تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     18-10-2015

مشکل ہے‘ بہت مشکل

چند روز پہلے میں نے ''سیاسی قیادت کا ناقص میٹریل‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا۔ کچھ ہی دنوں بعد اس میٹریل نے اپنی خاصیت دکھانا شروع کر دی اور جیسے جیسے باتیں کھلیں تو حیرت ہوئی کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ابھی جھلکیاں سامنے آئی ہیں۔ جیسے جیسے بلدیاتی انتخابات نزدیک آئیں گے‘ مسلم لیگ (ن) کی تریڑیں نمایاں ہونے لگیں گی۔ مسلم لیگ کے اندر یہ ہمیشہ سے موجود رہی ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ نوازلیگ نے اب تک کی تمام مسلم لیگوں سے زیادہ عمر پائی ہے‘ تو شاید غلط نہ ہو۔ حصول پاکستان کی جدوجہد کے دوران بھی مسلم لیگ میں گروپ بنتے رہے تھے۔ جب کامیابی نزدیک آ گئی‘ تو ان سب علاقوں کے مسلمان لیڈر‘ مسلم لیگ کے زیرسایہ آنے لگے۔ انہیں آزادی کے بعد حکومتیں بنتی دکھائی دے رہی تھیں۔ مگر جیسے ہی پاکستان قائم ہوا‘ تو مسلم لیگ ٹکڑوں میں بٹنا شروع ہو گئی۔ سب سے پہلے مشرقی پاکستان میں اس کے ٹوٹے ہوئے۔ کئی گروپ معرض وجود میں آ گئے اور پھر جلد ہی جب مشرقی پاکستان میں صوبائی الیکشن ہوئے‘ تو یہ سارے ٹوٹے ‘جگتو فرنٹ کے نام سے اکٹھے ہو کر‘ انتخابات کے میدان میں اترے اور اگر میری یادداشت درست ہے‘ تو برسراقتدار مسلم لیگ ‘جگتو فرنٹ سے بہت بری طرح ہاری۔پھر جگتو فرنٹ میں بھی ٹوٹ پھوٹ پڑ گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کا نام ‘ پس منظر میں چلا گیا۔ 
جیسے ہی فوجی آمر آتے‘ وہ وردی کے زیرسایہ بقول شورش مرحوم‘ جنرلوں کے ''ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی‘‘ بن کر نمودار ہوتی۔ جو بھی اقتدار میںحصہ لینے کا خواہش مند ہوتا‘ وہ سرکاری مسلم لیگ کا حصہ بن جاتا۔ آمر کے جاتے ہی‘ اس کی مسلم لیگ بھی تتربتر ہو جاتی۔ نام نہاد جمہوری وقفے کے دوران سیاستدان خوب لڑتے۔ ہمارے سیاستدان‘ کوئی مستحکم حکومت قائم کرنے میں ناکام رہتے یا اقتدار کے خواہش مند جرنیل پس پردہ رہ کر‘ حکومت کی ناکامی کے انتظامات کرتے اور مناسب موقع پیدا کر کے‘ اقتدار پر قابض ہو جاتے۔ ایوب خان سے لے کر پرویزمشرف تک‘ فوج کا ہر وہ سربراہ جس نے اقتدار پر قبضہ کیا‘ چیف کا عہدہ ملتے ہی اقتدار کے خواب دیکھنے لگتا۔ اس قبیل کے چار جنرل اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بعض مقصد حاصل کرنے سے پہلے ہی گھر جانے پر مجبور ہو گئے۔ مجھے جنرل آصف نواز اور جنرل گل حسن کے نام یاد ہیں۔ ایک دو اور بھی ایسے تھے‘ جنہوں نے سازش شروع کر دی تھی لیکن منزل تک نہ پہنچ پائے۔ اقتدار پسند جنرلوں کو ہمیشہ سیاستدانوں نے موقع فراہم کیا اور ان میں سے چار ایسے ہیں‘ جنہوں نے موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ہر جنرل نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی اپنی ایک مسلم لیگ بنائی۔ جب تک ''جنرل اقتدار خان‘‘ کی کرسی مضبوط رہی‘ وہ بیٹھے رہے اور جونہی ''اقتدارخان ‘‘کی کرسی ہلنے لگی‘ اس کی تیار کردہ مسلم لیگ ‘ٹوٹے ٹوٹے ہونے لگی۔ 
حقیقت میں مسلم لیگ کبھی ایک جماعت نہیں تھی۔ سر آغا خان نے مسلمانوں کو مراعات دلوانے کے لیے انگریزی حکومت کے ساتھ مذاکرات کا راستہ نکالا تھا۔ اس سے پہلے کانگرس بھی ایسے ہی مقصد کے ساتھ قائم ہوئی تھی۔ کانگرس جلد ہی ایک قوم پرست جماعت کی حیثیت اختیار کر گئی۔ بڑے بڑے سیاسی لیڈر اس کا حصہ بننے لگے۔ قائد اعظمؒ جو ہندومسلم اتحاد کے علمبردار تھے‘ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ہندو اکثریت کی سیاسی قیادت‘ مسلمانوں کو ان کے حقوق دینے کے لئے تیار نہیں‘ تو انہوں نے پاکستان کا نعرہ لگا کر‘ جس قدر ممکن ہوا پاکستان حاصل کر لیا۔ دو وجوہ کی بنا پر وہ جلدی میں تھے۔ ایک تو ان کی صحت کا مسئلہ تھا۔ جدوجہد کرنے کے لئے مطلوبہ عمر ان کے پاس نہیں رہ گئی تھی اور وہ آخری وقت آنے سے پہلے پہلے‘ پاکستان حاصل کرلینا چاہتے تھے۔ دوسرے انہیں مسلمان لیڈروں سے بھی ڈر تھا ‘ جو کسی بھی وقت کانگرس کے اتحادی بن کر‘ قائداعظمؒ کی مسلم لیگ کو ناکام بنانے پر تلے تھے۔ یہ بات قائد اعظمؒ نے کہی ہو یا نہیں کہ ''میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘‘ حقیقت یہی تھی۔ پاکستان حاصل کر کے ڈیڑھ سال سے بھی کم عرصے میں قائداعظمؒ رخصت ہو گئے اور مسلم لیگ میں ٹوٹے بننے کا عمل شروع ہو گیا۔ میں کتنے ٹوٹے گنوائوں؟ سندھ میں الگ بنے۔ پنجاب میں الگ اور خیبرپختونخوا میں علیحدہ۔ بلوچستان میں محض چند افراد مسلم لیگی کہلاتے تھے۔ لیکن وہاں کے قبائلی نظام میں جدوجہد آزادی میں حصہ لینے والا کوئی لیڈر نہیں تھا۔ بلوچ قبیلوں کو انگریز کے دور میں بھی داخلی آزادی حاصل تھی۔ یہی کچھ وہ پاکستان سے چاہتے تھے‘ جو ظاہر ہے انہیں نہیں ملا اور وہ آج تک اپنی حقیقی نمائندگی کی حامل ایک پارٹی بنا کر‘ اپنے صوبے کے معاملات نہیں سنبھال سکے۔ کہانی بلاوجہ طویل ہوتی جا رہی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ مجھے جتنی مسلم لیگیں یاد آ رہی ہیں‘ ان میں کسی کی عمر بھی ن لیگ سے زیادہ نہیں رہی۔ ساری مسلم لیگوں میں زیادہ سے زیادہ عمر پانے والی وہ تھیں‘ جو ہر آمر نے اپنے لئے بنائیں اور جب گئے‘ تو وہ مسلم لیگیں انتظار کے دروازوں پر جا کر بیٹھتی رہیں۔ ن لیگ بھی ایک آمر کے زیرسایہ بننے والی مسلم لیگ کے بطن سے پیدا ہوئی تھی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کے باقی ٹوٹے بکھر گئے اور ن لیگ‘ نوازشریف کی قیادت میں کسی نہ کسی طرح بچتی رہی۔ مگر ن لیگ بھی دائو لگانے سے باز نہیں آئی۔ جیسے ہی نوازشریف کو جلاوطن کیا گیا‘ ن لیگ تھوک کے حساب سے‘ جنرل مشرف کے زیرسایہ چلی گئی۔ کوئی سیاسی پارٹی ایسی نہیں تھی‘ جس نے جنرل مشرف کے اقتدار کی دیگ میں سے حصہ نہیں لیا۔ جو براہ راست مشرف لیگ میں نہیں گئے‘ وہ اپنے اثاثے بچانے کے چکر میں درپردہ جوڑتوڑ کرتے رہے۔ جسے کرسی ملی‘ وہ مشرف لیگ میں شامل ہو گیااور جو اپنا مال و متاع بچانے میں کامیاب رہا‘ وہ ن لیگ کا لیبل لگا کر ''بااصول سیاست‘‘ کرنے لگا۔ نوازشریف جلاوطنی ختم کر کے واپس آئے‘ توکرسی سے محروم رہنے والے فوراً نوازشریف کے فدائی بن کر ان کے گرد جمع ہو گئے۔ مگر جلد ہی انہیں حیرت میں ڈوبنا پڑا کہ مشرف لیگ میں جانے 
والے‘ دھڑا دھڑ ن لیگ میں واپس آ رہے ہیں۔ یہ پس منظر بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کو یاد کرا دوں کہ مسلم لیگ کے نام سے کام کرنے والی ن لیگ نے اب تک بننے والی تمام مسلم لیگوں میں سب سے زیادہ عمر پائی ہے، لیکن وہ مسلم لیگ ہی کیا‘ جو ٹوٹے بغیر چلتی رہے؟ اس وقت جو نوازشریف کے فدائی بن کربرسراقتدار گھرانے کے دسترخوان سے فیض یاب ہو رہے ہیں‘ ان میں ایک شہبازشریف کے سوا باقی ہر کسی نے دائو لگانے کی کوشش کی۔ جو دائو نہیں لگا سکا‘ وہ خاموش رہ کر وقت گزارتا رہا۔ جیسے ہی نوازشریف واپس آئے‘ وہ چشم زدن میں ن لیگی بن گیا۔ لیکن نوازشریف بھی حقیقی مسلم لیگی لیڈر ثابت ہوئے۔ جب اقتدار انہیں ملا‘ تو ایک لمحہ ضائع کئے بغیر مشرف لیگی‘ ن لیگ کے سائے میں آنے لگے۔ جو نکتہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں ‘ وہ یہ ہے کہ پاکستان کا سارا سیاسی میٹریل‘ دڑے کا مال ہے۔ کوئی مسلم لیگ اب تک دس گیارہ سال سے زیادہ عمر نہیں پا سکی۔ مشرقی پاکستان میں پانچ سال بعد ہی ان گنت جماعتیں معرض وجود میں آئیں اور متحدہ پاکستان کے آخری دنوں میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ ایک جماعت کی صورت میں ابھری۔ بھارتی افواج کی مدد سے اس نے اقتدار تو پا لیا مگر اپنے جنرلوں سے محفوظ نہ رہ سکی۔ اب بھی وہاں عوامی لیگ کا ایک دھڑا‘ مجیب کی عوامی لیگ کا نام استعمال کرتا ہے اور دوسرا سیاسی گروپ بنگلہ دیش کے پہلے حکمران جنرل کی بیوہ کی قیادت میں کام کر رہا ہے۔ باقی ماندہ پاکستان میں کوئی مستقل پارٹی موجود ہی نہیں۔ نوازشریف نے اقتدار کے خواہش مند سارے ضیالیگیوں کو پیچھے دھکیل کر جواپنی مسلم لیگ بنائی ‘اس کی عمر 20سال سے زیادہ ہو چکی ہے۔ مجھے یوں لگ رہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں ن لیگ ایک نہیں رہ سکے گی۔ ابتدائی جھلکیاں سامنے آنے لگی ہیں۔ عمران خان ایک مقبول عام لیڈر کی حیثیت سے تیزی کے ساتھ ابھر رہے ہیں۔ امید تو پیدا ہوئی تھی کہ وہ نئی سیاسی روایات قائم کریں گے، لیکن عوامی جذبات کی ترجمانی کرنے والے مخلص سیاستدان کہاں سے دستیاب ہوں گے؟ ابھی سے دکھائی دے رہا ہے کہ جو سیاسی میٹریل‘ تحریک انصاف کی جھولی میں جا رہا ہے‘ وہ بھانت بھانت کی مسلم لیگوں میں سے نکلا ہوا ہے اور جیسے جیسے انتخابات نزدیک آئیں گے‘ جو میٹریل عمران خان کی طرف آئے گا‘ اس کا زیادہ تر حصہ ن لیگ سے منتقل ہو گا۔ نوازشریف 1998ء تک تو اپنی جماعت کے لیڈر رہے، لیکن جلاوطنی سے واپسی کے بعد وہ خاندان کے لیڈر بن گئے۔ میں نے ایک ٹاک شو میں کہا تھا کہ نوازشریف اچھے لیڈر تو ہیں، اچھے حکمران نہیں بن پائے، جس سے میری مراد یہ تھی کہ انہوں نے عوام کے مسائل حل کرنے سے زیادہ‘ خاندانی امور پر توجہ دی۔ ان کی پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ ظاہر ہونے لگی ہے۔ کئی منتخب اراکین تحریک انصاف کا رخ کر چکے ہیں۔ کچھ کرنے والے ہیں۔ آگے چل کر جو سیاسی میٹریل ان کے ہاتھ لگے گا‘ وہ بھانت بھانت کی مسلم لیگوں ہی سے آئے گا۔ مسلم لیگ (ن) کا کیا بنے گا؟ مجھے اس کا اندازہ کرنے میں مشکل کا سامنا ہے۔ عوام میں تیزی سے مقبول ہونے والے عمران خان کی پارٹی کا مستقبل کیا ہے؟ اس کا اندازہ کرنا اور بھی مشکل ہے۔ سیاسی قیادت کا جو میٹریل اس وقت ہمیں میسر ہے‘ ہو سکتا ہے وہ جمہوریت لانے کی کوشش کرے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اسے جمہوریت کا تجربہ ہی نہیں۔ مشکل ہے‘ بہت مشکل۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved