشنوں کے باہر اس کام میں مصروف تھے۔ گھبرائے ہوئے کہ اکثریت ناتجربہ کار لوگوں پر مشتمل تھی۔
صوبائی اسمبلی کے حلقہ 148 میں‘ 2013ء میں جہاں میاں اسلم جیت گئے تھے‘ نون لیگ نے ناراض لوگوں کو منانے اور متحرک کرنے کے لئے یہاں عرق ریزی سے کام کیا۔ یہ ذمہ داری حمزہ شہباز کو سونپی گئی۔ شاہی خاندان کا کوئی فرد جب کسی چوہدری سے بات کرتا ہے‘ تو نتیجہ اکثر غیر معمولی ہوا کرتا ہے۔ ایسے معاشرے میں جہاں تمام تر انحصار سفارش اور تعلقات پر ہوتا ہے، ملک کے سب سے طاقتور خاندان سے مراسم بحال یا پیدا ہو جانے کے معانی کیا ہیں؟ اس کے باوجود اگر صوبائی اسمبلی کی دونوں ہی سیٹوں کی نمائندگی تحریک انصاف کرتی ہے‘ تو ایاز صادق اس انتخابی حلقے سے غیر متنازعہ لیڈر کیسے ہو گئے۔ وہ بھی اس شخص کے مقابلے میں، دو ماہ تک قبضہ گروپ قرار دے کر، جس کی کردار کشی کی جاتی رہی۔ علیم خان کی وکالت مقصود نہیں۔ اس ملک میں پراپرٹی کا کاروبار کس طرح کیا جاتا ہے‘ محترم سعد رفیق سمیت سبھی لوگ خوب جانتے ہیں۔ سوال دوسرا ہے۔ اگر ایک دن میں سیکڑوں بار کسی شخص کو نوسرباز قرار دیا جائے تو کیا درمیانے طبقے کے تعلیم یافتہ ووٹروں پر اثرات مرتب نہ ہوں گے۔ شعیب صدیقی کے حوالے سے ایسی کوئی داستان تراشی نہ جا سکتی تھی؛ چنانچہ وہ جیت گیا اور 11.36 فیصد ووٹوں کی برتری کے ساتھ ۔صوبائی اور مرکزی حکومتیں اگر ایک امیدوار کی پشت پر ڈٹ کر کھڑی ہوں اور وہ صرف 3.38 فیصد ووٹوں کی برتری پا سکے تو یہ ایک شاندار فتح کیسے ہو گئی؟ میرے پاس کچھ تفصیلات ہیں‘ مگر ان کے ذکر سے نون لیگ والوں کو بدمزہ نہیں کرنا چاہتا۔ کچھ ایسی باتیں‘ جن کا ذکر شاید آنے والے دنوں میں ہو مگر اب بھی کچھ سوالات تو اٹھائے جا سکتے ہیں۔ مثلاً بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن ماروی میمن کس لئے لاہور تشریف لے گئیں۔ کیا وہ ایک قابل رشک منتظم ہیں یا مقرر؟ بیت المال کے کرتا دھرتا این اے 122 کی گلیوں میں کیوں گھومتے پائے گئے؟ حکومت کسی علاقے کا خستہ ٹرانسفارمر تبدیل کرنے کا وعدہ کر سکتی ہے۔ علیم خان کتنے ہی فیاض ہوں مگر وہ گلیاں پختہ کرنے، ٹیوب ویل لگانے اور سڑکیں تعمیر کرنے کے پیمان تو نہیں کر سکتے تھے۔ دس بیس بے روزگاروں کو وہ ملازمت فراہم کر سکتے ہیں، چند سو یا چند ہزار کو عیدی بھی دے سکتے ہیں۔ ہزاروں افراد کو کھانا بھی کھلا سکتے ہیں۔ کچھ عنایات مگر ایسی ہیں جو صرف حکومت کو سزاوار ہوتی ہیں۔
خیر تفصیلات میں جائے بغیر، بہت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ نون لیگ غیرمعمولی اقدامات کے بغیر فتح یاب ہو سکتی تو خواجہ سعد کو میدان جنگ میں نہ اتارا جاتا۔ وہ ایک زبردست منتظم اور شاندار سیاسی کارکن ہیں۔ محتاط ترین اندازہ یہ ہے کہ صرف انہی کی وجہ سے دو ہزار ووٹوں کا فرق پڑا۔ وہ جانتے ہیں کہ ووٹروں کو رجھایا کیسے جاتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ناراض لوگوں کو منایا کیسے جاتا ہے۔
علیم خان کی مہم کے نگران چوہدری محمد سرور کی بہت ستائش کی گئی اور بعض کو اس پر تعجب ہے کہ چوہدری سرور نے اپنا کام سلیقہ مندی سے کیا اور اس پر وہ تحسین کے مستحق ہیں۔ 2018ء کے عام انتخابات میں لاہور کے کسی انتخابی حلقے سے انہیں میدان میں اتارا جا سکتا ہے مگر سعد رفیق اور حمزہ شہباز سے ان کا کیا مقابلہ؟ تحمل اور توجہ سے وہ بات سنتے اور دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر کتنے لاہوریوں کو وہ جانتے ہیں؟ ایسے کتنے ڈیرہ داروں سے ان کے مراسم ہیں، جن میں سے ہر ایک سیکڑوں یا درجنوں افراد پر اثرانداز ہو سکتا ہو؟ تیس برس سے شریف خاندان سیاست میں ہے۔ ہر حلقہ انتخاب میں سیکڑوں، ہزاروں پر ان کے احسانات ہیں۔ مزید پر مہربانیاں وہ کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود صرف تین سوا تین فیصد برتری کا مطلب شکست ہے، فتح نہیں۔ عمران خان بعض اعتبار سے اب بھی ایک عملی سیاستدان نہیں۔ اگر اس نے چودھری برادران سے رابطہ کر لیا ہوتا۔ اگر جماعت اسلامی کے رہنما متحرک ہو جاتے تو ممکن ہے کہ صرف اس سے پانسہ پلٹ جاتا۔ پولیس، پٹوار اور دوسرے سرکاری ملازمین کا کوئی علاج تو بہرحال اپوزیشن کے بس میں نہیں ہوتا۔
نون لیگ کو دانتوں پسینہ آ گیا۔ علیم خان کی مذمت جاری رکھتے ہوئے کہ بے دردی سے وہ روپیہ بہا رہا ہے۔ طیارے سے سرکاری پارٹی نے اشتہارات گرائے۔ ٹیلی ویژن کی تشہیری مہم میں عمران خان کو ایک غیر ذمہ دار لیڈر کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ نون لیگ کی خوش قسمتی سے اظہار خیال میں خان صاحب محتاط کبھی نہیں رہے۔ اپنے محترم دوست گلبدین حکمت یار کی مثال دیتے ہوئے ایک عشرے سے یہ ناچیز عالی جناب کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ آپ کا تاثر ایک حکمران کا ہونا چاہئے، اپوزیشن لیڈر کا نہیں۔ خان کو سمجھانا مگر مشکل ہے۔
اول دن سے تحریک انصاف کا ایک ہی مسئلہ ہے۔ اس کی تنظیم اور اب تو اور بھی زیادہ کہ پارٹی دھڑوں میں بٹی ہے۔ لاہور میں تحریک انصاف کے کئی لیڈر نہ صرف علیم خان کی انتخابی مہم میں شریک نہ تھے بلکہ اس کی شکست کے آرزومند۔ جس دن عمران خان نے یہ بات سمجھ لی کہ تنظیم کی اہمیت کیا ہے‘ کارکنوں کی تربیت اور ترجیحات کے تعین کی، ظفر مندی کی راہ اس کے لئے ہموار ہونا شروع ہو جائے گی۔ جذباتی توازن کے ساتھ، حکمت کی راہ میں پہلا قدم ہی کامرانی کا قدم ہوتا ہے۔
بہت سے چمتکار دکھائے گئے۔ ان میں سے بعض کا ذکر پھر کبھی۔ کم از کم تین چار ہزار ووٹروں کے پولنگ سٹیشن بدل دیئے گئے۔ پیر غازی روڈ کے پولنگ سٹیشن پر محمد اشرف نے بتایا پچھلی بار میں نے اپنا ووٹ ڈالا تھا، اب میرا نام سوڈیوال کو منتقل کر دیا گیا ہے۔ امتیاز علی اور محمد عمران سعید بھی پریشان کھڑے تھے۔ 2013ء میں حسن عباس بھروانہ نے شمع روڈ پہ ووٹ دیا تھا، اب اسے سمن آباد جانے کی نوید سنائی گئی۔
اذیت پہنچانے والی ایک انتخابی مشق۔ اس لئے نہیں کہ ایاز صادق جیت گئے۔ علیم خان کی فتح سے کون سا انقلاب برپا ہوتا، بلکہ اس لئے کہ روپے کا بے دریغ استعمال ہوا اور الیکشن کمیشن منہ دیکھتا رہا۔
اللہ کا شکر ہے کہ پولنگ پُرامن ماحول میں ہوئی۔ خون خرابے سے شہر محفوظ رہا، فوج کے طفیل۔ انتخابی اصلاحات کا مطالبہ اب زور پکڑے گا۔ اس طرح کا الیکشن کمیشن آئندہ قبول نہیں کیا جائے گا اور اگلے الیکشن فوج کی نگرانی میں کرانا ہوں گے۔ سول اداروں کو دیمک چاٹ گئی۔ پورے طور سے واضح ہو گیا کہ یہ ایک مکروہ انتخابی نظام ہے۔ اس گلے سڑے پارلیمانی سسٹم کو بدلنا ہو گا۔ صدارتی نظام، چھوٹے صوبے اور متناسب نمائندگی۔
خرابیوں سے قومیں برباد نہیں ہوتیں مگر ان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے اور فکر و تدبر سے محرومی کے نتیجے میں۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ایک نئے عمرانی معاہدے کے خدوخال اجاگر ہوں؟