پاکستان کے سابق وزیر ِ خارجہ، خورشید محمود قصوری کی کتاب کی ممبئی میں ہونے تقریب ِ رونمائی روکنے کے لیے سدھندرا کلکرنی کے خلاف شوسینا کا جارحانہ رویہ او ر کی گئی بدسلوکی کے باوجود مصنف کی ممبئی میں کتاب کی تقریب ِرونمائی کی خواہش پوری ہوجائے گی۔ اب قطع نظراس کے اس کتاب کا مواد کیسا ہے، اس پر روارکھے جانے والے رویے کی وجہ سے پاکستان اور دنیا بھر کے بہت سے لوگ اسے پڑھیں گے۔
تاہم جس طرح ہندوستان میں سرمایہ کاری کے مواقع میں اضافہ ہورہا ہے، اسی طرح دائیں بازو کی عدم برداشت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اقلیتوں کو ہدف بنانے، 'گھرواپسی کا نعرہ‘ اور اسی طرح کے شدت پسندانہ جذبات کا اظہار نمایاں خدوخال بنتے جارہے ہیں۔ گزشتہ چند ایک برسوںسے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے دبائو کی وجہ سے پاکستانی فنکاروں کے کئی ایک کنسرٹس یا دیگر ثقافتی تقریبات کو منسوخ کرنا پڑا۔ لہٰذاا س میں حیرانی کی کوئی بات نہیںکہ پاکستان کی ایک مشہور شاعرہ اور خواتین کے حقوق کی بات کرنے والی دانشور، فہمیدہ ریاض کو اس بات پر حیرانی ہے کہ وہ اس نئے ہندوستان کو دیکھ کر ہنسیں یا روئیں کیونکہ یہ بھی ''اپنے جیسا ہی نکلا‘‘۔ عدم برداشت کے علاوہ یہ پاکستان کی طرح اُس راستے پر چل نکلا ہے جو ہندوستان کو ناپسند تھا۔ گلوکارابھجیت بھٹا چاریہ مشہور کلاسیکی گلوکار غلام علی کو''ڈینگی‘‘ قراردے کر یا اُن کے کنسرٹ کی منسوخی پرشادمانی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی حب الوطنی کا اظہار کرسکتا ہے، لیکن کیا پاکستان پرایسے ہی رویے کا الزام نہیں لگایا جاتا تھا کہ یہ اپنے عوام کودونوں ممالک کے مشترکہ کلچر اور تاریخی کے سفر سے دور رکھتا ہے؟
یہ جنرل ضیا کا دور تھاجب ملک میں بڑھتے ہوئے مذہبی جذبات سے بچ کر فہمیدہ ریاض کوانڈیا میں پناہ لینا پڑی۔ درحقیقت تین عشروں (1980 ء کی دہائی سے لے کر 2000 ء کی دہائی تک)کے دوران بہت سے پاکستانی انڈیا کا موازنہ کرتے ہوئے بات کرتے تھے ۔انہی دنوں کا ذکر ہے کہ ایک لطیفہ گردش میں تھاکہ ایک پاکستانی کتے کی بھارتی کتے سے سرحد پر ملاقات ہوئی۔ بھارتی کتے نے شکایت کی اُن کے ہاں کھانے کی سخت قلت ہے، جبکہ اس کے پاکستانی ہمسائے کی شکایت تھی کہ اُسے بھونکنے کی اجازت نہیں۔ دراصل ہم پاکستانی اس بات کا برا مناتے کہ ہمارا بر ِ صغیر کی تاریخ سے تعلق توڑتے ہوئے ہم پر مشرق ِ وسطیٰ کی شناخت مسلط کردی گئی ہے۔ لوگ اس بات کی نشاندہی کرتے کہ کس طرح سکول کے نصاب میں تاریخ کے بہت سے اوراق کو غائب کردیا گیا ہے۔ریاست کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والے بھٹا چاریہ جیسے''مفکرین‘‘ پاکستان میں بھی پائے جاتے تھے اور اُن کا خیال تھا کہ ہم مشترکہ تاریخ کے بغیر رہ سکتے ہیں۔ تاہم فہمیدہ ریاض نوحہ کناں تھیں۔۔۔''تم بالکل ہم جیسے نکلے، اب تک کہاں چپ تھے بھائی، وہ مورکھتا، وہ گمراہ پن، جس میں ہم نے صدی گنوائی،آخرپہنچے دوار تمہارے‘‘۔
یہ اس انڈیا کا حال ہے جو ہوسکتا ہے کہ مالی طور پر بہت مستحکم ہو لیکن اپنے شہریوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ اگرچہ کانگرس نے بھی دائیں بازوکی حوصلہ افزائی شروع کردی تھی لیکن بی جے پی کی موجودہ قیادت میں یہ کئی گناطاقتور ہوچکا ہے۔ اگرچہ ہم پاکستان میں اس تصور پر ہنستے تھے جب کہا جاتا تھا کہ پاکستان امت ِ مسلمہ کا مرکز ہے، اسی طرح ہندوستانی قیادت بھی اپنے معاشرے کے اجتماعی پن اور ترقی پسندی کو ذبح کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ انڈیا کو اس کی بھاری قیمت چکانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ لوگ یہ سوال کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ کیا بھارت میں سماجی اجتماعیت کے دن گنے جاچکے ہیں۔ جمہوریت کی کوالٹی سے قطع نظر ، بہت سے لوگ جنوبی ایشیا کے اس عظیم ترین ملک میں سیاسی عمل کے تسلسل اور سیکولر تصورات کو سراہتے تھے۔ ایسا نہیں کہ یہاںفرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوتے تھے، لیکن ایسے واقعات کو عموماً معاشی مسائل کا نتیجہ قرار دیا جاتا تھا، تاہم اب سوچ سمجھ رکھنے والے افراد کاحکومت کی مخالفت کرنے پر گلا دبایا جارہا ہے، کھانے پینے اور عقائد کی بنیاد پر سفاکانہ طریقے پر قتل کیا جارہا ہے،جبکہ کنسرٹس وغیرہ کوریاستی جبر سے روکا جارہا ہے۔ یہ ''پیش رفت‘‘ ہمیں پاکستان میں ضیا دور کی یاد دلاتی ہے۔
کچھ لوگ دلیل دیں گے کہ ایسی سختی سٹریٹیجک ہے ، لیکن پھرایک مضبوط انڈیا کونظریاتی وحدانیت کی طرف بڑھناہوگا۔ کیا ایسا ممکن ہو گا کہ وہاں بسنے والے تمام شہری واحد سماجی اور نظریاتی عقائد اپنا لیں یا مرنے کے لیے تیار رہیں؟کیاایسی نظریاتی یکسوئی نے پاکستان کو دنیا میں ایک مذاق نہیں بنا رکھا؟ جہاں تک پاکستانی فنکاروں کے پروگرام منسوخ کرنے کا تعلق ہے توکیایہ بات اسلام آباد کو بہت متاثر کرے گی؟اس لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا انڈیا کا رویہ سٹریٹیجک ہے؟ اگر ہے تو ایسا ہی جیسا مشرف کا کارگل مشن تھا۔ یہ سول سوسائٹی، مصنف، شاعر اور دانشور تھے جو دوسرے معاشرے کے بارے میں بات کرتے تھے ، لیکن اب ان کی جانکاری کے امکانات ختم ہوتے جارہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دہلی کو پتہ چلے کہ جن افراد کو آنے سے روک رہے ہیں، وہ وہاںسے جاکر اپنے وطن میں انڈیا کے بارے میں اچھی اور دلچسپ کہانیاں سنایا کرتے تھے ، پاکستانیوں کی بھارت یاترا کا انڈیا کو سٹریٹجک فائدہ تھا ، لیکن اب اس نے خود ہی یہ راستہ بند کردیا ہے۔
پاکستانی لکھاریوں اور فنکاروں کو روک کر کیا پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو سبق سکھایا جارہا ہے؟ہر گز نہیں، کیونکہ پاکستان میں فن کار اور مصنف سیاسی بازو نہیں رکھتے۔ بہرحال، دونوں ممالک کے درمیان سماجی رابطوں کا حجم اتنا کم ہے کہ ان کو منقطع کرنے سے کسی کو بھی سبق نہیں سکھایا جاسکتا۔ غلام علی اور بہت سے دیگر کلاسیکی گلوکار بھارت آتے جاتے رہتے تھے، اورحقیقت یہ ہے کہ اُن کے زیادہ ترپرستار وہیں تھے کیونکہ وہ ان کے فن کو سمجھتے تھے۔ تاہم کسی دوری ریاست کی مارکیٹ تک رسائی کا مطلب اپنی ریاست سے غداری نہیں ، لیکن پاکستان کے بہت سے لوگ سرحد پار کے دائیں بازو کے ''شکرگزار‘‘ہوں گے کہ وہ پاکستان سے روابط توڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی سول سوسائٹی کی طر ف سے بھی مکمل خاموشی ہے ۔ تقریباً سات عشرے گزارنے کے بعد لوگ اپنی اپنی ریاست کے ساتھ زیادہ وابستہ ہوچکے ہیں۔