ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت اور
معیار کو یقینی بنایا جائے: نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت اور معیار کو یقینی بنایا جائے‘‘ یعنی جو کام اب تک نہیں ہو سکا وہ کر کے دکھایا جائے حالانکہ یہ ایک بالکل نئی اور عجیب چیز ہو گی ؛ تا ہم کہنے میں کیا حرج ہے جیسا کہ میں ہر معاملے میں پہلے کہتا آیا ہوں اور میرے کہنے کا اثر اس لئے نہیں ہوتا کہ سب سمجھتے ہیں کہ میں محض تفنن طبع کے لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ سڑیل نہیں بلکہ خوش مزاج آدمی ہوں اور جگتیں مجھے بھی اچھی لگتی ہیں۔ اگر شفافیت اور معیار کو یقینی بنا دیا گیا تو ہمارا سارا کاروبار ہی ٹھپ ہو کر رہ جائے گا اور کاروبار میں لوگ کبھی ایسا نہیں چاہتے، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان کا تشخص اجاگر کیا جائے‘‘ اگرچہ اس کام کے لئے ہم اور ہماری پالیسیاں ہی کافی ہیں اور دن رات یہی کام ہو رہا ہے، تا ہم سفیروں کو اپنے بزنس کی بجائے اس طرف توجہ دے کر بھی اپنی تنخواہیں حلال کرنی چاہئیں جبکہ ہمارے لئے تو سب کچھ حلال ہے اور قوم بھی گدھے کا گوشت کھا کھا کر کافی حد تک حلال خور ہو چکی ہے۔ آپ اگلے روز وفاقی وزیر احسن اقبال سے ملاقات کر رہے تھے۔
حکومت قومی استحکام کے لئے سب کو
ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے: گورنر پنجاب
گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ نے کہا ہے کہ ''حکومت قومی استحکام کے لئے سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے‘‘ اور یہی مفاہمتی پالیسی کا نقطہ راز ہے جس کے تحت پیپلز پارٹی کے سابقہ دور میں وہ ہمیں ساتھ لے کر چلے اور قومی استحکام کی منزل حاصل کر لی۔ اسی طرح وہ بھی اندر خانے ہمارے ساتھ تعاون کر کے ہمیں ملکی استحکام کی منزل حاصل کرنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں، اگرچہ ان کی نسبت ہم زیادہ ہنر مند لوگ ہیں اور یہ منزل ان کے تعاون کے بغیر ہی نہایت تیزی سے حاصل کر رہے ہیں کیونکہ حکمران جتنے مستحکم ہوں گے، ملکی استحکام بھی اسی مقدار میں ظہور پذیر ہوتا رہے گا جبکہ اس لحاظ سے ہمارے قائدین اس کی زندہ مثال کی حیثیت رکھتے ہیں چنانچہ سردار ایاز صادق صاحب نے جو عمران خان سے مل کر ملک کی خدمت کرنے کی اپیل کی ہے، اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ اپنے آپ کو مل جل کر مستحکم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''قیادت درپیش مسائل حل کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کر رہی ہے‘‘ اگرچہ اس کا کوئی نتیجہ نکلتا نظر نہیں آتا بلکہ الٹی گنگا بہہ رہی ہے لیکن یہ گنگا کا قصور ہے، ان کا نہیں۔ آپ اگلے روز مولانا عبدالغفور حیدری سے ملاقات کر رہے تھے۔
شکست پارٹی سے بیوفائی کرنے والوں
کا مقدر بن جاتی ہے: منظور وٹو
پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خان وٹو نے کہا ہے ''شکست پارٹی سے بیوفائی کرنے والوں کا مقدر بن جاتی ہے‘‘ البتہ اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ حالیہ ضمنی انتخابات میں ہر حلقے سے پارٹی کی شکست کس کے کھاتے میں ڈالی جائے جبکہ اکثر قائدین کا کھاتہ پہلے ہی کافی بھرا ہوا ہے اور بعض شرپسند شکست کی وجہ بھی اس کو بتاتے ہیں حالانکہ ان عمائدین کی ترقی اور خوشحالی خود پارٹی ہی کی ترقی اور خوشحالی ہے جو مخالفین کو ہضم نہیں ہو رہی حالانکہ ہمارا ہاضمہ جس حد تک لکڑ ہضم پتھر ہضم ہے، لوگوں کو اس کی داد دینی چاہئے کہ یہ بغیر کسی پھکی اور چورن وغیرہ کے ہی اس قدر مثبت نتائج پیدا کر کے دکھا چکا ہے بلکہ اب تو دیکھا دیکھی حکومت کا ہاضمہ بھی اپنی مثال آپ ہو رہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ کھانے سے پہلے ہی ہر چیز ہضم ہو جاتی ہے اور اسے کہتے ہیں سبقت لے جانا۔ انہوں نے کہا کہ ''ہمارے امیدواروں نے نتائج کی پروا کیے بغیر الیکشن میں حصہ لیا، بلکہ نتیجہ تو انہیں پہلے ہی معلوم تھا اور وہ اس میں حصہ لینے پر تیار ہی نہیں تھے لیکن ہمارا نعرہ تھا کہ بیٹا! چڑھ جا سولی، رام بھلی کرے گا۔ آپ اگلے روز حجرہ شاہ مقیم میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
ریاض الحق جج کا اگلا سفر
اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف کے چوہدری سرور نے اوکاڑہ سے کامیاب ہونے والے آزاد امیدوار ریاض الحق جج کو تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی لیکن اس کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا کیونکہ اوکاڑہ کا الیکشن جو محض پیسے کے زور پر جیتا گیا ، وہاں بھی نواز لیگ ہی کی سنت پر عمل کر کے ایسا کیا گیا ہے جو کہ اس معزز جماعت نے اپنا آغاز ہی بریف کیس حکمت عملی سے کیا تھا اور یہی نسخہ جنرل جیلانی پر بھی کامیابی سے آزمایا گیا اور اس کے بعد چل سو چل۔ بھینسیں چونکہ بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں یعنی ''مایا کو ملے کر کر لمبے ہاتھ‘‘ کے فارمولے کے مطابق بھی موصوف نواز لیگ کے علاوہ کہیں اور نہیں جا سکتے۔ باقی رہے ووٹر جنہوں نے زیادہ تر موجودہ حکومت کی نفرت ہی میں ووٹ دیئے ور نہ وہ لیگی امیدوار ہی کی مدد کرتے، ان سے مشورہ کرنے کی انہیں ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ یہ صرف اور صرف جمہوری طریقہ ہے جبکہ جہاں سو فیصد پیسے کا چلن ہو اور اسی کے ذریعے نتائج حاصل کئے گئے ہوں، وہاں ووٹروں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ اس لئے تحریک انصاف والے اپنی خاطر جمع رکھیں!
تین ہفتے پہلے!
سردار ایاز صادق کہتے ہیں کہ انہوں نے تین ہفتے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ عمران خان الیکشن کا نتیجہ تسلیم نہیں کریں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ شیخ رشید احمد کی طرح اب انہوں نے بھی علم نجوم میں درک حاصل کرنا شروع کر دیا ہے لیکن غالباً انہیں یہ پیش بینی حاصل نہ ہوئی ہوگی کہ انہیں اس الیکشن میں کامیابی کا ہفت خواں کن کن مشکلات سے گزر کر طے کرنا پڑے گا اور کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ چنانچہ اس معرکے میں نواز لیگ کی طرف سے وہ سارے خفیہ ہنر آزمائے گئے جن میں وہ طاق ہے اور عمران خان جیسے نو آموز کھلاڑی جس کا تصور تک نہیں کر سکتے اور ممکن ہے کہ ووٹ تبدیل کروانے کا عقدہ بھی بالآخر حل ہو جائے اور حکومت کے خفیہ ہتھیاروں میں سے ایک آدھ کا پتا چل ہی جائے کیونکہ اس ٹولے کی کاریگری میں تو کسی کو کوئی شک و شبہ ہے ہی نہیں۔ اس لئے سردار صاحب اپنے ہی ایک ہم سفر کی اس بات پر غور ضرور کریں کہ ہم جیتے نہیں‘ اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں!
آج کا مطلع
یوں بھی نہیں کہ میرے بلانے سے آگیا
جب رہ نہیں سکا تو بہانے سے آگیا