''کشید‘‘ کے بعد حسین مجروح کا دوسرا مجموعہ کلام پیش نظر ہے جو حسب معمول نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے اور جسے رنگِ ادب کراچی نے چھاپا اور قیمت 400 روپے رکھی ہے۔ شعری مجموعوں کی مارکیٹ بہت کم رہ گئی ہے کیونکہ شعر سے دلچسپی کا گراف بھی نیچے کی طرف رواں دواں ہے، اسی لئے ناشر حضرات شاعری کی کتاب کچھ زیادہ خوش ہو کر نہیں چھاپتے۔ ادبی اداروں میں اضافے کی بجائے سرکار کی طرف سے ان کی لوڈشیڈنگ کا عمل جاری و ساری ہے، اور نہیں تو انہیں ایک دوسرے میں ضم ضرور کیا جا رہا ہے جس سے ان کی حیثیت گزارے موافق ہی ہو کر رہ گئی ہے۔ تا ہم یار لوگ ناشرین کے رسک کا مداوا اس طرح کرتے ہیں کہ کم و بیش کتاب کی جملہ سرمایہ کاری خود کرتے اور چین کی بنسی بجاتے پائے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ شعری مجموعے دھڑا دھڑ شائع ہو رہے ہیں اور ان کی خاصی حد تک کھپت بھی ہو جاتی ہے کیونکہ انہیں اپنے ڈھب کے قاری بھی دستیاب رہتے ہیں اور اس طرح ناشر کا کام بھی چلتا رہتا ہے اور شاعر کا بھی، یعنی ع
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں، سب مزے میں ہیں
تا ہم، ناشر بھی اس حد تک سیانا ضرور ہو چکا ہے کہ جینوئن شاعروں کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتا اور ٹریش کے ساتھ ساتھ عمدہ شاعری کے مجموعے بھی خال خال نظر آتے رہتے ہیں، یعنی ایسے مجموعے جو اپنے آپ کو خود پڑھوانے کی تاب و تواں رکھتے ہیں۔ سو ''آواز‘‘ جیسے مجموعے وقفوں وقفوں سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ رنگ ادب پبلی کیشنز والے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بہت سے جھاڑ جھنکاڑ کے ساتھ ساتھ صحیح معنوں میں شاعری کی یہ کتاب بھی چھاپ دی ہے جس کا ادبی حلقوں کو ایک عرصے سے انتظار بھی تھا کہ معیاری ادب پڑھنے والے تعداد میں کم ہی سہی، موجود ضرور ہیں۔
کتاب کا انتہائی دیدہ زیب ٹائٹل ہمارے لیجنڈ مصور اسلم کمال کا تیار کردہ ہے جو دور ہی سے پہچانا جاتا ہے کہ اس کا ایک اپنا اسلوب ہے جو سب سے الگ تھلگ اور خاص الخاص ہے۔ انتساب ''وقت‘‘ کے نام ہے اور نہایت عمدہ گیٹ اپ کے ساتھ چھپی ہوئی یہ کتاب سوا دو سو صفحات پر مشتمل ہے۔ ''ہوک‘‘ کے عنوان سے شاعر نے پیش لفظ خود تحریر کیا ہے۔ لطف یہ ہے کہ حسین مجروح ایک صاحبِ طرز نثر نگار بھی ہے بلکہ میں تو کہا کرتا ہوں کہ جو شخص اتنی عمدہ نثر لکھ سکتا ہو، اسے شاعری کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے کیونکہ نثر میں تو کوئی صاحبِ اسلوب اب خال خال ہی نظر آئے گا۔ یہ ذکر اس لئے بھی ضروری تھا کہ حسین مجروح نے شاعری میں بھی اس اسلوب کا تڑکا جا بجا لگایا ہے اور الفاظ کے ساتھ جائز آزادیاں بھی لی ہیں جس سے اس کی شاعری کو ایک اضافی تازگی اور توانائی میسر آئی ہے بلکہ میرا تو یہ یقین ہے اور جسے میں بار بار دُہراتا بھی رہتا ہوں کہ مروج زبان میں عمدہ شاعری ہو ہی نہیں سکتی جب تک کہ اس کے ساتھ تھوڑا بہت کھلواڑ نہ کیا جائے۔ وہ الفاظ کو نہ صرف مختلف طریقے سے استعمال کرتا بلکہ جہاں کہاں ان کی شکلیں بھی تبدیل کر دیتا ہے، حتیٰ کہ کچھ الفاظ اس کی ملکیت ہو کر رہ گئے ہیں۔ سو اس کی کچھ نظمیں:
نیند کی ٹہنی پر
سارے خواب کہاں پھلتے ہیں... اکثر خواب تو... کچی نیند کی ٹہنی پر ہی مر جاتے ہیں... باقی ماندہ... تعبیروں کے پھانسی گھاٹ... اتر جاتے ہیں... تھوڑے سے جو بچ رہتے ہیں... دنیا کی ناشکری آنکھ میں... تازہ جگنو بھر جاتے ہیں... لیکن دنیا... پیتل پر سونے کا رنگ چڑھاتی دنیا... خوابوں سے گھبرا جاتی ہے... جگنو بیچ کے کھا جاتی ہے۔
خواب میں دیکھا ہوا دن
(گوہر کے نام)
کاش ایسا ہو...کبھی رات کو جلدی سوئیں... صبح اٹھیں تو زمیں پر... کسی موہوم بشارت کی طرح... ایک نیا دن ہو... جسے خوف نہ ہو مرنے کا... جس کی چاہت بھری کرنوں کی سپرداری میں... فاختائوں کو کوئی ڈر نہ رہے ڈرنے کا... جس کی خوشبوئی ہوئی آنکھ کے نذرانے میں... گھر کھلے چھوڑ کے جائیں میرے جانے والے... جُز محبت نہ خریداری ہو بازاروں میں... دھوپ مامور ہو خود اپنی ہی نگرانی پر... جبکہ تنہائی حفاظت پہ ہو سناٹے کی... خواب، امید کی توفیق سے بڑھ سکتا ہے... اور نیا دن تو کسی وقت بھی چڑھ سکتا ہے۔
سمے کی کھرچن
ہم کہانی ہوئے...اُن گئے موسموں کی کہانی جنہیں... زندگی نے نصابوں سے خارج کیا... وہ روادار موسم کہ جن کے بدن... کبر کی دھوپ میں... آبنونسی ہوئے... جن کی آنکھوں میں جلتے ہوئے طاقچے... بے یقین راستوں میں قنوطی ہوئے... اب کہاں جائیں ہم... داستوں کی پُر پیچ لمبی گلی میں...کوئی راہداری ہماری نہیں... کسی زرد موسم کی چوکھٹ پہ ہم نے... کوئی سبز خواہش اتاری نہیں... ہم کہاں جائیں بوڑھی جوانی لیے... اور اٹکی ہوئی سانس والی... زباں کی روانی لیے... جو سوالوں کی دستک کو سنتی نہیں... اور پرچھائیوں سے گزاری گئی... تھپکیوں کا وظیفہ بدلتی نہیں...ہم جو موجود ہیں... آنجہانی ہوئے... وقت کی ریت میں دفن ہوتی ہوئی... ایک ندی کی آنکھوں کا پانی ہوئے... ہم کہانی ہوئے۔
بے فاصلہ منزل
صبح دم کوچ کا اعلان ہوا...شمعدانوں میں جلے خواب... کہیں درد کا موم... دفعتاً بارِ امانت کی سبکدوشی کی تیاری ہوئی... آن پہنچی کسی انجانی مسافت کی گھڑی... سرسری اس نے... زمانے سے ملاقات کو معزول کیا... درو دیوار پہ بہتی ہوئی آتش میں بدن کو دھویا... اورپوشاک کیا پگھلے ہوئے سونے کو... پھر کسی سُرمئی ابٹن کی شناسائی کو چہرے پہ ملا... صف بہ صف ہو گئے بجھتے ہوئے تاروں کے ہجوم... پھول شاخوں سے اترتے ہوئے بیعت کو جھکے... ایک بے فاصلہ منزل کو روانہ ہوا چاہت کا جلوس... شہر فردا کو... ملالِ گل تازہ کب تھا... تختِ بلقیس کی آمد تھی... جنازہ کب تھا۔
سالگرہ
نہ کوئی شمع جلی اور نہ کوئی کیک کٹا... ہم نے مل جل کے اکٹھے کیے سنولائے ہوئے ملبے سے... ادھ جلے خواب... ترے آخری ملبوس کی وہ بے خبری... جس نے اک پل میں... ترے جسم کو انگار کیا... میز پر ہم نے سجائیں تری خوشبوئیں... ترے ہاتھ کے لکھے ہوئے خط... درزی کا حساب... تیری پگھلی ہوئی تصویر کی زینت کیے... افسردہ گلاب... اور آنکھوں میں لہو بھر کے...تجھے یاد کیا... ایسی بے خواب تھی... وہ رات کہ دروازوں پر... کسی تربت کی اداسی کا گماں ہوتا تھا... اتنی ویران تھی اک بار ترے نام کی بزم... جیسے برسی ہو کسی چاند کے گہنانے کی... جیسے تقریب کسی صبح کے دفنانے کی۔
شہر بلقیس میں ایک شام
شہر بلقیس! تری خواب نما گلیوں میں... ایک دروازہ مرے دل میں کہیں کھلتا ہے...ایسے چپکے سے... کہ زنجیر ٹھٹک جاتی ہے... اتنی آہستہ... کہ آواز بھی مر جاتی ہے... تری گلیاں کہ پرستان کی ملکائیں ہیں... اور بازار ہیں... خوشبو کے سفارتخانے... یہی گلیاں، یہی بازار تھے جن کی آنکھیں... تیرے دیدار سے مغرور رہا کرتی تھیں... یہی رستے یہی دو محلے تھے جن کے بازو... تیری سانسوں، تری باتوں سے... مہک اُٹھتے تھے... آج آیا ہوں... جو اس خواب سرائے میں کئی سال کے بعد...سر جھکائے ہوئے، آواز کو پتھرائے ہوئے... وہی گلیاں وہی بازار وہی رستے ہیں... لیکن اعجازِ مسیحائی و رعنائی کہاں... گرد اُڑتی ہے مہ و سال پذیرائی کی... روح میں ایسے جدائی کا لہو گھلتا ہے... ایک دروازہ... مرے دل میں کہیں کھلتا ہے۔
آج کا مطلع
منزل پہ خاک ڈال، سفر کا نشاں تو ہے
کشتی نہیں رہی نہ سہی، بادباں تو ہے