ایک زمانے سے ہم اس بات پر غور کرتے آئے ہیں کہ کائنات کے نمایاں ترین مسائل کیا ہیں۔ یعنی وہ کون سے عُقدے ہیں جنہیں وا کیے بغیر بہتر اور پرسکون زندگی بسر کرنا ممکن نہیں۔ بہت سے فلفسیوں کے خیالات کو ہم نے کھنگالا۔ مفکرین کی آراء کا جائزہ لیا اور خود بھی حسبِ توفیق یعنی تھوڑا بہت غور کیا۔ بہر کیف، اس نتیجے تک پہنچے بغیر رہا نہ جاسکا کہ اس دنیا میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کون کیا کرتا ہے۔ یعنی خواتین کو یہ پڑی رہتی ہے کہ مرد اور بالخصوص شوہر کیا کرتے ہیں اور مرد رات دن اس ٹوہ میں لگے رہتے ہیں کہ خواتین اور بالخصوص بیگمات کے دل و دماغ میں کیا چل رہا ہے۔ مردوں کا مسئلہ یہ ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیں اور پھر معاشرتی سطح پر فعال رہتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کرتے رہیں کہ خواتین کی دنیا میں کیا اپ ڈیٹ ہے۔ خواتین کی جان پر یہ دہرا عذاب ہے کہ گھر کے کام کاج بھی کریں اور شوہر کے معمولات پر بھی نظر رکھیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ مرد اپنے کام ادھورے چھوڑ دیتے ہیں اور خواتین اپنے کام ڈھنگ سے نہیں کرتیں۔ ایسے میں ہر طرف ادھورا پن دکھائی دے تو حیرت کی بات کیا ہے۔
مردوں کا تو ہمیں بتا نہیں، ہاں خواتین نے یہ مسئلہ حل کرنے کی سمت قدم بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے کائنات کے ایک دیرینہ مسئلے کے بارے میں اپنی رائے دے کر گویا قلم توڑ دیا ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے کرائے گئے حالیہ سروے میں 62 فیصد سے زائد خواتین نے شوہر کی جاسوسی کو فضول قرار دے دیا! سروے میں حصہ لینے والی بیشتر خواتین نے کہا کہ رات دن شوہر کی ٹوہ میں لگے رہنا یکسر لا حاصل سرگرمی ہے۔ اسی سروے میں بہت سی خواتین نے یہ بھی کہا کہ انہیں اپنے شوہروں پر بھروسہ ہے۔
آپ یہ بات پڑھ کر خوش گمان مت ہوجائیے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ خواتین نے اپنا راستہ بدل لیا ہے اور مردوں پر نظر رکھنے کا عمل ترک کرکے کوئی ڈھنگ کام کام کرنے کی طرف مائل ہو رہی ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں۔ سروے میں جن خواتین نے حصہ لیا ان کی مجموعی رائے دراصل مردوں کے بارے میں مایوسی پر مبنی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ مردوں کی نگرانی کرنا اور ان کی ہر بات کی ٹوہ لیتے رہنا کسی بھی اعتبار سے کارآمد نہیں کیونکہ مرد سُدھرنے والی مخلوق نہیں، اُن کی فطرت کبھی تبدیل ہو ہی نہیں سکتی! بعض خواتین نے تو یہاں تک کہا کہ مردوں کے جسم میں اگر chip لگادی جائے تب بھی وہ باز نہ آئیں گے یعنی ریئل ٹائم آن لائن نگرانی کی پروا کیے بغیر جو کچھ کرنا ہے وہ کرتے ہی رہیں گے۔
خواتین نے سروے میں جو کچھ کہا اس پر ہمیں ایک لطیفہ یاد آرہا ہے کہ 99 فیصد مرد اپنی بیوی سے ڈرنے کا اعتراف کرتے ہیں اور جو ایک فیصد یہ کہتے ہیں کہ وہ بیوی سے نہیں ڈرتے وہ دراصل جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں! یہ ہے اس کائنات کی ایک بڑی اور اٹل حقیقت!
خواتین اور بالخصوص بیویوں نے مردوں کی جاسوسی کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ ہمارے حلق سے اتر نہیں رہا۔ خواتین ... اور مردوں کی جاسوسی سے باز آجائیں؟ سورج مغرب سے طلوع ہوسکتا ہے مگر ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ خواتین مردوں کی ٹوہ میں رہنا چھوڑ دیں۔ ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ سروے میں حصہ لینے والی خواتین نے یہ بات مردوں کے ذہنوں میں الجھن پیدا کرنے کی نیت سے کہی ہوگی۔ مقصود غالباً یہ ہے کہ مرد بے فکر ہوکر خوب اونچی اڑان بھریں اور جب ذرا بلند ہوجائیں تو دھر لیے جائیں!
مرزا تنقید بیگ جب بھی مردوں اور خواتین سے متعلق تحقیق کے بارے میں کوئی رپورٹ یا خبر پڑھتے ہیں تو دیر تک ہنستے رہتے ہیں۔ مردوں کی نگرانی سے بیزار ہوجانے والی خواتین کے بارے میں شائع ہونے والی خبر پڑھ کر مرزا بہت دیر تک ہنستے رہے۔ یہ دیکھ کر بھابی کو تشویش لاحق ہوئی کہ کہیں مرزا کا دماغ (مزید) تو نہیں چل گیا! جب انہوں نے مرزا سے ہنسے جانے کی ''وجہِ تسمیہ‘‘ پوچھی تو مرزا نے اخبار ان کے سامنے رکھ دیا۔ بھابی نے جب یہ خبر پڑھی تو وہ بھی ''زیرِ لب کے نیچے‘‘ مسکرانے لگیں! قدرے تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہوئے انہوں نے مرزا سے پوچھا: ''اِس میں ہنسنے والی بات کون سی ہے؟ مرد کبھی اپنی خصلت سے باز نہ آئیں گے۔ آخرِ کار خواتین کو یہی فیصلہ تو کرنا تھا۔ ہر عورت جب شوہر پر نظر رکھتے رکھتے تھک ہار جاتی ہے تو یہی سوچ کر 'تائب‘ ہو رہتی ہے کہ یہ آدمی سُدھرنے والا نہیں اس لیے محنت ضائع نہ کی جائے!‘‘
مرزا نے چہک کر کہا: ''بس رہنے بھی دو، جیسے ہم مرد جانتے نہیں کہ تم عورتوں کے دل و دماغ میں کون سی کھچڑی پکتی رہتی ہے؟ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اپنے سارے دکھ درد بھول کر تم ہمارے ہی بارے میں سوچتی رہتی ہو۔ اور اب مردوں سے بیزاری ظاہر کرنے کی اداکاری فرمائی جارہی ہے تاکہ وہ کھل کر اپنی پسندیدہ روش پر گامزن ہوں اور تاریک راہوں میں مارے جائیں!‘‘
مرزا کی بات میں دم ہے۔ ایک طرف تو خواتین کو ہر وقت مردوں کی فکر لاحق رہتی ہے اور ان کے پل پل کی خبر رکھتی ہیں
اور دوسری طرف یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ مردوں سے بیزار اور مایوس ہوچکی ہیں۔ گویا مردوں کو کھل کر جینے کی اجازت دی جارہی ہے۔ اور یہ ''معصوم پرندے‘‘ جب اڑان بھریں گے تو زیر دام لائے جائیں گے! فیاض علی فیاضؔ نے خوب کہا ہے ؎
لاشۂ مقتول پر ہیں نوحہ گر
قاتلوں کو یہ بھی آتا ہے ہنر!
مرزا کہتے ہیں : ''مردوں کے معاملے میں بیشتر (یعنی تقریباً تمام ہی) خواتین کا 'طریقِ واردات‘ یہ رہا ہے کہ پہلے تو اُن کا تیا پانچا کردو یعنی اپنی خدمت میں ایسا غرق رکھو کہ وہ سَر اٹھانے کے قابل ہی نہ رہیں۔ اور جب جان سے جاتے رہیں تو ماتم بھی کرو۔‘‘
''مردانہ برادری‘‘ سے تعلق کی بنیاد پر ہم بھی تھوڑے بہت یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرزا کی بات معقول حد تک حقیقت پر مبنی ہے۔ خواتین کے اس ''طریقِ واردات‘‘ ہی کے بارے میں کہا ہے کہ ع
وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا!
ایمان کی تو یہ ہے کہ معاشرتی معاملات سے متعلق کی جانے والی تحقیق سے ہمیں عموماً سازش ہی کی بُو آتی ہے۔ ازدواجی زندگی بہتر بنانے سے متعلق رائے عامہ کے جائزوں میں جو کچھ کہا جاتا ہے اس پر عمل کرنے سے گھریلو معاملات مزید بگڑ جاتے ہیں! بعض ویب سائٹس پر بیوی کو منانے کے ایسے طریقے سُجھائے جاتے ہیں جن پر عمل سے بے چارے شوہر جورو کے مزید غلام بن کر رہ جاتے ہیں ... اور اس کا اندازہ بھی انہیں بہت دیر سے ہوتا ہے! شوہر کی دِل جُوئی کے لیے جو طریقے تجویز کیے جاتے ہیں ان پر عمل سے بے چارے شوہروں کی جیب مزید خالی ہو رہتی ہے یعنی خواتین کو خوش کرنے اور خوش رکھنے کے تمام ٹوٹکے مردوں کو مزید ناخوش کیے دیتے ہیں! ''حاصلِ کالم‘‘ یہ ہے کہ چُھری خربوزے پر گِرے یا خربوزہ چُھری پر، نتیجہ یکساں رہتا ہے۔ خسارہ صرف مردوں کے حصے میں آتا ہے، خواتین صاف بچ نکلتی ہیں۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ مردوں کو نہ سُدھرنے والی مخلوق قرار دے کر سارا نزلہ اُنہی پر گِرایا جارہا ہے۔ (گزشتہ دنوں ہم نے بہت سی قارئین کی شکایت پر ایک کالم خواتین کے حق میں لکھا تھا۔ مردوں کے حق میں لکھے جانے والے موجودہ کالم کو ''طاقت کا توازن‘‘ برقرار رکھنے کی کوشش سمجھا جائے۔)