تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     15-10-2015

اہلِ ثروّت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰۃ

شرم جب رخصت ہوتی ہے، دل جب پتھر ہو جاتے ہیں۔
بدل دیا نہ اگر آدمی نے دنیا کو
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں 
سری لنکا کے اخبارات میں اس پر حیرت کا اظہار مسلسل ہے کہ پاکستان نے 500 ملین ڈالر کا زرِ مبادلہ جمع کرنے کے لیے 8.3 فیصد کی شرح پر بانڈ کیوں جاری کیے۔ دو اڑھائی گنا زیادہ شرحِ سود کی پیشکش کس لیے کی گئی؟ شاید یہ ان سوالات میں سے ایک ہے، جن کا مکمل جواب کبھی نہ مل سکے۔ سال بھر کی کوشش کے باوجود پاکستانی عوام یہ نہیں جان سکے کہ قطر سے درآمد کی جانے والی ایل این جی کی مستقل قیمت کیوں مقرر نہیں کی جا سکی۔ نندی پور کے بارے میں پیچ در پیچ کہانیاں ہیں۔ میاں شہباز شریف اور خواجہ آصف کے اختلافات۔ اس کی لاگت 109 ارب تک لے جانے کی پُراسرار کوششیں۔ ادھر منصوبہ بندی کمیشن کے سربراہ احسن اقبال کی وزیرِ اعظم نے بالآخر تائید کر دی ہے بلکہ تحسین اور پشت پناہی۔ وفاقی وزرا، مردِ نجیب سمجھے جانے والے خاقان عباسی اور ہجو کے گرامی قدر استاد خواجہ محمد آصف نے احسن اقبال پہ یلغار کیوں کی؟ احسن صاحب کا دعویٰ یہ ہے اور بظاہر ٹھیک نظر آتا ہے کہ ان کے ادارے نے پیش کردہ منصوبوں میں سرمایہ لٹانے کی راہ روکی۔ چار سو ارب روپے؟ احسن صاحب چار سو ارب؟ ان کا جرم کیا یہ ہے کہ اپنا موقف دھیمے لہجے میں پیش کرتے ہیں۔ ببانگِ دہل ان وزرا نے مطالبہ کیا کہ منصوبہ بندی کمیشن کی بساط ہی لپیٹ دی جائے۔ زچ ہو کر وہ وزیرِ اعظم کے پاس گئے۔ اپنا محکمہ تبدیل کرنے یا مستعفی ہونے کی پیشکش کی۔ جارحانہ مزاج رکھنے والے وزرا کا مطالبہ کیا یہ ہے کہ ہر طرح کی اداراتی نگرانی سے انہیں آزاد کر دیا جائے۔ افغانستان کے وار لارڈز کی طرح ان کی وزارتوں کو ان کی ذاتی چراگاہیں بنا دیا جائے؟ اس پورے قضیے میں اپنے اختیارات پر ناز کرنے والے اسحٰق ڈار کہاں تھے؟ وہ مالیاتی جادوگر، جس کی دولت اور اولاد سمندر پار ہے۔ کیا ایک دن شوکت عزیز کی طرح وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ملک کو خیرباد کہہ دے گا؟ 
اسحق ڈار کا تازہ ترین کارنامہ اپٹما کی ملک گیر ہڑتال ہے، آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی۔ وہ صنعت جو ملک کو حاصل ہونے والے زرِ مبادلہ کا آدھا حصہ کما کر دیتی ہے۔ بنگلہ دیش کے سات اور بھارت کے آٹھ سینٹ کے مقابلے میں پاکستانی پارچہ باف کو 15 سینٹ فی یونٹ کے حساب سے بجلی کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ اس ادارے کے ایک ترجمان حاجی محمد اسلم‘ گزشتہ برس جنہوں نے معرکے کی ایک کتاب لکھی، کل ناچیز کے ہاں تشریف لائے۔ بتایا کہ ٹیکسٹائل کی صنعت کے 25 فیصد سے زیادہ مزدور بے روزگار ہو چکے۔ بجلی کے نرخ اور اس کی فراہمی میں تعطل۔ خدا خدا کرکے پیپلز پارٹی سے جان چھوٹی۔ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار رکھنے والے ان کارخانوں کی بحالی کا امکان پیدا ہوا۔ اب یہ ایک نیا بحران ہے۔ 
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو 
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ترکمانستان والی مجوّزہ گیس پائپ لائن کے لیے ان اداروں پر نیا ٹیکس نافذ کر دیا گیا ہے۔ حاجی اسلم کے سوا کوئی اور شخص یہ اطلاع فراہم کرتا تو یقین ہی نہ آتا۔ حاجی صاحب مگر ہولناک حد تک سچ بولنے والے آدمی ہیں۔ کل بتایا: میرا پوتا بیمار تھا۔ بیگم صاحبہ سے کہا: لائو میں اسے دَم (دعا) کر دوں۔ بولی: بچّے کا معاملہ ہے۔ کسی نیک آدمی سے دعا کرائیے۔ 
پاکستانی سیاست اور معاشرت کے امراض معلوم ہیں۔ آج مگر اوکاڑہ کے الیکشن کی کہانی ایک اخبار نے چھاپی ہے‘ اور اس نے کچھ مزید آفاق روشن کر دیے۔ بتایا گیا ہے کہ جیتنے والا آزاد امیدوار بناسپتی گھی کے ایک کارخانے کا مالک ہے۔ نون لیگ سے ٹکٹ حاصل کرنے کا وہ آرزومند تھا‘ مگر جب اس کی التجا ٹھکرا دی گئی‘ جب تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ کے ''مالکان‘‘ نے اپنی پسند کے امیدوار چن لیے‘ تو اپنے خاندان کے لوگوں کو اس نے جمع کیا۔ نو کروڑ روپے کا الیکشن فنڈ قائم کرکے آزاد امیدوار ہو گیا۔ بعد ازاں الیکشن فنڈ میں اضافہ کر دیا گیا۔ گاڑیوں میں نوٹوں کی بوریاں لاد کر وہ انتخابی مہم پر نکلتے۔ شام کو لوٹ کر آتے۔ کسی بوری میں روپیہ باقی بچ رہا ہوتا تو خاندان کے بزرگ لعن طعن کرتے۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے مزدوروں کے باب میں جج صاحب کچھ ایسے فیاض نہیں۔ ہاں مگر، رمضان المبارک کا مہینہ آئے تو اپنے شاندار اطلاعاتی نظام کے بل پر شہر بھر کے مفلسوں کی فہرست بناتے اور ایک ماہ کا راشن ہر ایک گھر میں پہنچا دیتے ہیں... ذخیرہ اندوزی، زیر دستوں پہ شیر کی نگاہ اور خیرات و صدقات؟ اقبال ؔ کے سوا اب کون یاد آئے۔ 
خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعل ناب
از جفائے دہ خدایان کشتِ دہقانان خراب 
انقلاب! انقلاب! ای انقلاب! 
مزدور کے لہو سے خواجہ موتی ڈھالتا ہے۔ دیہی خدائوں کے عتاب سے کسان کی فصل برباد۔ انقلاب، انقلاب، انقلاب۔ ہائے یہ قوم۔ کیسے عظیم انقلابی شاعر اور مفکر کو سموچا نگل گئی۔ فرمایا:
دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ
بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے 
سرمایہ کاری کے ماہرین اور اشتراکیت کے روشن خیال فرزند اپنے گیت شہروں میں لکھ رہے ہیں۔ شریف حکومت نے کاشتکاروں کو برباد کرکے رکھ دیا۔ گیہوں بیس پچیس فیصد کم پر بکا۔ دھان کے دام آدھے رہ گئے۔ گنے کے بہت سے کاشتکاروں کو سالِ گزشتہ کا معاوضہ اب تک نہیں مل سکا۔ 
دستِ دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی 
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰۃ
دانشوروں کو خبر ہے کہ نہیں ہے؟ محنت کش بھکاری بننے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔ بہت ہیں، لنگر بے شمار، بہت سے ہسپتالوں میں مریضوں کو مفت کھانا میسر ہے۔ مفت تعلیم دینے والے ہزاروں تعلیمی ادارے وجود میں آ گئے۔ سرکاری سکول مگر اجڑ گئے۔ بہت سوں میں ڈھور ڈنگر بندھے ہیں۔ اکثر میں طلبہ کی حالت بھی حیوانوں جیسی کہ اساتذہ نابلد ہیں، خود نا تربیت یافتہ۔ گھر کے پچھواڑے میں پڑے ناکردہ کار غریب رشتے 
داروں کی طرح، حکومت کے نزدیک وہ بیکار کا مال ہیں۔ گنتی کے چند دانش سکول البتہ لاڈلے ہیں یا میٹرو۔ شہروں کے اندر سگنل فری شاہراہیں بن رہی ہیں، نو دولتیے جن پر 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑیاں دوڑا سکیں۔ میرے عزیز دوست عدنان کل سال بھر کے بعد اسلام آباد آئے۔ شہر کی بعض نئی سڑکیں دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ سڑک ہے یا ایئر پورٹ؟ اگر کسی کو سوجھ گئی، اجڑے ہوئے کھیتوں اور کھلیانوں سے بے قرار ہجوم اگر شہروں کی طرف امڈ پڑے تو کیا ہو گا؟ اسحٰق ڈار اور شاہی خاندان دبئی یا لندن سدھاریں گے۔ ہم کہاں جائیں گے؟ اخبار نویس چیختے کیوں نہیں؟ امام اپنے مقتدیوں کو بتاتے کیوں نہیں کہ ٹیکس ایک عبادت ہے۔ اللہ کا حکم ہے کہ اہلِ ثروت غریب کا حصہ ادا کریں۔
پھر ایک حیران کن واقعہ عدنان عادل نے سنایا: صنعت کاروں کا ایک اجلاس شوکت ترین نے بلایا جب وہ وزیرِ خزانہ تھے۔ لاہور کے شاہی خاندان سے قریبی تعلقات رکھنے والے ایک وحشی زردار نے دستر خوان پہ پڑی پیسٹری اٹھائی اور کہا: یہ ہے ہمارا مال، سرکاری افسر جس پر دادِ عیش دیتے ہیں۔ شوکت ترین کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں۔ ہمیشہ کے نرم لہجے میں اس نے کہا: سرکار سے میں تنخواہ نہیں لیتا، سرکاری مکان میں قیام نہیں۔ حکومتی گاڑی میں استعمال نہیں کرتا... اور اس دستر خوان پہ جو کچھ رکھا ہے، وہ میں نے اپنی جیب سے منگایا ہے۔ ہائے ہائے! ... شرم جب رخصت ہوتی ہے، دل جب پتھر ہو جاتے ہیں!
بدل دیا نہ اگر آدمی نے دنیا کو
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved