ایاز صادق جیت گئے اور علیم خان ہار گئے۔ یہی کچھ ہونا تھا ‘کیونکہ علیم خان کا مقابلہ پوری کی پوری وفاقی اور صوبائی مشینری سے تھا، جب کہ ضابطے کے سراسر خلاف وفاقی اور صوبائی کابینائیں برسرِکارر ہیں، حتیٰ کہ خود وزیر اعظم میدان میں کود پڑے جس کی شکایت الیکشن کمیشن کو کی جا چکی ہے اور اس کا بیان ہے کہ نواز شریف کو کلین چٹ نہیں دی گئی۔ کارروائی ہوگی۔ پی ٹی آئی نے جملہ تحفظات کے باوجود اپنی شکست تسلیم کر لی ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود ایاز صادق کا صرف 24 سو ووٹوںسے جیتنا اپنے معنی رکھتا ہے کہ خرابی بسیارکے بعد حکومت یہی کچھ حاصل کر سکی ہے، تا ہم اس الیکشن کو حکومت کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دینا، عمران خان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ رہا پیسوں کا سوال تو پیسہ دونوں جانب سے استعمال ہوا۔ ایک دفعہ تو ایاز صادق دل ہی چھوڑ بیٹھے تھے کہ پیسے کی کمی سے وہ یہ الیکشن نہیں جیت سکتے جس پر ایک اطلاع کے مطابق حکومت یا پارٹی کی طرف سے انہیں چار کروڑ کی مدد سے نوازا گیا۔ یہ درست ہے کہ فوجی اور رینجرز کے جوانوں کی موجودگی کے سبب کسی بڑی گڑ بڑ کی اطلاع نہیں ملی لیکن ضابطہ اخلاق، اگر وہ واقعی کہیں تھا، تو اس کی دھجیاں اڑا دی گئیں اور اب جس کا کوئی نتیجہ بھی نکلتا دکھائی نہیں دیتا۔
اوکاڑے کا الیکشن
یہ الیکشن تمام اندازوں کے عین مطابق نواز لیگ بری طرح ہار گئی ہے کہ مارجن کم و بیش دو گنا تھا۔ اب جیتنے والے امیدوار ریاض الحسن نے کہا ہے کہ وہ مشورہ کر کے کسی جماعت میں شامل ہوں گے۔ واضح رہے کہ اس الیکشن میں نواز لیگ کا کوئی بھی مرکزی رہنما اپنے امیدوار کی مدد کے لئے اوکاڑہ نہیں پہنچا جس کا صاف مطلب آزاد امیدوار کو جتوانا تھا اور جس سے اس جماعت کی ساکھ کو دوہرا نقصان پہنچا ہے کیونکہ ریاض الحسن کو جتنے ووٹ ملے، ان میں زیادہ تر حکومت مخالف ووٹ تھے جو حکومتی پالیسیوں سے صحیح معنوں میں نالاں تھے۔ اب اگر ریاض الحسن حکومتی پارٹی میں شامل ہوتے ہیں، جس کا امکان صاف نظر آ رہا ہے تو آئندہ یہ ووٹر انہیں ہر گز گھاس نہیں ڈالیں گے کیونکہ انہوں نے اگر نواز لیگ کو ووٹ دینا ہوتے تو اس کے امیدوار کو کامیاب کراتے۔ ان کے حکومتی پارٹی میں شامل ہونے کی ایک اور وجہ بھی ہے جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ کہ وہ ہم خیال و ہم عقیدہ ہیں، اس لئے وہ انہیں نہیں چھوڑ سکتے‘ لیکن اس کا جواب وہ اپنے ووٹرز کو نہیں دے سکتے، جبکہ انہی کالموں میں پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ ان دونوں میں سے جو بھی جیتے گا، جیت نواز لیگ ہی کی ہو گی۔
دھاندلی کا رونا
میاں حمزہ شہباز نے یہ کہا تو ہے کہ عمران خان اب دھاندلی کا رونا چھوڑ دیں لیکن اگر دیکھا جائے تو اتنے معمولی مارجن سے ایاز صادق کے جیتنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اگر اس جماعت کو حسب معمول دھاندلی کا موقع دیا جاتا تو وہ کم از کم پندرہ بیس ہزار کے مارجن سے فتح یاب ہوتی اور حکومت کو تگنی کا ناچ نچا دینا ہی عمران خان کی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ حکومت کو شکست کا بھی حقیقی خطرہ لاحق تھا کیونکہ ایک مرحلہ ایسا بھی آیا تھا کہ دونوں کا فرق صرف پندرہ سو رہ گیا تھا اور حکومت کا جو سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے تھا، اس سے حکومتی پارٹی کی گھبراہٹ صاف عیاں تھی یعنی یہ لوگ اس وقت جیتے جب ع
دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا
اس لئے یہ کوئی کامیابی نہیں اور نہ اس پر اس قدر بغلیں بجانے کی ضرورت ہے کیونکہ حکومت یہ دیکھے کہ علیم خان کا مقابلہ کس کے ساتھ تھا، اور اگر دو ہزار ووٹ بھی ادھر ادھر ہو جاتے تو اب تک حکومت کے گھر میں پھوہڑیاں بچھ چکی ہوتیں۔ حکومت کو صرف گریبان میں منہ ڈال کر سوچنے کی ضرورت ہے کہ ؎
جان بچی اور لاکھوں پائے
لوٹ کے بدھو گھر کو آئے
اور چونکہ فوج کی موجودگی کی وجہ سے دھاندلی نہیں ہوئی تھی اس لئے عمران خان نے کسی دھاندلی کا ذکر بھی نہیں کیا اس لئے اس کا رونا رونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
مل کر کام
سردار ایاز صادق نے کامیاب ہو کر کہا تو ہے کہ عمران خان آئیں اور ملکی ترقی کے لئے مل کر کام کریں لیکن یہ ملکی ترقی نہیں بلکہ سٹیٹس کو، کے لئے سب کچھ ہو رہا ہے جسے ملکی ترقی کہنا سراسر غلط اور خلاف واقعہ ہے اور جس کا سب سے بڑا ثبوت نہ صرف اس الیکشن میں مل گیا ہے، بلکہ اوکاڑہ کا الیکشن بھی اس کی جیتی جاگتی مثال ہے اور کرپشن کا بازار جس قدر گرم ہے وہ اندھوں کو بھی نظر آ رہا ہے، اس لئے یہ سب کچھ عمران خان کے تبدیلی کے نعرے کے ہی سراسر خلاف ہے جو عمران خان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور جس کی کارگری ثابت بھی ہو چکی ہے اور مل کر کام کرنے کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ کرپشن کی اس دھوم دھام میں خود عمران خان بھی شامل ہو جائیں۔ سردار ایاز صادق خود کرپٹ نہ بھی ہوں تو ایک کرپٹ حکومت کا جو وہ ساتھ دے رہے ہیں، یہ بجائے خود کرپشن سے کم نہیں ہے کیونکہ کسی بھی برے کام سے چشم پوشی خود اس برے کام میں شمولیت ہی کے مترادف ہے۔ اور یہ بھی صاف نظر آ رہا ہے کہ اس زبردست مقابلے کے بعد عمران خان ایک نئی تاب و توانائی کے ساتھ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں اور وہ اس کا مظاہرہ بھی کریں گے کہ انتخابی ضابطے کی کھلی خلاف ورزی بجائے خود دھاندلی سے کم نہیں ہے اور وہ عناصر صاف نظر آ رہے ہیں جو عمران خان کی کامیابی کی راہ میں حائل ہوئے جبکہ عمران خان ہی وہ واحد اپوزیشن ہیں جس کی جمہوریت کو اشد ضرورت ہوتی ہے اور اب تو پی ٹی آئی کے اس ملک کی سب سے بڑی دوسری پارٹی ہونے میں کوئی شک و شبہ رہا ہی نہیں‘ جو حکومت کے لئے واحد خطرے کی علامت ہے!
آج کا مقطع
چراغِ چہرہ کو بجھنے نہیں دیا کہ ظفر
ہم اپنے گرد ہوا کا حصار رکھتے ہیں