تجربہ کار ٹیم کا حشر ہوگیا ہے۔
الیکشن کے جلسوں میں فرماتے تھے ‘ناتجرکاروں پر بھروسہ مت کرنا ورنہ مارے جائو گے۔ میکاولی نے لکھا تھا ‘عوام کو خوف زدہ کر کے حکومت کرنا آسان ہے۔میکاولی کو پڑھے بغیر ہی ہمارے سیاستدان جانتے ہیں کہ کیسے قوم کو مسلسل خوف کی کیفیت میں رکھنا ہے۔ پہلے ڈرایاکہ جنرل مشرف اقتدار میں رہا تو سب تباہ ہوں گے۔ وہ گئے تو ڈرایا گیا کہ افتخار چوہدری بحال نہ ہوئے تو کچھ نہیں رہے گا ۔ حالانکہ اس کے پیچھے ذاتی مفادات تھے کہ بعد میں چوہدری صاحب سے اپنے تمام مقدمات اور سزائیں تھیں ۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ڈرا یاگیا ۔ زرداری کی کرپشن سے ڈرایا گیا۔ ڈرایا گیا کہ اقتدار نہ ملا تو ملک ڈوب جائے گا ۔ جب سب بہت زیادہ ڈر گئے تو امید دلوائی کہ علی بابا اور چالیس چوروں کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔
سب نے عمران خان سے ڈر کر نواز شریف کا ہاتھ تھام لیا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔ چھوڑ دیں ان تجربہ کاروں نے ملک کا کیا حشر کیا ہے ‘وہ اس وقت جو اپنا حشر خود کر رہے ہیں وہ بہت دلچسپ ہے۔ ہمیں تو پہلے پتہ تھا کہ اندر کھاتے معاملات بہت خراب ہیں لیکن اسے'' جمہوریت کا حسن ‘‘قرار دے کر نظرانداز کرتے رہے۔ اب اہم وزیروں نے کھل کر ایک دوسرے سے معاملات طے کرنے کا فیصلہ کر لیاہے۔ نندی پور سکینڈل نے بہت سوںکو ایکسپوز کر دیا ہے۔ ساری کہانی وہیں سے شروع ہوئی ۔
اگرچہ خواجہ آصف اورمیاں شہباز شریف کے درمیان اختلافات کی خبریں اس وقت سامنے آئی تھیں جب کابینہ کے ایک اجلاس میں وزیر اعظم نے خواجہ آصف کی گوشمالی کرنے کی کوشش کی تو وہ پھٹ پڑے کہ انہیں تو کوئی پوچھتا تک نہیں ہے‘ ان کی وزارت دس لوگ چلا رہے ہیں ۔وزارت کا کنٹرول شہباز شریف، ان کے صاحبزادوں اور ان کے ایک بہت بڑے کاروباری دوست کے ہاتھ میں ہے۔
میاں نواز شریف حیران ہوئے اور کہا کہ خواجہ صاحب ‘آپ کیوں انہیں مداخلت کرنے دیتے ہیں ؟ خواجہ صاحب سنجیدہ ہوگئے کہ وزیراعظم شاید اپنے بھائی کے خلاف ان کا ساتھ دینے کا پروگرام بنا چکے ہیں ۔ جب نندی پور کا کچا چٹھا کھلنا شروع ہوا تو شہباز شریف کے کان کھڑے ہوئے۔ اس سے پہلے کہ ان پر نزلہ گرتا کہ جناب ڈیل تو آپ نے کی تھی‘ آپ ہی چین گئے تھے‘ آپ ہی چینیوں کو بائیس ارب روپے کی بجائے ستاون ارب روپے دے آئے تھے۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر محمود احمد بھی آپ نے لگایا۔ اوریہ کہ سب معاملات آپ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ شہباز شریف نے سارا نزلہ وزارت پانی و بجلی پر ڈال دیا اور کہا کہ نندی پور میں کرپشن ہوئی تھی۔ وزارت پانی و بجلی یا دیگر ذمہ دارن کے خلاف نیب کارروائی کرے۔ شہباز شریف کی یہ چارج شیٹ خواجہ آصٖف کے خلاف تھی کہ ان کی وزارت یہ پراجیکٹ چلا رہی تھی ۔ خواجہ صاحب بھی وفاداری دکھانے کے چکر میں پڑ گئے اور وہ گناہ اپنے کھاتے میںلینے کی پوری کوشش کی جو انہوں نے کیے ہی نہیںتھے۔ انہیں تو کسی نے نندی پور کی فائل کو ہاتھ تک نہیں لگانے دیا تھا اور وہ فرما رہے تھے کہ جو کچھ نندی پور میں ہوا ‘وہ ذمہ دار ہیں۔ اس سے زیادہ محبت کا اظہار کوئی بھی شہباز شریف سے نہیں کر سکتا تھا ‘ لیکن اندر کھاتے ذرائع کہتے ہیں کہ جو بیان نیب کو نندی پور پر دیا گیا ہے، وہ شاید شہباز شریف کے لیے مستقبل میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے کیونکہ سارا کام تو شہباز شریف دیکھ رہے تھے جو اب فرماتے ہیںکہ نیب کارروائی کرے۔ نیب کاروائی کرے گا تو پوچھا جائے گا کہ شہباز شریف کیوں نندی پور کے پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے جب کہ یہ پراجیکٹ وزارت پانی و بجلی کا تھا۔
سوچ سمجھ کر خواجہ آصف اور شہباز شریف نے کوشش کی کہ کرپشن کے اس طوفان کا رُخ پیپلز پارٹی دور کے وزیرقانون بابر اعوان کی طرف کیا جائے۔ وہ بھول گئے کہ بابر اعوان کو چھوڑیں موجودہ ممبر الیکشن کمشن جسٹس ریاض کیانی اس وقت وزارت قانون میں سیکرٹری تھے اور انہوں نے ہی فائل پر دستخط کیے تھے کہ وہ اس منصوبے میں ہونیو الی بے ضابطگیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے اور منظوری نہیں دی تھی۔ جسٹس کیانی کو بعد میں الیکشن کمشن کا ممبر نواز شریف کی فرمائش پر لگایا گیا تھا۔
جب بابر اعوان نہ پھنس سکے تو ایک اور چال چلی گئی ۔ اب ایک اور کہانی سامنے آگئی ہے۔جو کچھ یوں ہے۔
شہباز شریف نے زکوٹاجنّوں کی ایک ٹیم اپنے اردگرد اکٹھی کر رکھی ہے۔ اس ٹیم کا کام یہ ہے کہ اپنے جیسے ڈی ایم جی افسران ڈھونڈ ڈھونڈ کر اہم پوسٹوں پر لگواتے ہیں۔ سیاستدانوں کی طرح ڈی ایم جی بھی ہر اہم پوسٹ پر اپنا بندہ چاہتے ہیں ۔ یوں ایک ڈی ایم جی محمد محمود کو نندی پور کا پراجیکٹ ڈائریکٹر لگایا گیا ۔شہباز شریف براہ راست اس منصوبے کے احکامات دے رہے تھے۔ شہباز شریف اس نوجوان سے اتنے خوش ہوئے کہ بڑے بھائی سے فرمائش کی کہ اس چہیتے افسر کو ستارۂ امتیاز دیا جائے۔ شہباز شریف اور نواز شریف کی سفارش پر صدر پاکستان ممنون حسین نے گلے میں ہار پہنایا اور نندی پور میں ان کی اعلیٰ خدمات کو سراہا گیا ۔ اب اچانک شہباز شریف پر انکشاف ہوا ہے کہ ڈٖی ایم جی افسر محمد محمود احمد تو نالائق ہے جو کام پورا نہیں کر سکا اور اسے برخاست کر دیا گیا ہے۔ شاہین صہبائی نے ایک اچھا ٹوئیٹ کیا ہے کہ بیوروکریسی کو سبق سیکھنا چاہیے‘ کیسے سیاستدان انہیں استعمال کرنے کے بعد ٹشو کی طرح پھینک دیتے ہیں اور سارا قصور ان کے کندھوں پر ڈال کر عوام سے الٹا ''اپنی شفافیت ‘‘پر داد بھی طلب کرتے ہیں کہ دیکھا ہم نے کیسے ایکشن لیا ہے۔
اندر کی کہانی یہ ہے کہ دراصل اس پھڈے میںنندی پور کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا بھی ہاتھ ہے۔ پلانٹ چلانے میں جو تاخیر ہوئی اس کے ذمہ داروں میںبورڈ ممبران بھی شامل ہیں لیکن کیونکہ انہیں کوئی نہیں جانتا ‘لہٰذا وہ مزے کررہے ہیں۔ ان سے کوئی نہیں پوچھ رہاکہ جب نندی پور سکینڈل کی شکل لے رہا تھا وہ سب اس وقت کہاں سوئے ہوئے تھے۔ انہوں نے کیوںایم ڈی محمود احمد کو ڈسپلن میں کرنے کی کوشش نہیں کی؟ اب ڈھائی برس بعد انہیں کیسے راتوں رات پتہ چل گیا کہ سارا قصور ایم ڈی کا ہے اور وہ سب بہت اچھے لوگ ہیں ۔
اصل میں محمود احمد کی برخاستگی کی وجہ وہ بریفنگ بنی ہے جو وزارت پانی و بجلی کی وزارت کو نندی پور کے حوالے سے دی جانی تھی۔ اس کمیٹی کے ممبران نے نندی پور کے ایم ڈی کو بریفنگ کے لیے بلایا ۔ وہ خود تو نہ گئے اور نہ وزیر پانی بجلی گئے۔ تاہم انہوں نے بریفنگ کی دستاویزات بھجوا دیں۔ اس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ نندی پور پلانٹ کے تاخیر سے چلنے کی ایک وجہ اس کے بورڈ ممبران ہیں ۔ ان دستاویزات کے مطابق جو میرے پاس موجود ہیں، ایم ڈی نے ملائشیا کی کمپنی کو نندی پور چلانے کا ٹھیکہ دینے کی منظوری کی فائل بورڈ کے ممبران کو فروری میں بھیجی لیکن وہ فائل اگست تک بورڈ ممبران کے پاس پڑی دھول چاٹتی رہی۔ انہوں نے اس پر کوئی فیصلہ نہ کیا اورتاخیر ہوتے ہوتے ایک سکینڈل بن گیا ۔
یوں نندی پور پراجیکٹ کے ایم ڈی محمود احمد نے تحریری طور پر سارا ملبہ نندی پور کے بورڈ ممبران پر گرادیا ۔ یقینا یہ رپورٹ ان بورڈ ممبران تک بھی پہنچی ہوگی کہ ایم ڈی نے سارے بحران اور سکینڈل کا ذمہ دار آپ لوگوں کو ٹھہرایا ہے۔ اب انہی بورڈ ممبران نے خود بیٹھ کر محمود احمد کو اس گستاخی پر برطرف کر دیا ہے۔ کسی نے بورڈ سے نہیں پوچھاکہ جناب آپ کو فائل بھیجی گئی تھی کہ ملائشیا کی ایک کمپنی اسے چلائے گی‘ آپ اس فائل پر کیوں چھ ماہ بیٹھے رہے؟ یہ بھی پتہ چلا ہے ایم ڈی محمود احمد کو کہا جارہا تھا کہ وہ ایک چینی کمپنی سے نیامعاہدہ کریں مگر انہوں نے انکار کیا اور برطرف ہوئے۔ یوں محمود احمد کو جن نیک ہاتھوں سے ستارہ ٔامتیاز پہنایا گیا تھا ‘انہی کے ہاتھوں سے انہیں بے عزت کر کے نکال دیا گیا ہے۔
پھر بھی ہمارے بیوروکریٹ نہیں سمجھیں گے‘ کیونکہ ان کے منہ کو بھی چاٹ لگ گئی ہے۔ ایک نکلے گا تودس اس کی جگہ لینے کو تیارہوں گے۔ چند دنوں کے ٹہکے کے لیے کچھ بھی کر گزریں گے۔ مجھے لطیفہ یاد آرہا ہے کہ ایک گدھے کی بندر سے دوستی تھی۔ بندر رات کو مالک کے گھر سے آٹا کھانے کے بعد گدھے کے منہ پر بھی مل دیتا اور خود دور سے بیٹھ کر اسے مالک سے مارکھاتے دیکھتا رہتا ۔
یہ ہے وہ اصلی اور نسلی تجربہ کار ٹیم اور اس کی استادیاں۔۔!
آخر پر برطرف ڈی ایم جی کلاس کے ہیرے محمد محمود احمد سے عرض ہے اب آپ نندی پور سکینڈل میں برطرف ہوچکے ہیں اور اس ستارہ امتیاز کے حق دار نہیں رہے جو نندی پور میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے پر حکومت کی سفارش پر صدر نے عطافرمایا تھا۔ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ فرمائیں۔ جنہوں نے آپ کو ستارہ ٔامتیاز سے نوازا تھا ‘انہیں واپس کر دیں۔ اگرچہ ہر سیاسی دور میں سینکڑوں سفارشی میڈلز لے اڑتے ہیں آپ اناڑی نکلے۔ ورنہ یہاں کیا کچھ نہیں ہوتا ۔ اپنے سیاسی آقائوں سے اور کچھ نہیںتو یہی استادی سیکھ لیتے کہ نالائق ہو کر بھی اپنے آپ کو کیسے تجربہ کار ثابت کیا جاتا ہے۔
ابھی میں نے ماریو پزو کا کلاسک ناول ''گاڈفادر ‘‘کا اردو ترجمہ دوبارہ چھاپا ہے۔ اس کی ایک لائن آپ کی خدمت میں حاضر ہے:
Its not personal Sonny, its strictly business.
محمود صاحب ۔ آپ برطرفی کو دل پر نہ لیں۔ آپ کو یہ سزا نندی پوری سکینڈل پر نہیں بلکہ اپنے'' سیاسی استادوں‘‘ سے ''اُستادیاں‘‘نہ سیکھنے پر دی گئی ہے!