تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     16-10-2015

ریئل پولیٹک کا کھیل تماشا!

آج کا کالم کچھ ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے اور وجہ یہ کہ دو تین موضوعات ایسے ہیں جن پر بات کرنا ہے۔ ان میں سے پہلا موضوع جو ذہن میں سر اٹھاتا ہے وہ این اے 122 کے ہنگامے کے بعد ہونے والی بظاہر خاموشی ہے جو فی الوقت خاموشی ہی ہے مگر رفتہ رفتہ ایک اور احتجاج کی طرف بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ این اے 122 میں لگنے والا کھیل تماشا اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ یہ ضمنی الیکشن، محض ایک ہٹ اورانا کی اس جنگ کی طرح لڑا گیا جس کے بعد دونوں فریق نڈھال ہو کر سودو زیاں کا حساب کرتے ہوئے، دل ہی دل میں ''سب خسارہ ہے‘‘ کا اعتراف کرتے ہیں۔ کروڑوں روپیہ الیکشن میں پھونک کر اور ایک سخت اعصابی جنگ لڑ کر ہارنے والا اور جیتنے والا دونوں ہی فریق اس کیفیت سے دو چار نظر آتے ہیں ؎
انا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے لیکن
پھر اس کے بعد بہت دیر تک نڈھال رہے
مگر اس سارے کھیل تماشے، اور الیکشن کے ہنگامے میں نڈھال ہونے والا اصل فریق تو عوام ہیں، جو اپنی خالی جیبوں کا بوجھ لیے، سرمایہ داروں کو کروڑوں روپیہ ایک سیٹ پر لگاتے ہوئے دیکھتے رہے۔ اس سارے وقت میں جب یہ معرکہ سر ہونے جا رہا تھا، تو ٹی وی سے لے کر اخبارات اور گلی محلوں کے تھڑوں تک
بس ایک ہی موضوع زیر بحث تھا۔ ہر طرح کے ایشو، عوامی مسائل، اس ایک لا حاصل معرکے کی نذر ہو رہے تھے۔ حتیٰ کہ 8 اکتوبر بھی گزر گیا۔ حکومت اور اس کی مشینری این اے 122 کی ایک سیٹ جیتنے کے ہیجان میں مبتلا رہی۔ اور یہی حال ہمارے میڈیا کا بھی تھا، جو دن رات اس لا حاصل سرگرمی کی کوریج تو کرتا رہا مگر، 8 اکتوبر 2005ء کو پاکستان میں آنے والے ایک ہولناک زلزلے کے بارے میں کوئی خاص پروگرام نہ ہوا، نہ پرائم ٹائم میں اس پر بات کی گئی، نہ وزیر اعظم کسی تقریب میں شریک ہوئے۔ اس برس اس عظیم سانحے کو دس سال بیت گئے ہیں۔ اس زلزلے کی ہولناکی ناقابل بیان ہے۔ اس نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اہل درد کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ شاید اسی لئے باہر کے میڈیا نے تو 8اکتوبر کے حوالے سے خصوصی ڈاکیومنٹریز،آرٹیکل اور نیوز آئیٹم پیش کئے مگر ہم جو اس عظیم قدرتی آفت سے ایک صدی پیچھے چلے گئے، ہماری یادداشتوں سے یہ ہولناک زلزلہ جیسے محو ہی ہو گیا۔ کروڑوں اربوں روپیہ ایک سیٹ پر پھونک دینے والے انتخابی جواریوں کو کوئی یہ بتائے کہ آج بھی مظفر آباد اور زلزلے سے متاثر ہونے والے علاقوں میں، بچے سکول کی عمارتیں تعمیر ہونے کے منتظر ہیں۔ زلزلے کے بعد بننے والا نیشنل ڈیزاسٹر سیل بھی شاید ہمارے الیکشن کمیشن کی طرح ناکارہ ہو چکا ہے۔ ہم عجیب لوگ ہیں۔ نہ ہم سے ترجیحات طے ہوتی ہیں۔ نہ ہم سے مقاصد کا تعین ہوتا ہے۔ اگر بالفرض ترجیحات کی فہرست بن بھی جائے تو، اس کے حصول کے لئے کمٹمنٹ چاہیے، وہ بحیثیت قوم ہم میں ناپید ہے۔ شاید کوئی ایسا رہنما ہی نہیں ملا جو اس بھیڑ کو قوم بنا سکے۔ اس لئے کہ نام نہاد رہنمائوں کے اپنے مقاصد اور ترجیحات ان کی اپنی انائوں اور مفادات کے گرد گھومتے ہیں۔ 
اورنج ٹرینوں اور میٹرو بسوں اور دانش سکولوں پر اربوں روپیہ لگانے کا مقصد بھی واہ واہ سمیٹنا ہے اور اپنی اناکی تسکین ہے۔ اگر عوام کی حالت بہتر کرنے کا عزم ہوتا تو ان اربوں روپے سے پہلے سے موجود سرکاری ہسپتالوںاور سرکاری سکولوں کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جاتا۔ پنجاب جس میں باقی منصوبوں کی نسبت بہتری اور ترقی کے آثار نظر آتے ہیں‘ یہاں بھی یہ حال ہے کہ صوبے میں ساڑھے چار سو سرکاری سکول ایسے ہیں جو تعلیم کے علاوہ دوسرے مقاصد کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ ان سرکاری سکولوں کے سرکاری ٹیچر، باقاعدہ تنخواہیں وصول کرتے ہیں مگر ایک بچہ بھی یہاں سے زیور تعلیم سے آراستہ نہیں ہوتا۔ ادھر تحریک انصاف کے زیر انتظام خیبر پختونخوا میں سرکاری سکولوں کی حالت زار بھی اس سے کچھ کم نہیں ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق صوبے کے تقریباً اٹھائیس ہزار سکولوں میں سے، تین ہزار سکول دہشت گردی کی نذر ہو چکے ہیں، ان کی جگہ نہ نئے سکول تعمیر کئے گئے ہیں اور نہ ہی پہلے سے مخدوش سکولوں کی حالت کو بہتر کیا گیا۔ اور حد یہ ہے کہ سکول سرے سے موجود نہیں مگر اساتذہ تنخواہیں لے رہے ہیں۔ یعنی چیک اینڈ بیلنس کا نظام زمین بوس ہو گیا ہے۔ مگر جلسوں میں، نئے پاکستان اور تبدیلی کے نعرے اب بھی اسی جوش و خروش سے لگ رہے ہیں۔ ہسپتال ہیں تو وہاں پرچی کے لیے قطار میں کھڑے ہونے والوں کی جو درگت بنتی ہے، وہ ناقابل بیان ہے۔ ہمارے گھر کام کرنے والی ملازمہ بھی سرکاری ہسپتال جانے سے گریز کرتی ہے۔ عوام کے غم میں گھلنے والے رہنما، تو چھینک بھی آ جائے تو لندن امریکہ کا رخ کرتے ہیں۔ دنیا کے محفوظ ملکوں میں اپنے بینک بیلنس، جائیدادیں اور اولادیں منتقل کر کے یہاں کے عوام کے غم میں لمبی لمبی جذباتی تقریریں کرتے ہیں۔ جو کہتے ہیں وہ جو کرتے نہیں اور جو کرتے ہیں اس کی عوام کو خبر تب ہوتی ہے جب اگلی حکومت آ کے ان کے کھاتے کھولتی ہے۔ بدقسمتی سے Realpolitik کے پروردہ ان سیاستدانوں کو ہم قومی رہنما پکارنے پر مجبور ہیں۔
منیر نیازی کا شعر پڑھیے اور اپنی بے بسی کا ماتم کیجیے ؎
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
این اے 122میں ضمنی الیکشن کا ہنگامہ بھی اسی Realpolitik کا ایک کھیل تماشا تھا جس میں مات ہونے تک فتح کا گمان رہتا ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved