تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     14-10-2015

قسم ہے زمانے کی

قسم ہے زمانے کی 
بے شک انسان خسارے میں ہے 
مگر وہ کہ جو ایمان لائے اور عمل اچھے کئے، جنہوں نے حق کی نصیحت کی اور صبر کیا۔
ٹیگور نے کہا تھا: پیدا ہونے والا ہر بچہ یہ پیغام لے کر آتا ہے کہ خدا ابھی انسانوں سے مایوس نہیں ہوا۔ وہ قادر مطلق اور بے نیاز رب مایوس کیسے ہو سکتا ہے، جو امکانات کے ان گنت دروازے کھلے رکھتا ہے اور ان میں سے ایک توبہ کا دروازہ ہے۔ سکرات سے، موت کی دستک سے، پہلے پہلے ایک بار سچے دل اور کامل خلوص کے ساتھ۔ ہر زندگی ثمربار اور ہر قبیلہ سرخرو ہو سکتا ہے، اگر وہ اپنے اندر جھانک سکے۔ حسین بن منصور حلاج کو ایک صوفی سمجھا گیا، درآں حالیکہ وہ نہیں تھا۔ راہ سلوک کے برگزیدہ سرداروں میں، سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ نے سب سے زیادہ نرم رویہ اختیار کیا اور یہ کہا: اس کے بارے میں خاموشی ہی بہتر ہے۔ شاید اس لئے کہ اپنی موت سے وہ قرض اس نے چکا دیا جو اس پر واجب تھا۔ الجھے ہوئے خیالات کے سبب احتجاج کی صدا اس نے ضرور بلند کی اور کمال بے خوفی سے‘ مگر معاشرے کی ژولیدہ فکری میں کچھ اضافہ ہی کیا۔ آج کے پاکستان کی طرح جو فکر و نظر کے جنگلوں میں بھٹک رہا ہے۔ مسلمان ایک عالمی طاقت تھے مگر علمی اعتبار سے زوال پذیر۔ پہلا انحراف ہمیشہ علمی ہوتا ہے، ادراک کا بگاڑ۔ تقلید، ضدّ اور تعصبات میں مبتلا گروہ باہم متصادم ہوتے ہیں اور سماج کی ساری قوت خود شکنی پر صرف ہو جاتی ہے:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی فطرت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
حسین بن منصور حلاج کو برصغیر نے منصور کے نام سے یاد رکھا‘ اور اہلِ ایران کی طرح اردو شاعروں نے ایک لہکتا ہوا استعارہ اسے بنا دیا۔ حسین نے کہا تھا، میں ان کے لئے روتا ہوں جو چلے گئے اور ان کے لئے جو راستوں میں سرگرداں ہیں۔
ہم سب سرگرداں ہیں اور قرآن کریم کی آیت یاد آتی ہے: یا حسرۃً علی العباد۔ اے میرے بندو! تم پر افسوس۔ اپنے کالم سمیت، جو روداد میں لکھا کیا‘ نہایت ہی ناقص ہے۔ ضمنی الیکشن پر شائع ہونے والی اکثر تحریریں غور سے پڑھنے کی کوشش کی۔ ہر ایک نے اپنی پسندیدہ پارٹیوں کے لئے تاویل تلاش کرنے کی سعی کی اور ناپسندیدہ امیدوار کو سب خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ایک حد تک اس ناچیز نے بھی۔ گستاخی معاف پوری بات کہنے سے سبھی نے گریز کیا۔
کیا سب کی سب پارٹیوں کو عوام نے مسترد نہیں کر دیا۔ اگر یہ الفاظ زیادہ سخت ہیں تو کہہ لیجئے کہ کسی ایک کی توثیق سے بھی انہوں نے انکار کر ڈالا۔
سابق سینیٹر طارق چودھری نے ٹھیک کہا: لاہور سے زیادہ اوکاڑہ کے الیکشن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف نے... زیادہ صحیح الفاظ میں عمران خان نے جس امیدوار کو چنا، رائے عامہ تو کیا‘ خود اس کی جماعت کے کارکنوں نے اسے مسترد کر دیا۔ صرف سات ہزار ووٹ، چوتھے نمبر پر۔ وسطی پنجاب میں تحریک انصاف کیا چوتھے نمبر کی پارٹی ہے۔ جواز تو تراشنا ہوا، بتایا گیا ہے کہ امیدوار نے تراشا بھی: میری مہم پر لیڈروں نے توجہ ہی نہ دی۔ ایک منظم مہم سے کیا ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ تین چار ہزار مزید ووٹ؟ اشرف سوہنا بہت اچھے آدمی ہوں گے، ذاتی طور پر میں انہیں جانتا نہیں، بظاہر ان کا تاثر اچھا ہے‘ عمر بھر لیکن وہ بھٹو خاندان کے گیت گاتے رہے۔ ایک بار بھی یہ نہ کہا کہ زرداری صاحب نے ملک بھر کے کھیت اور کارخانے ویران کر دیے۔ فقط کارکنوں سے ان کی لاتعلقی اور عدم تحرک کی شکایت کی۔ مسلسل اور متواتر کہا‘ وہ کتمانِ شہادت کے مرتکب نہیں ہوئے اور بدترین کے ساتھ بسر کرتے رہے، کم ترین کے ساتھ آسودہ رہے۔ کہا: سرمایہ جیت گیا اور سیاست ہار گئی۔ لاہور کا شعیب صدیقی کون سا قارون ہے کہ رسان سے جیت گیا۔ اپنے حلقے سے باہر اکثر لوگ اس کے نام تک سے ناآشنا تھے۔
علیم خان نے مہم خوب چلائی اور کمال عزم کا مظاہرہ کیا۔ پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے ایک شخص کے لیے شریف خاندان کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونا سہل نہیں۔ نظریاتی ووٹروں نے مگر ان کی حمایت سے انکار کر دیا۔ اپنی پارٹی اور اپنے لیڈر سے محبت کے باوجود انہوں نے گھروں سے باہر نکلنے کی زحمت نہ کی۔ ان خرابیوں کے باوجود جو اہلِ زر کی بنیاد ہیں اور علیم خان جن سے پاک نہیں، ایک ذرا سا نرم گوشہ اس لیے ہے کہ جب تحریک انصاف تو کیا، سیاست سے بھی تعلق نہ تھا، شوکت خانم ہسپتال کو سال بھر میں پچاس ساٹھ کروڑ روپے عطیہ کرتے۔ نسبتاً بے سروسامانی کے باوجود شعیب صدیقی اگر ان سے زیادہ معتبر ٹھہرے تو عقل رکھنے والوں کو کیا اس پر غور نہیں کرنا چاہئے۔
پرویز رشید اور خواجہ آصف کو بھول جائیے۔ ان کا رزق دربار داری اور ہجو میں لکھا گیا، عمران خان کے اندھے پیروکاروں کی طرح جو اپنی شناخت ایک آدمی سے وابستہ کرتے ہیں، نظریات سے نہیں۔ خواجہ آصف نے کہا: عمران خان کو طبی معائنہ کرانا چاہئے۔ بجا ارشاد مگر ان کے اپنے لیڈروں کا کیوں نہیں، جو اب خود تسلیم کرتے ہیں کہ لاہور اور اوکاڑہ میں شکست کھائی کہ ناپسندیدہ لوگوں کو انہوں نے ٹکٹ جاری کئے۔ کیا تحریک انصاف میں کوئی جواں مرد ہے، جو اٹھے اور سوال کرے کہ خان صاحب! اس دھڑے باز، خود پسند اور خوف زدہ آدمی شاہ محمود قریشی کے کہنے پر آپ نے اشرف سوہنا کو ٹکٹ کیوں دیا۔ نون لیگ کے لیڈروں اور دانشوروں میں سے کس کی مجال ہے کہ لاہور میں خاندان کے لاڈلے اور اوکاڑہ میں جعلی ڈگری پر مسترد کئے گئے شخص کے جانشین کی سرپرستی پر معترض ہو۔ گریباں چاک کرنے کو جی چاہتا ہے کہ سید ابوالاعلیٰ کی جماعت نے بونیر میں یہی کیا۔ اس آدمی کا اندوختہ کیا ہوا، جس نے اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں کی طرف سے، علامہ علائوالدین صدیقی سے بدتمیزی پر کہا تھا: ان لوگوں نے میری عمر بھر کی کمائی برباد کر دی۔
اوکاڑہ میں نون لیگ کا نمائندہ آزاد امیدوار سے آدھے ووٹ ہی لے سکا۔ اب تاویل یہ ہے کہ آخر وہ بھی تو مسلم لیگی ہے۔ جی نہیں، اطلاعات یہ بھی ہیں کہ تحریک انصاف کا ٹکٹ قبول کرنے پر وہ آمادہ تھا۔ پھر یہ لیگی کیا ہوتے ہیں؟ وہی جن کی اکثریت جنرل پرویز مشرف کے دربار میں جا پہنچی تھی۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور جنرل محمد ضیاء الحق کے دیار میں؟ ع
کہاں کے دیر و حرم، گھر کا راستہ نہ ملا
تین سیٹوں میں سے فقط ایک ہی سیٹ نون لیگ جیت سکی اور ظاہر ہے کہ وہ تمام سرکاری وسائل برت کر‘ جو وہ برت سکی۔ تین میں سے ایک ہی نشست تحریک انصاف کے حصے میں آئی۔ اس کے باوجود کہ پُرجوش کارکنوں کے لشکر اسے میسر ہیں۔ کیوں؟ آخر کیوں؟ ٹکٹ جاری کرنے سے پہلے حلقے والوں سے وہ پوچھتے کیوں نہیں؟ میانوالی اور پشاور میں، عام الیکشن میں جیتی گئی دونوں سیٹیں عمران خان نے ہروا ڈالی تھیں اور بہت ہی بری طرح۔ ان واقعات سے سبق کیوں نہ سیکھا گیا۔ اگر یہ عوامی سیاسی پارٹیاں ہیں تو لیڈروں کو یہ من مانی کا حق کس نے دیا ہے؟
ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پارٹی آصف علی زرداری نے برباد کر دی اور احتجاج کی کوئی لہر نہ اٹھی۔ ایک نجی تقریب میں نون لیگ کے لیڈر نے کہا: جیتے نہیں، ہم تو بس بچ نکلے ہیں۔ اس میز پر موجود سیاستدانوں میں اس پر اتفاق رائے تھا کہ شریف خاندان اور تحریک انصاف بھی اسی راہ پر ہیں۔
لیڈر اپنی اپنی ذات کے اسیر، اپنی انا کو گنے کا رس پلانے والے ‘معاشرہ خوئے غلامی کا شکار، صدیوں کی ملوکیت، غیرملکی حکمرانی اور جاگیرداری۔ فقط سیاست کی نہیں، پورے معاشرے کی تطہیر درکار ہے۔ کوئی ایسا گروہ، اقتدار کی بھوک سے بلند ہو کر جو ملک اور امت کے مجموعی مسئلے پر غور کر سکے۔ جو ایک شارٹ کٹ کا تمنائی نہ ہو۔ جو جانتا ہو کہ تعصبات سے بلند ہو کر زندگی سچے اور اُجلے تدبر سے سنورتی ہے۔ جسے معلوم ہو کہ سیاست کا مقصد معاشرے کی تقسیم نہیں، اتحاد ہوتا ہے۔ ایک کم از کم ایجنڈے پر اتفاق رائے کی کوشش! لائبریری کے اس کمرے میں‘ جہاں چار سو سناٹا ہے اور کتابوں کی الماریاں۔ اپنے آپ سے میں پوچھتا ہوں کہ اے دوسروں کو نصیحت کرنے والے، قرآن کریم کی اس آیت پر خود تو نے غور کیا؟
قسم ہے زمانے کی
بے شک انسان خسارے میں ہے
مگر وہ کہ جو ایمان لائے اور عمل اچھے کئے، جنہوں نے حق کی نصیحت کی اور صبر کی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved