تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     16-10-2015

وسائل کا زیاں

سست معاشی ترقی ، غربت اور معاشی ناہمواری میں اضافے، اندرونی اور بیرونی سکیورٹی کے مسائل اور توانائی کے بحران کے باوجود ہمارے رہنما وسائل کو ہوا میں اس طرح اُڑارہے ہیں جیسے وہ دنیا کی متمول ترین اقوام کے حکمران ہوں۔ وزیر ِ اعظم کے نیویارک کے حالیہ دورے کے دوران ہونے والے ہوشربا اخراجات ، جن کابوجھ ٹیکس دہندگان پر پڑا، اس امر کی تصدیق کرتے ہیں اور اُنہیں عوام کے پیسے کو بے دریغ خرچ کرنے میں کوئی عار نہیں۔ تاہم یہ کوئی نئی بات نہیں، اس سے پہلے قائم ہونے والی دیگر حکومتیں، چاہے وہ سول ہوں یا فوجی، قومی وسائل کو سنگدلی سے خرچ کرنے میں ایک سے بڑھ کر ایک تھیں۔ آج دیکھا جاسکتا ہے کہ ہماری فاقہ مستی کیا رنگ لائی ہے۔ہمارے حکمران جمہوری رہنمائوں نہیں بلکہ بادشاہوں کی طرح دریا دلی سے اسراف کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف قوم اربوں کھربوں روپوں کی مقروض ، لیکن ان نام نہاد جمہور پسندوں کے لیے قرض لینا ایک نشہ اور خرچ کرنا ایک تفریح ہے۔ 
گزشتہ تین سال کی ''سپلیمنٹری ڈیمانڈز فار گرانٹس اینڈ اپروپری ایشنز‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر ِا عظم، صدر ِ مملکت، گورنرز اور وزرا کی عالی شان رہائش گاہوں کی تزئین و آرائش پر بھاری رقوم خرچ کی گئیں۔ یہ دلخراش شاہ خرچی اُس ملک میں روا رکھی گئی جس کی آبادی کا12.7 فیصد (ورلڈبنک اور ورلڈ ڈویلپمنٹ انڈیکیٹرز کے حالیہ رپوٹ کے مطابق) 1.25 ڈالر یومیہ سے بھی کم پر گزارا کرتا ہے۔ یہ صورت ِ حال انتہائی غربت کی نشاندہی کرتی ہے، لیکن حکمران اس سے لاتعلق، اپنی شاہ خرچیوں میں مگن ہیں‘ جیسے وہ ایسی رومانوی دنیا میں رہتے ہوں جہاں مسائل کا کیا گزر۔ 2014ء ہیومین ڈولپمنٹ انڈیکس کے مطابق پاکستان کا 187 ممالک میں سے 146 واں نمبر ہے۔ اس کے اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے اور یہ آئین کے آرٹیکل 25A کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق ۔۔۔''ریاست پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو لازمی تعلیم قانون کے طے شدہ طریقے کے مطابق مفت فراہم کرے گی۔‘‘تاہم ملک کی مایوس کن صورت ِ حال کے برعکس وزیر ِ اعظم سیکرٹریٹ کا یومیہ خرچ 2.5 ملین روپے ہے۔ 2008-09 ء میں یہ خرچ چھ لاکھ یومیہ تھا، لیکن اب صرف چھ برسوں میں اس میں 250 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ شاید ہمارے ہاں ترقی اسی کو کہتے ہیں۔ 
انتخابات کے دوران ہرسیاسی جماعت فضول اخراجات کم کرنے، کفایت شعاری برتنے، معاشی اصلاحات لانے، ترقی کی شرح ِ نمو میں اضافے، روزگار اور غریب عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے سوشل تحفظ دینے کے اعلانات کرتی ہے، لیکن اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ غریب عوام پر مزید ٹیکس لگا کر اشرافیہ کو عیش کراتی دکھائی دیتی ہے اور یہ وعدہ خلافیاںحادثہ نہیں، معمول ہیں۔ اس صورت ِحال کومزید تکلیف دہ بنادینے والی حقیقت یہ ہے کہ سیاسی رہنما اور اراکین ِ پارلیمنٹ خود برائے نام ٹیکس ادا کرتے ہیں(ایف بی آر کی طرف سے شائع کردہ ٹیکس ڈائریکٹریز اس بات کی گواہ ہیں) حالانکہ اُن کی آمدن ہوشربا حد تک زیادہ ہوتی ہے، لیکن پھر ان کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی ۔ ان سے ایف بی آر پوچھتا ہے‘ نہ ہی نیب اور نہ ہی موجودہ انتخابی ''رسم‘‘ کے تحت ووٹنگ اُن کا احتساب کر پاتی ہے۔ سینیٹر اسحق ڈار نے 2013 ء کی بجٹ تقریر کے دوران ایوان کو بتایا کہ وزیر ِا عظم صاحب نے اپنے آفس کے اخراجات کم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یقینا ایسا ہونا چاہیے تھا ، لیکن ''ڈیمانڈز فار گرانٹس اینڈ اپروپری ایشنز‘‘ کے وائٹ پیپرز کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ اخراجات کے لیے 2013-14 ء کا نظر ِ ثانی شدہ تخمینہ 755 ملین روپے ، 2014-15 ء کا801 ملین روپے اور 2015-16ء کا 842 ملین روپے تھا۔ یہ اُس ملک کے وزیر ِا عظم ہائوس کی شا ہ خرچیاں ہیں جہاں ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پچاس فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرتی ہے، جہاں پانچ سال سے کم عمر کے 31.6 فیصد بچے خوراک اور وزن کی کمی کا شکار ہیں اور عوام کی اکثریت کے لیے صحت کی سہولیات ایک خواب ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات 86 بچے فی ہزار ، زچگی کے دوران ہلاک ہونے والی خواتین کا تناسب 170 فی ایک لاکھ ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں شہری تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں، جبکہ رہائش کی سہولیات پر نجی شعبے نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ 
فنانس منسٹر اسحق ڈار نے اس بات کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی کہ 2014-15ء کے بجٹ میں اخراجات کا تخمینہ 3463 بلین روپے سے بڑھ کر 3480 بلین روپے کیوں کر ہوگیا؟ دوسری طرف 2013-14ء میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کی گئی کل رقم 416.8 بلین روپے تھی لیکن اس پھر اس میں کٹوتی کرکے اسے 378.8 بلین روپے کردیا گیا۔ 2015-16 ء میں ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی جانے والی رقم صرف 506 بلین روپے ہے جو کہ موجودہ اخراجات کا14.5 فیصد ہے۔ صورت ِحال اس کے برعکس ہونی چاہیے تھی، یعنی حکومتی اخراجات ترقیاتی منصوبوں کا صرف 14.5 فیصد ہوں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے؟ایسا صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب حکومت کا دیوہیکل سائز کم کردیا جائے(اس وقت اسے چلانے کا یومیہ خرچہ ایک بلین روپے ہے، اور اسے پورا کرنے کے لیے رقم ادھار لینا پڑتی ہے)۔ 2015-16ء کے بجٹ میں ملازمین پر ہونے والے اخراجات کے لیے597 بلین روپے رکھے گئے تھے۔ یہ رقم بھی بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے رکھی رقم سے 91 بلین زیادہ ہے۔ قرض میں لی گئی رقم کا ایک بڑاحصہ دفاع، عدلیہ اورسول بیورو کریسی ، ا یوان ِ صدر، وزیر ِ اعظم اور گورنرہائوسز میں ہونے والی تقریبات پرخرچ ہوجاتا ہے۔ ستم یہ ہے کہ اگرچہ صدر ِ مملکت کا عہدہ پارلیمانی نظام میں محض رسمی ہے لیکن اس پر بھی ایک بلین روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔ 
یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہمارے ہاں خرچ تو کھلے دل سے کیا جاتا ہے ، لیکن قائم ہونے والی مسلسل کئی ایک حکومتوں، چاہے سول ہوں یا فوجی، نے وفاقی سطح پر ٹیکس کو آٹھ ٹریلین روپے تک لے جانے کی کبھی کوشش نہیں کی، حالانکہ ہمارے ہاں اس کا پوٹینشل موجود ہے ۔ کبھی بھی اخراجات میںکمی لانے کا نہیں سوچا گیا(ہمارا2015-16ء کا ٹیکس ہدف صرف 3103.7 بلین روپے ہے اور اس کا حصول بھی ایک کارنامہ سمجھا جائے گا) ۔ اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت مزید قرض لینے کے لیے تیار ہے اور قوم ان کو مزید غیر ملکی دورے کرتے اور قیمتی زر ِ مبادلہ خرچ کرتے دیکھے گی۔ اس کے علاوہ سرکاری افسرشاہی کو حاصل مراعات پر بھی بھاری اخراجات اٹھتے ہیں۔ دوسری طرف سرکاری آفس رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ان کے اخراجات میں کمی کرنے سے معیشت کی حالت بہتر نہیں ہوگی کیونکہ ان کے اخراجات کل اخراجات کا بہت کم حصہ ہیں۔ تاہم وہ بھول جاتے ہیں کہ اُن کی ترجیح عوام ، نہ کہ اپنی آسائش ، ہونی چاہیے ۔ آئین کا آرٹیکل3 کہتا ہے۔۔۔'' ریاست ہر قسم کے استیصال کاخاتمہ یقینی بنائے گی ، بتدریج بنیادی اصول نافذ کرتے ہوئے ہر کسی کو اُس کی صلاحیت کے مطابق سہولت اور کام فراہم کرے گی۔ ‘‘اگر یہ وعدہ پورا نہیں ہوتا تو پھر آرٹیکل 5(1) پر عمل درآمد کیسے ہوگا ، جو کہتا ہے ۔۔۔۔''ریاست سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔‘‘آئین دراصل ریاست اور شہریوں کے درمیان سماجی معاہدہ ہوتا ہے۔قانون سازوں اور سرکاری افسروں کی طرف سے اس کی ذرّہ برابر سرتابی قابل ِ قبول نہیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved