تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     18-10-2015

فیصلہ کن لمحات

معرکہ انجام دینے کا وقت آ پہنچا۔ وزیر اعظم نواز شریف کاش اپنے آپ سے اوپر اٹھ سکیں۔ معاملات شفاف رکھیں۔ کاش ایف بی آر کے چیئرمین کو آئینی تحفظ حاصل ہو سکے۔ ایف بی آر کی اہمیت عدالتِ عظمیٰ سے کم نہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف اگر یہ اعلان کرتے: خدا کا شکر ہے کہ بھکّی اور دوسرے منصوبوں کے لیے مشینیں 45 فیصد کم پہ مل گئیں۔ خدا کا شکر ہے کہ نئے نظام کے تحت بجلی کی لاگت بھی کم ہو گی۔ ہر انصاف پسند انہیں داد دیتا۔ بالکل اس طرح جیسے اقوام متحدہ سے وزیر اعظم کے خطاب کی تحسین کی گئی۔ ان کے دورے کو اگر کوئی ناکام ثابت کرنے کا آرزومند تھا بھی تو اس کے عزائم فوراً ہی دم توڑ گئے۔ مسئلہ مگر بگڑی ہوئی نفسیات کا ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ ڈھنگ کا کوئی کام سرزد ہو جائے تو اسے حکمرانوں کا ذاتی احسان سمجھا جائے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف جب یہ کہتے ہیں کہ 95 کی بجائے بھکی کا منصوبہ 55 ارب میں مکمل ہو گا تو وہ کیا پیغام دیتے ہیں؟ تاثر یہ ہوتا ہے: دیکھو‘ ہم چاہتے تو 40 ارب روپے ہڑپ کر سکتے تھے‘ مگر ہم نے بددیانتی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگر ہم غبن اور گڑبڑ نہ کریں تو قوم کو ہمارا شکر گزار ہونا چاہیے۔ روایت ہے اور خدا جانے کتنی درست کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل پاشا‘ زرداری صاحب کے دورۂ چین کے بعد ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دونوں ملکوں کے درمیان زیر بحث معاملات میں بعض بے قاعدگیوں کی شکایت کی۔ جیسا کہ بتایا گیا ہے‘ عالی جناب کا جواب یہ تھا: میں نے نہیں‘ میرے کچھ دوستوں نے پیسے بنائے ہیں اور یہ ان کا حق ہے۔
صوبائی منصوبوں پر بات کرنا شہباز شریف کا استحقاق ہے‘ لیکن مرکزی حکومت کے کارخانوں پر بے تکان اظہار خیال کا مطلب کیا ہے؟ بھکّی کے بعد حویلی بہادر شاہ میں بھی خواجہ آصف کو مدعو نہیں کیا گیا۔ اس سے زیادہ افسوسناک یہ کہ وزیر اعظم اپنے چھوٹے بھائی کو مسلسل خراج تحسین پیش کر رہے ہیں‘ نندی پور کے باوجود۔ ایک آدمی کو سوچ سمجھ کر ایک محکمہ آپ نے سونپا ہے‘ اسے کام کرنے دیجیے۔ وزیر اعلیٰ کا تو خیر کوئی تعلق ہی نہیں‘ وزیر اعظم کا بھی نہیں‘ یہ خواجہ آصف کی ذمہ داری ہے کہ بجلی کے منصوبوں پر قوم کو اعتماد میں لیں۔ اظہار خیال پر وہ قدرت رکھنے والے آدمی ہیں۔ ان کی عدم موجودگی سے کہانیاں پھیلتی ہیں۔ اتنی سادہ سی بات فیصلہ سازوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔
حکومت کا ہر کام غلط نہیں اور جہاں قومی امنگوں اور عوامی ضروریات کے مطابق وہ متحرک ہے‘ وہاں اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ بے جا تنقید منفی ردّعمل کو جنم دیتی ہے۔ ریاضت کا باقی ماندہ ولولہ بھی تحلیل ہو جاتا ہے۔
بجلی کے بعد ٹیکس وصولی کے میدان میں سرکار بالآخر حرکت میں آئی ہے اور اب تک کی پیش رفت قابلِ رشک ہے۔ غالباً یہ واحد فریضہ ہے جو وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اور ان کے ساتھیوں نے خوش اسلوبی سے نبھا دیا۔ وہ اگر کامیاب رہے تو امید ہے کہ امسال طے شدہ ہدف سے 500 ارب روپے زیادہ وصول ہوں گے اور آئندہ سال شاید مزید چھ سات سو ارب روپے۔ معاشی آزادی کی طرف یہ پہلا قدم ہو گا۔ پاکستان کی تاریخ میں انجام دیئے گئے عظیم کارناموں میں اس کا شمار ہو گا۔
اب تک جو معلومات میسر ہیں‘ ان کے مطابق ایف بی آر کے چیئرمین طارق باجوہ اور تاجروں کے بعض گروپ صورت حال کو پوری طرح سمجھ نہیں رہے۔ طارق باجوہ محنتی آدمی ہیں اور ان پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی گئی۔ تاجروں کو جان لینا چاہیے کہ حکومت کے پاس اب تمام ضروری معلومات موجود ہیں۔ ٹیکس اب انہیں ادا کرنا ہو گا۔ اپنی برادری کے مفادات کا تاجر ضرور خیال رکھیں مگر ملک کا بھی۔ یہ ملک تمہاری ماں ہے۔ اسی سے اگر بے وفائی کی تو وفا کس سے کرو گے؟ ٹیکس کے نظام میں اصلاحات موخر کرنے کا ملک اب متحمل نہیں۔ تاجر رہنما اجلاسوں میں ایک بات کہتے ہیں اور باہر آ کر بالکل دوسری۔ ان کے دو دھڑوں کی کشمکش بھی خرابی کا باعث ہے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ان دھڑوں کو یکجا کیا اور ان کے لیڈروں کو اپنے ساتھ اسلام آباد لے گئے۔ یہ ایک بہت بڑی خدمت تھی۔
نو اور دس جولائی کے اجلاسوں میں طے پایا کہ بینکوں سے نکالی جانے والی رقوم پر ٹیکس کی شرح 0.6 فیصد سے کم کرکے 0.3 فیصد کر دی جائے؛ چنانچہ فوراً ہی ایک آرڈی ننس جاری کر دیا گیا۔ 30 اکتوبر کو اس کی مدّت ختم ہونے والی ہے۔ اطلاع یہ ہے کہ مذاکرات اگر خوش اسلوبی سے آگے بڑھے تو اس مدت میں توسیع کر دی جائے گی؛ تاہم یہ مطالبہ نہیں مانا جائے گا کہ استثنیٰ کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر دو لاکھ کر دی جائے۔ دریں اثنا مختلف کاروباری شعبوں کے بارے میں وجود پانے والی اٹھارہ کمیٹیاں کام کرتی رہیں گی۔ ان کمیٹیوں کا آخری ہدف یہ ہے کہ معیشت کو دستاویزی کس طرح بنایا جائے۔ چھوٹی چھوٹی بے شمار مشکلات ہیں‘ اگرچہ ان میں ایک بھی ایسی نہیں جس کا سدّباب نہ کیا جا سکتا ہو۔ مثال کے طور پر سیمنٹ فروخت کرنے والا ایک بڑا ڈیلر اگر ایک ارب روپے کے سودے بھی کر ڈالے تو اس کا منافع سات آٹھ لاکھ روپے سے زیادہ نہ ہو گا۔ اس پہ ٹیکس کا تعین عام شرح سے ممکن نہیں۔
سب سے بڑی رعایت یہ دی جا سکتی ہے کہ اب تک کے اثاثوں کو سنگین مسئلہ نہ بنایا جائے۔ تاریخ کا سبق یہ کہ اگر واقعی آپ اصلاح کے آرزومند ہیں تو عہد رفتہ کے باب میں داروگیر سے اجتناب کیا جائے۔ جنرل راحیل شریف سے مداخلت کی درخواستیں بالآخر دم توڑ گئیں۔ میڈیا میں تاجروں کی حمایت بتدریج ختم ہو گئی۔ رہی اپوزیشن تو وہ ہرگز ان کی کوئی مدد نہ کر سکے گی۔ اگر کسی پارٹی نے چمکنے کی کوشش کی تووہ بجھ جائے گی۔ اخبار نویس ٹیکس دیتے ہیں‘ جج اور جنرل بھی۔ استثنیٰ اب کسی کو مل نہیں سکتا۔ جو مہم چلانے کی کوشش کرے گا اس کا انجام فیصل آباد کے ''جنرل‘‘ شیر علی ایسا ہو گا۔ معاشرے کو رفتہ رفتہ قانون کے سانچے میں ڈھلنا ہوتا ہے۔ ٹیکس وصولی کے نظام میں اس کی ابتدا ہونے والی ہے۔ کیا یہ شرمناک بات نہیں کہ 18کروڑ کی آبادی میں صرف ایک ڈیڑھ لاکھ ہی پورا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ چھ سات لاکھ 25 سے 40 فیصد۔ باقی سارے کا سارا ہڑپ کر جاتے ہیں۔ یہ شرمناک قصّہ اب ختم ہونا چاہیے۔ صرف حکومتیں ہی ذمہ دار نہیں‘ ہم سب ہیں۔
کامران لوگ اور کامران معاشرے وہ ہوتے ہیں جو بدلتے ہوئے تقاضوں کا ادراک کر سکیں۔ جیسا کہ عرض کیا‘ طارق باجوہ ایک دیانت دار اور دانا افسر ہیں۔ امسال ٹیکس دہندگان کی تعداد میں 65000 کا اضافہ ہوا۔ اپنے مزاج اور تربیت کے اعتبار سے مگر وہ ایف بی آر کے لیے کچھ زیادہ موزوں نہیں۔ اطلاع یہ ہے کہ انہیں الگ کرنے کا فیصلہ ہو چکا۔ میرا خیال ہے کہ اگر وہ خود احتسابی کا مظاہرہ کر سکیں‘ نئی تجاویز اور منطقی انداز میں ڈھلتے ہوئے نئے نظام کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کر سکیں تو ان کی بقا کا ایک ذرا سا امکان اب بھی باقی ہے۔ نئے سربراہ کے انتخاب میں مشکل کا سامنا ہے۔ دو تین سینئر ارکان کی مدت ملازمت کے چند ماہ ہی باقی ہیں۔ ایک مہم کی قیادت کے لیے‘ جو برپا ہوئی تو برسوں جاری رہے گی‘ ان میں سے کوئی موزوں نہیں؛ البتہ کسی جونیئر افسر کو ذمہ داری سونپنا اور بھی خطرناک ہو گا۔ ٹیکس وصولی کے نظام میں تبدیلیوں کے لیے بہت کچھ نئی قانون سازی کرنا ہو گی؛ چنانچہ ایک بیدار مغز اور متحرّک آدمی کی ضرورت ہو گی۔
روس نے پاکستان میں اڑھائی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ سعودی عرب آمادہ ہے۔ طے شدہ 46 بلین ڈالر کے علاوہ چین اتنا ہی مزید سرمایہ پاکستان کی مارکیٹ میں لا سکتا ہے‘ کچھ امریکہ بھی۔ معرکہ انجام دینے کا وقت آ پہنچا۔ وزیر اعظم نواز شریف کاش اپنے آپ سے اوپر اٹھ سکیں۔ معاملات شفاف رکھیں۔ کاش ایف بی آر کے چیئرمین کو آئینی تحفظ حاصل ہوسکے۔ ایف بی آر کی اہمیت عدالتِ عظمیٰ سے کم نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved