تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     14-10-2015

ضمنی انتخاب سے پہلے اور بعد

ایک اور لاحا صل مشق اپنے اختتام کو پہنچی۔احتجاج پسند طبیعت مگر آسودہ نہیں۔قوم تیاررہے کہ اُس کے مقدرمیں بے سکونی لکھ دی گئی ہے،الا یہ کہ قدرت کو رحم آئے اور وہ دلوں کو پھیر دے۔بے شک لوگوں کے دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔
میں اس مشق کولا حاصل کیوں کہتا ہوں؟وہ کون سی نئی زمینی حقیقت ہے جو ان انتخابات کے نتیجے میں نمودار ہوئی یا ہو سکتی تھی؟اگر ایاز صادق جیت گئے تو اس سے کیسے ثابت ہوا کہ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی؟وہ ہار جاتے تو اس سے یہ نتیجہ کیسے اخذ کیا جا سکتا تھا کہ 2013ء دھاندلی ہوئی؟کیا سماج ایک جامد شے ہے؟ کیا لوگوں کی سیاسی پسند ناپسند 2013ء کی سطح پر منجمد ہوگئی ہے؟ممکن ہے کہ ووٹر بدل گئے ہوں۔ممکن ہے تبدیلی تو آئی ہو لیکن نا قابلِ ذکر۔ضمنی انتخابات سے پہلے دو بڑے اداروں کے سروے سامنے آئے۔ایک ماہ کے دوران میں ،رائے عامہ میں کم و بیش دس فی صد میں تبدیلی آئی۔اگر ایک مہینے میں عامتہ الناس کی سیاسی وابستگی میں اتنی تبدیلی آ سکتی ہے تو دو سال میں زمین آ سمان بدل سکتے ہیں۔اس لیے میں کہتا ہوں کہ انتخابی نتائج سے دھاندلی کے باب میں،دونوں جماعتیں جو تاثر قائم کر نا چاہتی ہیں، وہ غیر حقیقی ہے۔ 
اسی طرح یہ بھی معلوم تھا کہ تحریکِ انصاف اسی وقت انتخابی نتائج کو قبول کرے گی جب اُس کا امیدوار جیتے گا۔بصورتِ دیگردھاندلی کاشورتھمنے والا نہیں۔ایسا ہی ہوا۔استدلال ہمیشہ کی طرح مضحکہ خیز ہے۔ جن انتخابی فہرستوں کے تحت اسی دن اس کاصوبائی امیدوار جیت جاتا ہے ،وہ درست ہیں اورانہی انتخابی فہرستوں کے تحت اسی دن قومی اسمبلی کا امیدوار ہار جاتا ہے، تووہ غلط ہیں۔یہ انتخابات سو فی صد تحریکِ انصاف کی خواہشات اور مطالبات کے مطابق ہوئے۔ الیکشن کمیشن کے خلاف واویلا تحریکِ انصاف نے مچایا لیکن اس کی پالیسیوں کا سب سے زیادہ نقصان ن لیگ کو ہوا۔اس کرشمہ سازی کی صرف داد دی جا سکتی ہے۔اوکاڑہ کے بارے میں البتہ تحریکِ انصاف خاموش ہے۔ وہاں کیسے دھاندلی ہوئی؟وہاں کون سی نئی ٹیکنالوجی استعمال ہوئی؟اگرتحریکِ انصاف کے ذہین رہنما اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھا سکیں تو قوم کی معلومات میں گراں قدر اضافہ ہو سکتا ہے۔
ان نتائج کو اگر حکومت اپنی فتح سمجھ رہی ہے تو یہ خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ہر ضمنی انتخابات میں حکومت کو ایک فطری برتری حاصل ہوتی ہے۔اس برتری کے باوصف،دو ہزار ووٹوں سے جیت اور ایک صوبائی نشست سے محرومی کو فتح قرار دینا مشکل ہے۔ن لیگ کے وزرا نے دن رات ایک کئے رکھا۔انہوں نے اپنے تئیں کوشش میں کوئی کمی نہیں کی۔وزیراعظم کی پریس کانفرنس بھی انتخابی مہم کا حصہ تھی۔یہ ساری انتخابی مہم میرے نزدیک لاحاصل رہی۔ یہ بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آسکی کہ لاہور میں ن لیگ کو اس قدر مخالفت کا سامنا کیوں ہے؟ان پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے پورے پنجاب کا بجٹ لاہور پر خرچ کر دیا۔لاہور اس وقت پاکستان کا جدید ترین اور خوب صورت ترین شہر ہے۔لاہور میں اتنی سرمایہ کاری کے باوجود ،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ن لیگ کی مخالفت کم نہیں۔اس کا اظہار2013ء کے انتخابات میں ہوا اور اب ایک دفعہ اس کو دہرایا گیا۔یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس حوالے سے بھی کوئی نئی حقیقت سامنے نہیں آئی۔
یہ بات اب مزید مستحکم ہوگئی کہ تحریک انصاف بھی دوسری جماعتوں کی طرح سٹیٹس کو کی جماعت ہے۔وہ بھی ان ہی حربوں کے ساتھ انتخابات میں شریک ہوتی ہے جو رائج الوقت ہیں۔امیدوار کے انتخاب سے لے کر، انتخابی مہم کے اسلوب تک،اس میں کوئی ندرت نہیں۔پیسے کا ناجائز اور بے پناہ استعمال۔روایتی اپوزیشن اور روایتی سیاسی جماعت۔انتخابی عمل سے ایک عمومی لاتعلقی بھی اس کی تصدیق کر رہی ہے۔جو ہیجان انتخابی مہم میں دکھائی دیتا تھا، وہ انتخابات کے دن نظر نہیں آیا۔میرے پاس معلومات نہیں لیکن قیاس کیا جا سکتا ہے کہ انتخابی مہم میں باہر سے آنے والے شریک ہوتے تھے۔اس سے یہ بات مزید پختہ ہوتی ہے کہ ایک سنجیدہ ووٹراب تحریکِ انصاف کے ساتھ کوئی رومان وابستہ کر نے کے لیے تیار نہیں۔نو جوانوں کی بات دوسری ہے کہ ان کا مزاج رومانوی ہو تا ہے۔نوجوانوں کے اس رومان کو بر قرا رکھنے کے لیے شاید دانستہ ہیجان کی فضا کو بر قرار رکھا جا تا ہے۔
انتخابات کے بعد عمران خان کے ردِ عمل سے دکھائی دیتا ہے کہ وہ پھر احتجاج کے موڈ میں ہیں۔اس سے میری یہ رائے مزید مستحکم ہوئی ہے کہ وہ اصلاً سیاست دان نہیں، ایک احتجاج پسند(agitator) ہیں۔وہ کسی دوسرے کام سے واقف نہیں۔ ان کے لیے اب ایک موقع پیدا ہو چلا تھا کہ وہ خود کو پارلیمان میں متحرک کریں۔قانون سازی کے عمل کو متاثر کریں اور لوگوں پر ان کا اور دوسرے سیاست دانوں کا فرق واضح ہو، اگر کہیں ہے تو۔مشاہدہ یہی ہے کہ ان کی مضطرب طبیعت اس طرف مائل نہیں۔ان کے ذہن میں ایک واضح نقشہ ہے کہ انہوں نے پورے پانچ سال اس حکومت کو غیر ضروری مسائل میں الجھائے رکھنا ہے تاکہ اگلے انتخابات تک،وہ ایک مسترد سیاسی قوت بن جائیں۔انہوں نے عدالتی کمیشن کے فیصلے کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اب خیبر پختون خوا پر ساری توجہ مرتکز کریںگے۔انسان لیکن افتادِ طبع کا اسیر ہوتا ہے۔وہ ایسا نہیں کر سکے اور پھر ایک نئے احتجاج کی تیاری ہے۔
حکومت معلوم ہو تا ہے کہ وژن سے محروم ہے۔گڈ گورننس کو وہ کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔آج اس کی اپنی کوئی ترجیح نہیں۔تحریکِ انصاف کے ساتھ اس کوایک ہیجان پرور میڈیا کا بھی سامنا ہے۔ اخباری کالم مبینہ حکومتی بدعنوانیوں کی داستانوں سے مملو ہیں۔کوئی موثر جواب حکومت کی طرف سے سامنے نہیں آرہا۔پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت کے آخری دو سال اسی طرح کے تھے۔ حکومت کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔اس نے پسپائی کی راہ اپنائی اور پھر ایک دن سیاسی منظر نامے سے غائب ہو گئی۔موجودہ حکومت کے پاس بچاؤ کا ایک راستہ اور وقت بھی ہے۔وہ تحریک انصاف اور میڈیا کے جال میں پھنسنے کے بجائے،ایک متحرک حکمت عملی کے ساتھ سامنے آئے۔وزرا اپنی کارکردگی کے ساتھ عوام کا سامنا کریںاور حکومت کی طرف سے ہر الزام کا جواب آئے۔ اگر کسی کے خلاف کسی الزام میں صداقت ہے تو اس سے ناتہ توڑے۔ ہیجان کی سیاست کا جواب تعمیری سیاست سے دے۔وہ قوم کو ایک متبادل اسلوبِ سیاست و حکمرانی سے آ شنا کرے۔اس کے زوال کے عمل کو روکنے کا یہی راستہ ہے۔
یہ سب باتیں 11 اکتوبر سے پہلے بھی واضح تھیں۔اب مزید واضح ہو گئی ہیں۔مجھے مستقبل قریب میں کہیں سکون دکھائی نہیں دیتا۔'اہلِ نظر‘ بھی، کہتے ہیں کہ آثاریہی بتا رہے ہیں۔ان کو سونامی (یعنی طوفان)دکھائی دے رہے ہیں۔یہ مابعد الطبیعیات کی باتیں ہیں۔ سونامی لیکن اب ہماری سیاسی لغت میںبھی شامل ہو چکا۔گویا اہلِ نظر ہوں یا ہم جیسے اہلِ ظاہر، سب کو سونامی ہی دکھائی دیتا ہے۔اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟میرا خیال ہے اس کا جواب تلاش کر نا مشکل نہیں۔اس وقت تو سب مل کرچینی سرمایہ کاری کے لیے دعا کرتے ہیں۔ہاں اگر اللہ لوگوں کے دلوں کو پھیر دے تو دوسری بات ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved