18 اکتوبر کو جیالوں نے اپنے خون
سے تاریخ رقم کی: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''18 اکتوبر کو جیالوں نے اپنے خون سے تاریخ رقم کی‘‘ جبکہ والد صاحب کی سربراہی میں پارٹی کے جملہ عمائدین حالیہ دورِ اقتدار میں اپنا اپنا جغرافیہ رقم کر رہے تھے کہ کس کس کا پیسہ کہاں کہاں جا کے جمع ہو سکتا ہے، تا ہم اب ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کو شہیدوں کے نام پر مزید نہیں چلایا جا سکتا جس کا مظاہرہ ہم گزشتہ عام انتخابات اور حالیہ ضمنی انتخاب کے دوران دیکھ چکے ہیں اور کتنے افسوس کا مقام ہے کہ کارکن الیکشن والے دن گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور وہ دونوں سابق وزرائے اعظم اور دیگر معززین کی قربانیوں کو یکسر فراموش کر چکے ہیں جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا اور اسے اس ترقی پر اِکتفاء کرنا پڑے گا جو مذکورہ بالا درویش صفت بزرگوں نے محض یادِ خدا کے ذریعے حاصل کی اور جنت میں اپنے اپنے گھر بنا لیے جن کے سامنے انکل بحریہ ٹائون کا دیا ہوا محل بالکل ہی معمولی لگتا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں سانحۂ کارساز کے شہیدوں کی آٹھویں برسی پر خطاب کر رہے تھے۔
مختلف سیاسی جماعتوں کا کچرا پی ٹی آئی
میں جمع ہو رہا ہے:سعد رفیق
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''مختلف
سیاسی جماعتوں کا کچرا پی ٹی آئی میں جمع ہو رہا ہے‘‘ جبکہ ہمارا کچرا آپس کی دھینگا مشتی میں مصروف اپنے اپنے ہاتھ پائوں مضبوط کر رہا ہے تا کہ دشمن کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اگرچہ خود ہم سے زیادہ اپنا دشمن اور کوئی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پی ٹی آئی اب لوٹا کریسی کی نمائندہ جماعت بن چکی ہے‘‘ جبکہ ہم خود ماشاء اللہ سارے کے سارے ہی اس زمرے میں آتے ہیں بلکہ ہمارے تو پیندے بھی غائب ہیں اور جنرل ضیاء الحق اور غلام جیلانی کا لگایا ہوا یہ پودا جتنے پھول پھل لا چکا ہے اس کا حساب کتاب تو خود ہم سے بھی نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ ''بے بنیاد پراپیگنڈا کے باوجود ملکی ترقی کے لیے مسلم لیگ ن کی پیش قدمی جاری رہے گی‘‘ حالانکہ زیادہ توجہ اس پروپیگنڈے پر دینی چاہیے جس کی باقاعدہ بنیاد موجود ہے اور جس کے شواہد روز بروز تھوک کے حساب سے منظرِ عام پر آ رہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
عمران اقتصادی راہداری پر سیاسی
بیان بازی نہ کریں:احسن اقبال
وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''عمران خان اقتصادی راہداری پر سیاسی بیان بازی نہ کریں‘‘ کیونکہ ہماری قیادت نے ملک سے سیاست کو ویسے ہی نکال باہر کر دیا ہے اور ہر جگہ سارا کچھ کاروباری انداز ہی میں ہو رہا ہے جبکہ الیکشن سیاسی طریقے سے لڑا جاتا ہے اور نہ ہی حکومت سیاسی طریقے سے چلائی جا رہی ہے جو کہ پرانا ہو کرمتروک ہو چکا ہے اور سیدھے سادے شہنشاہی طریقے سے حکومت کا کام چلایا جا رہا ہے اور کسی کو دم مارنے کی جرأت نہیں، ماسوائے اس کے کہ وزراء کرام آپس میں ہی گتھم گتھا رہتے ہیں تا کہ مخالفین کے دانت کھٹے کرنے کے لیے اپنے اعصاب مضبوط کر سکیں، اور جہاں تک منصوبے کے روٹ کا تعلق ہے تو یقین رکھا جائے کہ یہ روٹ ملک کے اندر اندر ہی ہو گا اور مشرقی و مغربی روٹ پر نت نئے شبہات کا اظہار کرنا ہرگز ملکی مفاد میں نہیں ہے جبکہ مشرق میں بھی حکومت کا ڈنکا بج رہا ہے اور مغرب میں بھی جبکہ یہ ڈنکا ہم آپس میں بھی خوب بجا رہے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
ہارتے ہارتے بچے
اگر روشنی کی کمی آڑے نہ آتی تو ہماری ٹیم پہلا ٹیسٹ لازمی طور پر ہار جاتی جبکہ دوسری اننگز کی بیٹنگ اور بائولنگ سے اندازہ ہوا ہے کہ ہماری ٹیم کس قدر ناقابل اعتبار ہے۔ بائولنگ میں ایک یاسر شاہ کے نہ ہونے سے بھی زمین و آسمان کا فرق آ گیا حالانکہ محمد عامر جیسا شہرۂ آفاق بائولر کلیئر ہو کر باقاعدہ دستیاب تھا لیکن اندرونی چپقلشوں اور مصلحتوں کی وجہ سے اسے ٹیم سے دور رکھا گیا۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ساتھی کھلاڑی اس کے خلاف ہیں کہ اس نے ٹیم اور ملک کو بدنامی سے دوچار کیا حالانکہ وہ اپنے کئے کی سزا بھگت چکا ہے اور اسے اب بورڈ کی طرف سے مزید سزا دینے کا ہرگز کوئی جواز نہیں ہے جبکہ اصل بات یہ ہے کہ اس کے ٹیم میں آنے اور اس کے لیے جگہ بنانے سے موجودہ، فاسٹ بائولروں میں سے ہی کسی ایک کو فارغ کرنا پڑا جبکہ اسی ٹیسٹ میں ان کی کارکردگی صاف ظاہر ہے اور انہی کی وجہ سے ٹیم ہارتے ہارتے بمشکل بچی، سرفراز احمد کے بارے میں بھی پہلے پہل ناقابل فہم رویے کا اظہار کیا گیا جس نے بعد میں ہر طرح سے اپنی اہلیت ثابت کر کے دکھا دی۔
اور اب اوکاڑہ سے موصول ہونے والی مسعود احمد کی یہ تازہ غزل:
کٹ گئی ہے پتنگ زور سے پھر
ہاتھ زخمی ہوئے ہیں ڈور سے پھر
چاندنی لڑ پڑی چکور سے پھر
جاگ جائے نہ چاند شور سے پھر
چوکیداروں سے کیا گلہ شکوہ
بات کرنی پڑے گی چور سے پھر
تازہ دم کر دیا محبت نے
ہو گئے ہیں نئے نکور سے پھر
گھنٹیاں بج رہی ہیں کانوں میں
آنکھ لگنے لگی ہے شور سے پھر
دل کا دلدار سے معاملہ بھی
سود بے بازی ہے مفت خور سے پھر
شُکریہ گرم گرم سانسوں کا
زخم بھرنے لگے ٹکور سے پھر
دیکھیے کون کس کو پڑتا ہے
چور ملنے گئے ہیں مور سے پھر
آج کا مطلع
تنہا کوئی تنکا سا پڑا ایک طرف ہے
اور سارے زمانے کی ہوا ایک طرف ہے