مڈل کلاس کی ایک چھوٹی سی پرت کے سوا سیاسی اشرافیہ کی کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے کی جانے والی بے معنی تکرار پر مبنی سیاست سے عوام بالکل لاتعلق ہیں۔ ان جمہوری حکمرانوں کی رعایا نان ایشوز پر مبنی ان کی لایعنی سیاست سے بیزار ہو چکی ہے۔ لوگ خاموش ضرور ہیں لیکن اس خاموشی میں بھی طوفان کا شور، سننے والے سن رہے ہیں۔ الیکشن کے ڈھائی سال بعد بھی مین سٹریم سیاست ''دھاندلی‘‘ سے ایک انچ آگے نہیں بڑھی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن ختم ہوئے ہی نہیں ہیں، ایک کے بعد دوسرے الیکشن کے تماشے سے بھوک، بیروزگاری، مہنگائی سے سسکتے عوام تنگ آ گئے ہیں۔ جمہور کے سلگتے ہوئے مسائل کے لئے معمولی سی جگہ بھی اس ''جمہوریت‘‘ میں باقی نہیں بچی۔ ایک نے دھاندلی کو اگر ایک فن میں تبدیل کر دیا ہے تو لعن طعن اور رونے دھونے میں دوسرے کی مہارت بھی بے مثال ہے۔ المیہ یہ ہے کہ لوٹ مار میں حصہ داری کے لئے حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی یہ نورا کشتی ہی آج کی ''سیاست‘‘ بن چکی ہے، جس کے ناظرین میں کارپوریٹ اور سوشل میڈیا پر سازشی نظریات کے مزے لینے والی مڈل کلاس کا چھوٹا سا حصہ ہی شامل ہے۔
بحیثیت مجموعی ہر بڑی سیاسی جماعت بحران اور داخلی دھڑے بندیوں کا شکار ہے اور عوامی مسائل سے بالکل کٹ چکی ہے۔ حکمران نواز لیگ کے وفاقی وزیر تو سرِ عام ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کو شکست ہوئی ہے جبکہ داخلی اختلافات کو عمران خان بے دردی سے کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی
حالت اتنی پتلی شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ جو کام ضیاء الحق کا بد ترین ریاستی جبر نہ کر سکا وہ زرداری صاحب نے کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی پہچان زرداری کی وجہ شہرت سے زیادہ مختلف نہیں رہی۔ ایم کیو ایم میں پہلے سے موجود دراڑیں گہری ہو رہی ہے۔ نسیم ولی خان کی اپنے سوتیلے بیٹے اسفند یار ولی کے ساتھ سپلٹ کے بعد اے این پی دو لخت ہو چکی ہے۔ بے انتہا کرپشن اور بد انتظامی کے پیش نظر اے این پی کی بنیادیں پختونخوا میں کھوکھلی ہو چکی ہیں اور بحالی کے امکانات کم ہیں۔ دوسری بہت سی پارٹیوں کی طرح اس کی خاندانی سیاست بھی ناخوشگوار انجام کو پہنچ رہی ہے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) جیسی نسبتاً معروف مذہبی جماعتوں کی پہلے سے محدود سماجی بنیادیں بھی مسلسل سکڑ رہی ہیں۔ بنیاد پرستی کی گنجائش سیاست میں کم و بیش ختم ہو چکی ہے جس کا واضح اظہار جماعت اسلامی کے بدلتے ہوئے تیور ہیں۔ کل تک غربت کو ''مقدر‘‘ ، سرمائے کو مقدس اور جاگیر کو خدا کی دَین قرار دینے والے آج کل ''مزدور، کسان‘‘ کے درد میں مبتلا ہیں۔ مذہبی سیاست کی پاکیزگی اور دیانت داری کا لبادہ بھی چاک ہو گیا ہے۔ بعض مدرسوں اور 'سماجی بہبود‘ کے منصوبوں کا کالے دھن اور دہشت گردی سے رشتہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ماضی میں ان جماعتوں کی حمایت شہری اور دیہاتی پیٹی بورژوازی میں موجود تھی جس کے نوجوانوں کے لئے اب انٹرنیٹ جیسے زیادہ پرکشش مشاغل موجود ہیں۔ متذکرہ بالا دونوں مذہبی جماعتوںکا وجود اقتدار میں شراکت سے مشروط ہو چکا ہے۔ نیشنلسٹ پارٹیوں کی حالت بھی قابل رحم ہے۔ قیادت کی مسلسل غداری، حکمرانوں کی شرمناک کاسہ لیسی اور سرمایہ داری کی مکمل اطاعت نے ان کی ساکھ ختم کر دی ہے۔ علاوہ ازیں عالمگیر معیشت کے علاقائی سیاست و ثقافت پر بے رحم اثرات نے تنگ نظر قوم پرستی کو تاریخی طور پر متروک کر دیا ہے۔ سچے جذبات کے ساتھ قومی آزادی کی جدوجہد کرنے والے نوجوانوں کی نظر میں ان کی قیادتوں کا سامراجی قوتوں کے ساتھ تعلق ناقابل معافی جرم ہے۔
اس کرپٹ سویلین سیاسی اشرافیہ سے بیزاری، کسی انقلابی متبادل کی عدم موجودگی میں، ناگزیر طور پر ایک بار پھر فوج کے مسیحا ہونے کا رجعتی تاثر ابھارتی ہے، لیکن ''جمہوریت‘‘ کے لئے 'جدوجہد‘ اور 'قربانی‘ کے دعویدار یہ سویلین سیاستدان آج عسکری قیادت کی تعریف میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کا کوئی موقع گنواتے نہیں ہیں۔ فوج کا فی الوقت براہ راست اقتدار میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ وہ دیوالیہ معیشت اور بڑھتے ہوئے سماجی خلفشار کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ پالیسی سازی کے فیصلہ کن معاملات اس جمہوریت میں بھی عسکری قیادت کے ہاتھ میں ہیں۔
گزشتہ آٹھ سال میں جو تجربہ عوام کو ہوا، اس کے پیش نظر آنے والے عہد میں اگر فوج اقتدار میں آتی بھی ہے تو ''جمہوریت کی جدوجہد‘‘ کا ڈھونگ یہ سیاسی اشرافیہ نہیں رچا سکے گی۔ گھاگ سیاستدانوں کو معیشت کی بحالی اور ''حالات کی بتدریج بہتری‘‘ کی کوئی خوش فہمی نہیں، لہٰذا ہر موقع کا فائدہ اٹھا کر ممکنہ حد تک لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اسی سیاسی اشرافیہ کے تمام حلقوں اور کارپوریٹ میڈیا کے تجزیہ نگاروں کی ساری بحث بھی کرپشن کے گرد گھومتی ہے۔ کرپشن کا جتنا شور ہے اتنا ہی یہ معیشت اور سماج میں سرایت کرتی جا رہی ہے۔ بدعنوانی، جو یہاں کے طرز زندگی کا بنیادی جزو بن چکی ہے، سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی وجہ نہیں بلکہ اس کی ناگزیر پیداوار ہے۔ جدید صنعتی سماج اور استحکام قائم کرنے میں تاریخی طور پر ناکام یہاں کا حکمران طبقہ کرپشن اور لوٹ مار کے بغیر اپنا مالیاتی وجود ہی برقرار نہیں رکھ سکتا۔ ریاست حکمران طبقے کا آلہ کار ہوتی ہے اور بدعنوان حکمران طبقہ بدعنوان ریاست کو ہی جنم دے سکتا ہے۔ اس وسیع بدعنوانی اور ڈاکہ زنی سے جو غربت، نفسا نفسی اور انتشار جنم لیتا ہے اس کے تحت کرپشن بڑھتی اور سماج کے نچلے حصوں میں پھیلتی چلی جاتی ہے۔نتیجتاً یہ سماج آج بحیثیت مجموعی کرپٹ ہو چکا ہے۔
سیاست میں سرمائے کی مداخلت اس ''جمہوریت‘‘ میں جتنی بڑھی ہے اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ صورت حال یہ ہے کہ خود ایاز صادق کو ضمنی الیکشن جیتنے کے بعد اعتراف کرنا پڑا کہ ''الیکشن اتنے مہنگے ہو گئے ہیں کہ عام آدمی کا ان میں حصہ لینا نا ممکن ہے۔‘‘ اس سے آگے کچھ کہنے کی گنجائش نہیں بچتی۔ سیاست سے لے نوکری، صحت اور تعلیم تک، ہر سماجی شعبہ اور بنیادی سہولت بازار کی جنس بن چکی ہے جو مٹھی بھر امرا کی دسترس میں ہے۔ آبادی کی اکثریت کے لئے زندگی کے معنی محرومی اور ذلت کی طوالت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ رشتے، ضمیر، اصول اور نظریات کو سرمائے کی ہوس روندتی چلی جا رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام جس نہج پر پہنچ چکا ہے وہاں بہتری یا غربت میں کمی کی بات بھی حکمرانوں نے کرنا چھوڑ دی ہے۔ اس نظام کا بحران حقیقی معنوں میں سماج کو بربریت کی طرف دھکیل رہا ہے۔
یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ عوام نے حاوی سیاست کو یکسر مستردکر دیا ہے۔ وقت، حالات اور واقعات نے ان پر بخوبی واضح کر دیا کہ یہ نظام کوئی آسودگی نہیں دے سکتا۔ انہیں متبادل کی تلاش ہے۔ ان کی خاموشی اور لاتعلقی، سماج اور زندگی کو یکسر بدل دینے کی دہکتی امنگ کا اظہار ہے۔ معاشرے کی سطح پر نظر آنے والے جمود کے نیچے طوفان مچل رہا ہے۔ بغاوت کا یہ طوفان حکمران طبقے کی مسلط کردہ سیاست، ثقافت، نفسیات اور اقدار کو چیر کے جب آگے بڑھے گا تو ایک نئے عہد کا آغاز ہوگا۔