انسانی مزاج کی نیرنگیاں اتنی اور ایسی ہیں کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ کون کب کیا کر بیٹھے‘ کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ کسی کو نظر انداز کیجیے تو مصیبت، گلے لگائیے تو مصیبت۔ خاموشی کو خصلتِ حسنہ کی حیثیت سے اپنائیے تو گھمنڈی اور ''گُھنّا‘‘ ٹھہرایا جاتا ہے۔ اور اگر زیادہ بولیے تو باتونی قرار دے کر دامن کش ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گویا ع
گویم مشکل، و گر نہ گویم مشکل
ہمارے ملنے جلنے والوں میں سبھی ہم جیسے نہیں، بعض پڑھے لکھے بھی ہیں اور چند ایک تو شعر بھی کہتے ہیں۔ اب آپ یہ سوال مت اٹھائیے گا کہ پڑھے لکھے ہونے کا شعر گوئی سے کیا تعلق ہے۔ ہم نے پہلے بتادیا کہ ہمارے احباب میں پڑھے لکھے بھی ہیں اور شعر کہنے والے بھی۔ اس درجہ بندی کے بعد بحث کی بظاہر کوئی گنجائش نہیں!
بحث بر طرف، آمدم برسرِ مطلب۔ قصہ یہ ہے کہ صاحب کہ ہمارے جن احباب نے موزوں طبع پائی ہے وہ ہر وقت شاکی رہتے ہیں کہ کوئی پوچھتا نہیں، کوئی کسی قابل گردانتا ہی نہیں۔ جو تھوڑی بہت عقل اللہ نے ہمیں دی ہے اُسے بروئے کار لاتے ہوئے ہم نے انہیں بارہا یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ یا تو اپنے زمانے سے بہت پہلے پیدا ہوگئے ہیں یا پھر بہت بعد میں تشریف لائے ہیں۔ ایسے میں بھلا زمانہ ان کی بات کیسے سمجھے گا؟ (ایسی باتوں سے شعراء اکثر بہل جایا کرتے ہیں اور ان کی گفتگو میں شکایت کا تناسب گھٹ جاتا ہے۔ یہی وہ ترکیب ہے جس پر عمل کرتے ہوئے ہم نے اب تک متعدد شعراء کو یوں رام کیا ہے کہ اب وہ ہمارے سامنے زمانے کی بے مہری یا سرد مہری کا رونا نہیں روتے! یہ بات ہم آپ کو اس لیے بتا رہے ہیں کہ ہم صرف کالم ہی نہیں لکھا کرتے بلکہ کبھی کبھی دماغ سے کام لیتے ہوئے ایک آدھ ڈھنگ کا کام بھی کرلیتے ہیں!)
شعر گوئی کا ذوق و شوق رکھنے والے جو احباب اکثر ہمارے سامنے معاشرے کی بے حِسی اور ناقدری کا رونا روتے رہتے ہیں وہ گزشتہ دنوں ایک خبر سے انتہائی سیخ پا ہوکر رہ گئے۔ ہمیں ان کا مزاج برہم دیکھ کر بہت حیرت ہوئی۔ بات یہ ہے کہ کسی نے اخبار کے کلاسیفائیڈ سیکشن میں اشتہار دیا کہ مشاعرے کے لیے دس بارہ شعرائے کرام کی ضرورت ہے۔ فی کس پانچ سو روپے مشاہرہ دیا جائے گا! ہر وقت سخن گوئی پر تُلے رہنے والے ہمارے چند احباب یہ خبر پڑھ کر یوں سکتے میں آگئے جیسے بیگم نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہو! یہ کیفیت دیکھ کر ہمارے سامنے چپ رہنے کے سوا راستہ نہ تھا اس لیے ہم چپ رہے، ہم ہنس دیئے!
چند لمحات کے بعد جب حواس بحال ہوئے تو گروہِ سخنوراں نے مذکورہ اشتہار دینے والے شخص پر لعنت ملامت شروع کی۔ ایک شاعر یعنی ایک غزل کی قیمت پانچ سو لگائے جانے پر وہ شدید برہم تھے۔ سب اپنے اپنے دل کا غبار نکالتے رہے۔ ہم کچھ دیر تو یہ تماشا دیکھتے رہے، پھر ہم سے رہا نہ گیا اور ہم نے دخل در ''نامعقولات‘‘ کی جسارت کرتے ہوئے عرض کیا کہ آپ لوگوںکی گفتگو زمانے کی ناقدری کے شِکوے سے پُر ہوتی ہے یعنی یہ کہ کچھ دینا تو دور کی بات ہے، کوئی مفت بھی کلام سننے پر آمادہ نہیں ہوتا! جہاں کوئی ایک غزل کے عوض چائے پراٹھے سے تواضع کرنے کا بھی روادار نہ ہو وہاں اگر ایک غزل کے پانچ سو مل رہے ہوں تو سَودا کیا بُرا ہے؟
اتنا کہنا تو ہمارے گلے کے لیے پھندا بن گیا۔ پہلے تو سب کے منہ پُھول گئے اور پُھولتے ہی چلے گئے۔ پھر سب کے منہ نارمل ہوئے اور ان سے ہماری شان میں طرح طرح کے ناہنجار الفاظ پر مبنی تبصرے برآمد ہونے لگے! خوفِ فسادِ خلق سے ہم وہ تبصرے یہاں نقل نہیں کرسکتے۔ بس یہ سمجھ لیجیے چند لمحات تک تو یہی محسوس ہوتا رہا کہ ہم بھی رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں! شعراء کے مزاج کے خلاف کوئی بات کہنا شہد کی مکھیوں سے کِھلواڑ سے کم نہیں!
بھائی عدیلؔ نے ابتداء کی : ''اب کیا ہماری یہ حیثیت رہ گئی ہے کہ مشاعرہ پڑھنے کے لیے پانچ سو روپے کے مشاہرے کی پیشکش کی جائے؟ یہ پیشکش ہے یا مذاق؟ اور مذاق بھی بھونڈا۔‘‘
ہم نے یہ کہتے ہوئے بھائی عدیلؔ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی کہ آپ لوگ خود ہی تو کہتے رہتے ہیں کہ شعر کہتے ہوئے ایک زمانہ ہوگیا مگر کوئی گھاس نہیں ڈالتا۔ اب اگر کوئی ''عزت‘‘ دینا چاہتا ہے تو آپ نخروں کی دکان کھولنے پر تُلے ہوئے ہیں!
بھائی عدیلؔ قدرے بھڑک کر بولے : ''ٹھیک ہے، ہمارا بنیادی شِکوہ یہ ہے کہ کوئی گھاس نہیں ڈالتا۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی واقعی ہمارے آگے گھاس ڈال دے! گھاس والی بات تو محاورتاً کہی جاتی ہے۔ مشاعروں کے منتظمین کو یہ بات سمجھنی چاہیے۔‘‘
ہم نے عرض کیا کہ جب ہمارے شعراء کوئی بات نہیں سمجھتے تو مشاعروں کے منتظمین بھلا کوئی بھی بات کیوں سمجھیں! شاعری اور مشاعروں کے نام پر گھاس یا تو کاٹی جارہی ہے یا پھر کھائی جارہی ہے! ہم تو یہی کہیں گے کہ فی زمانہ پاکستان میں شعراء اور دنیائے سخن کا جو حال ہے اس کے پیش نظر اگر کسی کو مشاعرہ پڑھنے کا مشاہرہ مل رہا ہو تو بڑی بات ہے۔ ع
ایں سعادت بزورِ بازو نیست!
''مشاہرہ؟‘‘ بھائی حسنؔ تقریباً چونک پڑے۔ ''اسے مشاہرہ کہتے ہیں؟ اگر واقعی یہ مشاہرہ ہے تو ہم چاہیں گے کہ ہماری غزل کی کوئی قیمت نہ آنکی جائے۔‘‘
ہم نے ذہن میں چند دلائل تیار کیے اور پھر سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ ''چانس کا سَودا‘‘ ہے۔ ایسا موقع بار بار نہیں ملا کرتا۔ جو کچھ بھی مل رہا ہے وہ ہنسی خوشی لے لیا جائے۔ یہ معاشرہ اب شعراء کو دیتا ہی کیا ہے۔ ادبی تنظیمیں بھی جو مشاعرے کراتی ہیں ان میں شعراء کو بریانی اور کولڈ ڈرنک پر ٹرخادیا جاتا ہے۔ ایسے میں برائے نام دکھائی دینے والا مشاہرہ بھاگتے چور کی لنگوٹی سمجھ کر قبول کرلیا جائے! مگر ہمارا سمجھانا اناڑی کے تیر کی طرح خطا ہوگیا۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ رات دن شعر کہنے والے ''سخن گر‘‘ احباب ہمارے گراں قدر مشورے پر عمل کرتے ہوئے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کریں گے اور بھاگتے چور کی لنگوٹی جھپٹنے میں دلچسپی لیں گے۔ ہم تو محض اس لیے سمجھا رہے تھے کہ رات دن کی ''مشقِ ناز‘‘ کا کچھ تو نتیجہ برآمد ہو یعنی جس شاعری کو سماعت فرمانے پر ہمیں اجرت اور قوتِ برداشت کا ایوارڈ ساتھ ساتھ دیا جانا چاہیے اس کے عوض کچھ مل رہا ہے تو آنکھوں سے لگاکر چُومتے ہوئے قبول کرنا چاہیے! اور کل کو بچوں اور ان کے بچوں کو بتانے کے لیے بھی ہوگا کہ شاعری کوئی رائیگاں جانے والی چیز نہ تھی، کبھی اس کا کچھ معاوضہ بھی ملا تھا!
بھائی عامرؔ شیخ کو بھی ہمارے مشورے اپنی سخن وری کی شان میں گستاخی محسوس ہوئے۔ پانچ سو روپے کا مشاہرہ قبول کرنے کا مشورہ سُن کر بھائی عدیلؔ اور بھائی حسنؔ کی طرح وہ بھی تپ گئے اور بولے : ''آپ جیسے لوگ ہی مارکیٹ خراب کرتے ہیں اور چند کلیوں پر قناعت کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جبکہ گلشن میں تنگیٔ داماں کا علاج بھی پایا جاتا ہے!‘‘
ہم نے قطع کلامی کا حق استعمال کرتے ہوئے عرض کیا کہ خراب تو اس وقت ہوگی نا جب کوئی مارکیٹ ہوگی! اور مشاعرہ پڑھنے کا معمولی سا بھی مشاہرہ ملے تو لینے میں ہرج کیا ہے؟ ہوٹل والے کے ہاں اور چائے اور پراٹھے کے کھاتے میں آپ کے نام جو اعمال نامۂ ادھار لکھا ہوا ہے اس کی سیاہی کچھ تو کم ہوگی!
بھائی عامرؔ یہ دلیل سن کر پہلے تو تذبذب کا شکار دکھائی دیئے اور پھر باضابطہ سوچنے لگے۔ گویا ہمارا تیر نشانے پر لگا تھا۔ اب تک ہم احباب کے دل کو فوکس کیے ہوئے تھے۔ پہلی بار پیٹ کی بات کی تو غور فرمائے جانے کا تاثر ملا! نامعقول سے مشاہرے پر ہونے والی اس طویل بحث کے دوران ہم نے پہلی بار دیکھا کہ کوئی تھوڑا سا سنجیدہ ہے۔ بھائی عامرؔ کے ردعمل نے ہمیں مطمئن کردیا کہ ہمارا سمجھانا رائیگاں نہیں گیا۔ یعنی آئندہ اگر کوئی گھاس ڈالنے کی بات کرے گا تو اُسے دولتّی رسید کیے جانے کا خوف لاحق نہ ہوگا!