قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ نون کے امیدوار سردار ایازصادق 2443 ووٹوں سے جیت گئے۔ بظاہر تحریک انصاف کے امیدوار عبد العلیم خان کو شکست ہو ئی، لیکن اگر اسے ''فاتحانہ شکست‘‘ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ اس نشست پر مقابلہ سردار ایاز صادق اور علیم خان کے درمیان یا تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے درمیان نہیں بلکہ تحریک انصاف کے ووٹروں کا براہ راست مقابلہ وفاق اور پنجاب کے درجنوں اداروں کے ساتھ تھا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ پنجاب حکومت کے محکمہ محنت سے پولیس تک، میونسپل اتھارٹی سے ایف آئی اے تک اور پنجاب کی سپیشل برانچ سے مرکز کے انٹیلی جنس بیورو تک سب افسر اور اہلکار سرکاری امیدوارکو جتوانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں ایل ڈی اے، ریلوے، ناردرن گیس اور واپڈا کے اہلکار بھی اس انتخاب پر اثر اند از ہو تے رہے۔ یہ حقیقت جیتنے والا بھی جانتا ہے اور جشن منانے والے بھی۔ سردار ایاز صادق نے اپنی کامیابی کی خبر سنتے ہی ٹویٹ کے ذریعے لاہورکے شیروںکو مبارکباد دی۔ یہ علم نہیں کہ ان کا اشارا کون سے شیروںکی جانب تھا۔ شاید ان بارہ پولنگ اسٹیشنوں کے شیروںکی جانب جن کے فیصلہ کن ووٹوں سے وہ کامیاب ہوئے۔ ویسے پنجاب پولیس کے اہلکاروں کو بھی شیر جوانوں کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اور پھر پنجاب پولیس اور سپیشل برانچ نے اس انتخاب میں جو ''بیش قیمت خدمات ‘‘ انجام دیں، وہ واقفان حال سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ انتخابی نتائج کی خبر ملتے ہی پنجاب انتظامیہ کے کئی اعلیٰ افسروں کی سرکار کی جانب سے جو کلاس لی گئی، اس سے میڈیا کو بے خبر نہیں رکھا جا سکا۔
این اے 122کے ضمنی انتخاب پر سرکاری وسائل خرچ کرنے کا جو عالم دیکھنے کو ملا اس سے 1989ء میں اسی شہر کے حلقہ 99 کا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گیا جس میں چوہدری ذوالفقار علی مسلم لیگ کی طرف سے امیدوار تھے اور ان کے مقابلے میں اصغرگھرکی پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے۔ اس وقت فرق یہ تھا کہ پنجاب میں میاں نواز شریف وزیر اعلیٰ تھے اور مرکز میں پیپلز پارٹی کی محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں۔ دونوں حکومتوںکی جانب سے لاہورکے اس ضمنی انتخاب پر قوم کا پیسہ جس بے دردی سے پانی کی طرح بہایا گیا وہ اہل لاہور کو نہیں بھولا ہوگا۔ ایک جانب پنجاب حکومت پلاٹوں اور نوکریوں کی سیل لگا رہی تھی تودوسری جانب مرکزکی پی پی پی حکومت اس سے بھی دو ہاتھ آگے تھی۔ قصہ مختصر، قومی وسائل بے دردی سے لٹائے گئے۔ اسی ضمنی انتخاب میں جہانگیر بدر نے جو اس وقت وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل تھے ووٹ لینے کے لیے چوہنگ اور کاہنہ کوگیس مہیا کردی۔ پیپلز پارٹی یہ انتخاب جیت گئی، مسلم لیگ کی شکست نے پنجاب حکومت کو افسردہ کر دیا۔ رات گئے میں نے میاں نواز شریف کو سات کلب روڈ سے اسی طرح افسردہ حالت میں نکلتے دیکھا جس طرح کل تحریک انصاف کے لوگ (سوائے علیم خان) نظر آ رہے تھے۔
علیم خان نے جس طرح انتخابی مہم چلائی اس سے ثابت ہوگیا کہ وہ بہترین منتظم ہیں۔ ان کے بارے میں منفی پراپیگنڈاکرنے کا مقصد اس کے سوا اورکچھ نہ تھا کہ تحریک انصاف کے اس ''ٹائیگر‘‘ کے بارے میں جھوٹ پھیلا کر ان کے کارکنوںکا مورال
ڈائون کیا جائے۔ انتخاب جیتنے کے باوجود مسلم لیگ نون کے اس دعوے میں جان نہیں رہی کہ لاہور ان کا قلعہ ہے۔ اتنا تو وہ جانتے ہی ہوںگے کہ جس قلعے میں دراڑ پڑ جائے تو وہ محفوظ نہیں رہتا۔ تحریک انصاف نے یہ دراڑ ڈال دی ہے۔ انتخابی مہم میں علیم خان کی یہ کوالٹی بھی دیکھنے میں آئی کہ وہ بہت مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔ ان جیسے لوگ کسی بھی جماعت کا سرمایہ ہوتے ہیں۔
ہمارے تجزیہ کار ماہرانہ رائے دیتے ہوئے یہ کیوں بھول جاتے ہیںکہ اگر علیم خان، سرکاری امیدوار ایاز صادق سے معمولی ووٹوں سے ہار گئے تو اسی انتخاب میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے قریبی رشتہ دار محسن لطیف بھی صوبائی نشست پر تحریک انصاف کے امیدوار شعیب صدیقی کے ہاتھوں شکست کھا گئے ہیں۔ یاد رہے کہ دوست محمد کھوسہ کی جگہ محسن لطیف کو ہی میاں برادران کی جانب سے پنجاب کا عبوری وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ بوجوہ بعد میں تبدیل کرنا پڑا۔ اس اعتبار سے محسن لطیف کی شکست کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے، یہ در اصل وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے خاندان کی شکست ہے۔ مسلم لیگی قیادت اگر ایاز صادق کی جیت سے خوش ہے تو اپنے گھر کے امیدوار کی شکست سے افسردہ بھی ہے، ان کے چہروں پر ایاز صادق کی جیت کی وہ خوشی دیکھنے میں نہیں آ رہی جس کی امید کی تھی۔ علیم خان کی شکست کی خبر ملتے ہی محترمہ مریم نواز کا ٹویٹر پر پیغام تھا: ''دیکھو دیکھوکون آیا۔۔۔۔‘‘ لیکن محترمہ کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اسی معرکے میں تحریک انصاف کے ایک عام ورکر اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شعیب صد یقی نے ان کے کزن کو شکست سے دوچار کیا ہے۔
سردار ایاز صادق، این اے122 کے سرکاری رہائش گاہوں والے چھ علا قوں جی او آر، اچھرہ ، ریلوے کالونی، بستی سیدن شاہ اور بستی شاہ کمال سے حاصل ہونے والے ووٹوں کی بدولت کامیاب ہوئے۔ ان علاقوں کے پولنگ اسٹیشنوں سے سردار ایاز صادق کو علیم خان پر ایک ہزار سے بھی زائد ووٹوں کی سبقت ملی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یک طرفہ نتائج آرہے ہیں۔ یہی حلقے مجموعی طور پر تحریک انصاف کی شکست کا باعث بنے۔ اگر این اے122کے تمام پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ تحریک انصاف نے53 فیصد پولنگ اسٹیشنز پر برتری حاصل کی۔
گلگت بلتستان کے انتخابات کے بعد یہ قانون بنا تھا کہ پاکستان کا کوئی بھی شہری سرکاری اداروں کی جانب سے کئے گئے کسی بھی اقدام کے بارے میں اطلاعات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اگر تحریک انصاف اپنے کسی رکن قومی اسمبلی کے ذریعے قومی اسمبلی میں یہ سوال اٹھائے کہ 10ستمبر سے10 اکتوبر کے درمیان بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مد سے کتنی رقم نکلوائی گئی اور یہ کن علاقوں کے ''مستحق‘‘ گھرانوں میں تقسیم کی گئی تو اس سے بہت کچھ سامنے آجائے گا۔ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے ایاز صادق کی جیت پر اپنے پیغام میں کہاکہ '' نون نے قارون کو شکست دے دی‘‘۔ ان کا کہنا بالکل بجا، لیکن ان سے ادب کے ساتھ یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ ایک عام ورکر شعیب صدیقی نے کس چیز کے زور پر بہت بڑے سرمایہ دار اور ان کے قریبی عزیزکو شکست دی ؟ مجھے یقین ہے چوبیس سو ووٹوں کی''برتری‘‘ سے جیتنے والے، علیم خان کی''فاتحانہ شکست‘‘ پر سر پکڑکر بیٹھے ہوں گے۔