تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     18-10-2015

حقیقت اور افسانہ

لوگ افسانے پہ افسانہ گھڑتے رہے۔ حقیقت یہ تھی کہ آج بھی وہ اسی طرح مجھے چاہتی تھی۔ ہماری جدائی کا سبب فقط ایک حادثہ تھا۔ ایسا حادثہ، ایک دن جسے وقوع پذیر ہو کر رہنا تھا ؎ 
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اب جب میں مڑ کر گزرے مہ و سال پہ نظر کرتا ہوں‘ تو کانپ اٹھتا ہوں۔ جو محبت میرے حصے میں آئی، میں دعوے سے کہتا ہوں کہ یوں کبھی کسی حوّا نے کسی آدم کو نہ چاہا ہو گا۔ میں بچپن ہی سے شرمیلا اور کم گو تھا۔ مجمعے سے ڈرتا، تنہائی میں عافیت ڈھونڈتا۔ استاد سبق سنانے کے لیے کھڑا کرتا تو میرے جسم کا ہر مسام پسینہ اگل دیتا۔ دل زور سے دھڑکنے لگتا۔ مشقت سے ذہن نشین کیے ہوئے الفاظ میرا ساتھ چھوڑ جاتے۔ بے بسی کی شدّت میں، میری آنکھ میں نمی تیرنے لگتی۔ کمتری اور عدم تحفظ کے احساس میں، کھیل کے میدان سے میں دور رہتا۔
ایسے میں کیسے اور کیوں وہ ہر درد کی دوا بن کر میری زندگی میں وارد ہوئی، یہ درست طور پر مجھے یاد نہیں۔ ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ ابتدا میں دوسروں کی طرح میں اس سے بھی خوفزدہ رہا۔ دور بھاگتا رہا۔ جب کبھی وہ میرے پاس آ بیٹھتی، میں نکل بھاگنے کا بہانہ سوچتا رہتا۔ ایسے میں بڑے صبر اور برداشت سے وہ میری بے رخی سہتی۔ اس کی آنکھ میں مجھے اپنائیت نظر آتی؛ اگرچہ اظہارِ محبت اس نے کبھی نہ کیا۔ 
رفتہ رفتہ‘ بتدریج، میں اس سے مانوس ہوا۔ اس پہ اعتماد کرنے لگا، اپنا سمجھنے لگا۔ میری زندگی ناکامیوں سے عبارت تھی اور اپنا ہر غم میں اس کے گوش گزار کرتا۔ نامہربان دنیا بڑی سفاکی سے ہمیشہ ہر کہیں مجھے مسترد کر دیتی تھی اور اس تذکرے میں، میں رو پڑتا۔ ایسے میں یکایک وہ ایک محبوب سے بڑھ کر ماں بن جاتی۔ مجھے سہلاتی، پچکارتی۔ زندگی بسر کرنے کا طریقہ بتاتی۔ میری ڈھارس بندھ جاتی۔ میں سنبھلنے لگتا۔ 
آہستہ آہستہ، بتدریج، وہ لوگوں سے مجھے متعارف کرانے لگی۔ اپنی سہیلیوں کے ہمراہ وہ میرے سامنے بیٹھ جاتی اور کسی موضوع پر اظہارِ خیال کرنے کو کہتی۔ میں بدکتا، کانپتا رہتا۔ اس کی آنکھ میں امید کا دیا کبھی نہ بجھا۔ طویل مہ و سال کے بعد آخر اس کی ریاضت رنگ لانے لگی۔ میری خود اعتمادی بحال ہونے لگی۔ خوف ختم ہوا۔ آہستہ آہستہ میں بات کرنے لگا۔ میری اس بدلتی ہوئی کیفیت کو دیکھتے ہوئے، وہ کھل اٹھی۔ 
انہی دنوں میں، میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ مجھ سے محبت کرتی ہے؟ زندگی میں پہلی بار، جذبات کی شدّت میں، میں نے اسے کانپتے دیکھا۔ اس کے آتشیں رخسار دہکنے لگے۔ وہ آنکھ چرانے لگی، اِدھر اُدھر کی بات کرنے لگی۔ میں اسے دیکھتا رہا، اُس کی اِس کیفیت سے محظوظ ہوتا رہا۔ اس وقت وہ حوّا کی ایک عام سی بیٹی تھی، ایک آدم زاد سے جو محبت کرتی ہے۔ اس وقت میں خود کو انتہائی پُراعتماد محسوس کر رہا تھا۔ 
یوں ہم دونوں نے زندگی ساتھ گزارنے کا پیمان کیا۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے، جب اس نے کہا کہ مجھے لکھنا چاہیے۔ بات کرنے میں اب بھی میں قدرے ہچکچاہٹ محسوس کرتا تھا‘ لیکن اس نے یہ کہا کہ میری تحریر میں بلا کی کاٹ ہے۔ یہ بات اس نے مجھے بتائی کہ خدا نے زبان کے بدلے مجھے قلم دیا ہے۔ جب اس قدر اعتماد سے اس نے یہ بات کہی تو بلاجھجھک میں لکھنے لگا۔ وہ گھنٹوں میری عبارت کا مطالعہ کرتی۔ غلطیاں نکالتی، اصلاح کرتی۔
اس کا اندازہ درست تھا۔ بڑی تیزی کے ساتھ میں مشہور ہوا۔ ملک کے طول و عرض میں، میرا لکھا ہوا پڑھا جاتا، حوالے کے طور پر استعمال ہوتا۔ مجھے قبولیتِ عام ملی۔ میرا فرمان ہمیشہ مستند ٹھہرتا۔ میری تحریر میں روانی تھی۔ بڑی برق رفتاری سے میں لکھ ڈالتا اور خود مجھے بھی اس میں لذت محسوس ہوتی۔ 
آہستہ آہستہ مجھے یہ احساس ہوا کہ اس کا اندازہ سو فیصد درست تھا۔ خدا نے زبان کے بدلے مجھے قلم دیا تھا۔ مجھے سوچنا نہ پڑتا۔ ہمیشہ ہر موضوع پر میں بلاجھجھک ایک حتمی رائے قائم کرتا۔ جس تیزی سے میں نے بلندی کا رخ کیا، اس میں میری ترجیحات بدلنے لگیں۔ رفتہ رفتہ، میں مقبولِ عام بات کہنے لگا۔ آج جب وہ مجھے چھوڑ کر جا چکی تو یہ کہنے میں مجھے کوئی عار نہیں کہ کڑوے سچ کو میں مصلحت کی چھری سے ذبح کرنے لگا تھا۔
اس کی آنکھ میں محبت اسی طرح رواں تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ غم کا ایک دھارا بہنے لگا تھا۔ وہ گم صم رہنے لگی۔ پھر بھی، اس کی ہمت کی میں داد دوں گا کہ یہ سب وہ خاموشی سے سہتی رہی۔ اس نے بڑی مشقت سے مجھے سنوارا تھا۔ اب وہ مجھے بگڑتا دیکھ رہی تھی۔ 
بات یہاں تک ہوتی تو اسی طرح خاموشی سے وہ میرے ساتھ بسر
کرتی رہتی۔ معاملہ اس وقت بگڑا، جب دولت مند سیاسی اشرافیہ نے میری قیمت لگائی۔ اب جب کہ وہ میرے پاس نہیں تو میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ میں پھسل گیا تھا۔ میری ضروریات بڑھنے لگی تھیں اور مجھے روپے کی ضرورت تھی۔ بڑی گاڑیوں، بیرونِ ملک سفر کی مجھے عادت ہو گئی تھی۔ 
تب میرے الفاظ اپنی وقعت کھونے لگے۔ مجھے لکھنے میں دشواری ہونے لگی۔ پہلی میں لکھ کر مٹانے لگا۔ یہ ساری بات میں نے اس سے چھپائے رکھی لیکن وہ میری رگ رگ سے واقف تھی۔ بچپن سے وہ مجھے پڑھ رہی تھی۔ اب میرا مضمون دیکھنے کے بعد اس کی نظر میں ستائش کی جگہ شک ہوا کرتا۔
تب وہ منحوس دن آیا۔ اس روز میں جلدی میں تھا اور دروازہ مقفل کرنا بھول گیا تھا۔ وہ دبے قدموں آئی۔ دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو گڑبڑا کر میں نے سر اٹھایا۔ وہ سرو قد کھڑی تھی اور اس کی آنکھیںدہک رہی تھیں۔ کمرے میں پھاڑ کر پھینکی ہوئی تحریروں کا ایک ڈھیر تھا اور میں رنگے ہاتھ پکڑے گئے چور کی طرح گنگ بیٹھا تھا۔ 
جیسے وہ میری رگ رگ سے واقف تھی، اسی طرح میں نے بھی اسے پڑھ رکھا تھا۔ میں اسے کیا روکتا کہ وہ جانے سے پہلے ہی جا چکی تھی۔ یہ ہے ساری حقیقت۔ بات یہ نہیں کہ ہم دونوں میں سے کوئی بے وفا تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ لالچ کا اژدھا میرا ایمان کھا گیا تھا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved