تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     17-10-2015

اقتدار کا شارٹ کٹ

کیا اب عمران خان ہم پر رحم کرتے ہوئے دھاندلی کے خلاف نہ ختم ہونے والی دہائی دینا بند کریں گے؟ آخر ایک ہی الزام کو بار بار دہرانے سے وہ کتنا سیاسی فائدہ اٹھا لیں گے؟ اب تک نواز شریف حکومت کا نصف کے قریب دور عمران خان کے نہ ختم ہونے والے شور اور پیہم احتجاج کی نذرہوچکا۔کیا یہ دور پی ٹی آئی کے دھرنوں کی وجہ سے ویسے ہی یادرکھا جائے گا جیسے زرداری دور کو جسٹس چوہدری کی غیر معمولی فعالیت اور حکومتی کاموں میں مداخلت کی وجہ سے جانا جاتا ہے؟
عمران خان بہت دیر سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ شاید اب اُنہیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ وہ کس کس چیز کے خلاف ہیں؛ تاہم اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہدف کوئی بھی ہو، ہمارا کپتان میدان میں نعرہ زن، اور پھر:''نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘۔ اس دوران انہیں ایک چیز پر ایمان کی حد تک یقین ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں اُن سے دھوکہ ہوا ورنہ ملک پر حکومت کرنا اُن کا خداداد حق تھا۔ گزشتہ دوسال کے دوران شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جب اُنھوں نے صبح بیدار ہوتے ہی بلاتکان گرجنا برسنا شروع نہ کردیا ہو کہ وزیرِاعظم ہائوس کی چابی اُن کے ہاتھ تھمادی جائے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان کے ٹائیگرز، ان کے جاں نثار بھی اسی خیال میں رچے بسے ہیں کہ اگر اُن کے محبوب رہنما عمران خان کو اقتدار مل گیا تو ملک میں ہرطرف دودھ اور شہدکی نہریں بہہ نکلیں گی۔ فی الحال وہ ان مشروبات میں خالص انگوروںکے مشروب کو شامل کرنے سے بوجوہ گریزکرتے ہیں۔ 
بہت اچھا، میں تو آمین کہنے کو تیار ہوں، لیکن ایسا ہونا مشکل لگتا ہے۔ ٹائیگرز سے درخواست ہے کہ دیکھیں، آج کل بھی جب خان صاحب کے پاس اقتدار نہیں، سورج وقت پر ہی طلوع ہوتا ہے، باقی نظام بھی حسب ِمعمول چل رہا ہے، اس لئے بہتر ہے ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچیں اور 2018ء کا انتظار کریں۔ صرف انتظار ہی کافی نہ ہوگا، اس میں کامیابی کے لیے تیاری بھی کریں۔ اسے طبی مشورہ سمجھ لیں، چوبیس گھنٹے سیاسی دیوانگی طاری کرتے ہوئے تمام سیاسی آکسیجن ختم نہ کرڈالیں۔ دنیا کا کوئی ملک دن رات سیاست میں ملنگ نہیں بنا رہتا۔ ٹی وی ٹاک شو بھی ایسی سیاست کوکم ٹائم دے کر قوم کی خدمت کرسکتے ہیں۔ 
لاہور کے این اے 122اوراوکاڑہ کے این اے 144 کے انتخابی حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات نے ہمیں ایک مرتبہ پھر یاددلایا ہے کہ ''پیسہ بولتا ہے‘‘ اور حماقتیں اپنا رنگ دکھاتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی افسوسناک کارکردگی پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرنے کے باوجود کوئی بہتری دیکھنے میں نہ آئی۔ قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخابی اخراجات کی حد پندرہ لاکھ روپے ہے، لیکن حالیہ ضمنی الیکشن میں دونوں جماعتوں نے اس قانون کی دھجیاں بکھیر دیں۔ ہوشربا رقم خرچ ہوتے دیکھ کر بھی الیکشن کمیشن کی طر ف سے کوئی نوٹس نہ لیا گیا۔ اب پی ٹی آئی کیا کرے گی؟ کیا گریٹ خان بنی گالہ میں چپ چاپ بیٹھ جائیں گے؟ یا فوری طور پر اقتدار حاصل کرنے کی تگ ودو میں مصروف پائے جائیںگے؟ اس سوال کا جواب تلا ش کرنا مطلق مشکل نہیں، سب جانتے ہیںکہ اب وہ کیا کریںگے۔ عمران خان کے چہرے کے بل کھاتے ہوئے تیور یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ حتمی طاقت حاصل کرنے میں ناکامی کا غصہ ان کے دل میں پھٹ پڑنے والے لاوے کی طرح کھول رہا ہے۔ وہ اندھا دھند ،چاروں طرف، الزامات اور توہین آمیز کلمات کی بارش کر رہے ہیں کہ دھاندلی سے اُن کا راستہ روک لیا گیا۔ اُنہیں دیکھ کر بعض اوقات مجھے خوف آنے لگتا ہے کہ کہیں طیش کے عالم میں اُن کا بلڈ پریشر خطرناک درجے تک نہ پہنچ جائے۔ سیاسی معروضات اپنی جگہ پر، ہمیں ان کی صحت کی پروا کرنی چاہیے۔ آخر وہ ایک قومی اثاثہ رہے ہیں۔ لیکن کیا اُنہیں اقتدار پلیٹ میں رکھ پر پیش کردیا جائے؟ موجودہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ عمران خان کو اس سے کوئی غرض نہیںکہ وہ اقتدار کیسے حاصل کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے، میں غلطی پر ہوں، لیکن دھرنے کے دنوں میں یہ تاثر گہراہونے لگا تھا کہ اُنہیں کچھ ''لڑکوں‘‘ کے زور بازو سے تعاون حاصل کرنے میں بھی عار نہ تھا۔ اُس دوران کسی ایمپائر کی انگلی تو نہ اٹھی، لیکن کچھ ''فنگر پرنٹس‘‘ ضرور ظاہر ہوگئے۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ موجودہ عسکری قیادت سیاسی معاملات میں الجھنے اور کسی فریق کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ پیشہ ورانہ طور پر اپنا کام کر رہے ہیں اور یہی پاکستان کی خوش بختی تھی۔
سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان کو اقتدار مل جائے تو ملکی حالات کس طرح یک لخت تبدیل ہوجائیںگے؟ اس کے جواب کے لیے پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت کی تاحال کارکردگی کودیکھا جاسکتا ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ صوبے میں جس کی بھی حکومت ہوتی، بیوروکریسی اور بدعنوانی کا یہی عالم ہوتا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سول سروس ہمارے گلے سڑے تعلیمی نظام کی پیداوار ہے۔ یہ نوآبادیاتی دور کے قوانین کے مطابق کام کر رہی ہے۔ اس سے جدید دور کے تقاضوں، تیزرفتاری، شفافیت اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کی توقع عبث ہے۔ حکومت جس کی بھی ہو، اس سے اچھی کارکردگی کی توقع کرنا حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہوگا۔ تاہم پنجاب حکومت نے ظاہر کیا ہے کہ اگر صوبے کا کم از کم وزیر ِعلیٰ فعال ہو تو کچھ معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں۔ پنجاب وہ صوبہ ہے جس پرسیاسی قبضہ کرنا عمران خان اور ان کی جماعت کا خواب ہے۔ فی الحال اس صوبے پر پی ایم ایل (ن) کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ یہاں اپنی سیاسی مقبولیت سے پی ایم ایل (ن) کی بازی الٹنے کے لیے پی ٹی آئی کو خیبر پختونخوا میں اتنے جوش وجذبے سے اچھی حکومت کرنے کی ضرورت ہے جتنے جذبے سے یہ پنجاب میں احتجاج کرتی ہے۔ اسے ایک بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ این اے 122کے رائے دہندگان اُ س کی خیبر پختونخوا میں کارکردگی اور یہاں لگائے ہوئے جوشیلے نعروںسے متاثر نہیںہوئے۔ 
اب جیسے جیسے عمران خان کا بیانیہ کمزور پڑے گا، یہ تمام حکومتوں کو الزامات کی باڑ پر رکھ لیں گے تاکہ پورے نظام کو درہم برہم کرکے الٹ سکیں۔ ہوسکتا ہے اس راستے پر چلتے ہوئے اُنہیں کچھ فائدہ ہوجائے لیکن اس سے ملک اور عوام کا نقصان ہوجائے گا۔ جس طرح جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پی پی پی کو اطمینان سے حکومت کرنے نہیں دی، اسی طرح عمران خان بھی نواز شریف کو سکون کے ساتھ حکومت کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتے۔ یہ سب ہنگامہ آرائی ایسے ملک میں ہو رہی ہے جسے اس وقت استحکام کی شدید ضرورت ہے۔ عمران خان تو تھکن اتارنے کے لیے بنی گالہ کے سوئمنگ پول میں غوطہ لگاکر تازہ دم ہوجائیں گے، ملک اور اس کے بے پناہ مسائل کا کیا بنے گا؟ اگر آپ صرف اپنے اقتدار کے لیے سب کچھ دائو پر لگانا چاہتے ہیں تو پھر انتظارکریں، جس وقت کوئی سنہری مرغی ہاتھ آئے گی، ذبح کرکے سونے کا انڈا حاصل کرلینا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved