قمری سال(lunar calendar)کو سنِ ہجری یا اسلامی سال سے تعبیر کیا جاتا ہے ، اس کا سبب یہ ہے کہ اسلامی عبادات زکوٰۃ ، روزہ اور حج کا تعلق قمری سال سے ہے ۔اسی طرح اگر کسی خاتون کا شوہر قمری سال کے کسی مہینے کی پہلی تاریخ کو وفات پا جائے تو چار قمری مہینے گزرنے کے بعد پانچویں قمری مہینے کی دس تاریخ پر اس کی عدّت ختم ہو جائے گی ، لیکن اگر وفات مہینے کے درمیان میں ہو تو عدّت کے ایک سو تیس دن پورے کیے جائیں گے۔ختم المرسلین سیّدُنا محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے عرب کسی اہم واقعے کی مناسبت سے اپنی تاریخ کو یاد رکھتے تھے ، جیسے کافی عرصے تک ''واقعۂ اصحابِ فیل ‘‘اس کے لیے معیار بنا رہا ۔ یہاں اس غلط فہمی کا بھی ازالہ ضروری ہے کہ اسلامی سال سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس کے مقابل شمسی سال غیر اسلامی ہے ۔ ہماری عبادات میں سے نماز کے اوقات ، روزے کے سحرو اِفطار کے اوقات اور مناسکِ حج کے بعض اُمور بھی شمسی نظام سے متعلق ہیں :جیسے نو ذوالحجہ کو طلوعِ آفتاب کے بعد منیٰ سے عرفات کے لیے روانگی ، غروبِ آفتاب کے بعد عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانگی اور دس ذوالحجہ کو طلوعِ فجر کے بعد مزدلفہ سے منیٰ کے لیے روانگی وغیرہ۔ یہی صورتِ حال رمی ِ جمرات کے اوقات کی ہے ۔ دراصل شمس و قمر دونوں اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے مقررہ تکوینی نظام (Cosmological System) کے تابع ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1)''سورج اور چاند (قدرت کے مقرر کیے ہوئے ) ضابطے کے پابند ہیں اور زمین پر بچھا ہوا سبزہ اور اپنے تنے پر کھڑے درخت (اپنی اپنی ہیئت و استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حضور ) سجدہ ریز ہیں ، الرحمٰن : 5,6)‘‘۔ (2) '' اور سورج اپنے مقررہ راستے پر رواں دواں ہے ، یہ بہت غالب بے حد علم والے (خالق ) کا بنایا ہوا نظام ہے اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کی ہیں ، یہاں تک کہ وہ (مہینے کے آخر میں خشک ہو کر) پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے ، نہ تو سورج کے بس میں ہے کہ (چلتے چلتے ) چاند کو جا پکڑے اور نہ ہی رات دن سے پہلے آ سکتی ہے ، اور ہر ایک (سیّارہ ) اپنے اپنے مدار میں تیر رہا ہے ، (یٰس : 38-40)‘‘۔
اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام میں ابتدائے آفرینش سے سال بارہ مہینوں پر مشتمل رہا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ''بے شک اللہ کی کتابِ (تقدیر) میں ، جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ، (سال بھر کے) مہینوں کی تعداد بارہ ہے ، ان میں سے چار مہینے حُرمت والے ہیں ،یہی دینِ مستقیم ہے ، (توبہ : 36)‘‘
ملتِ ابراہیمی میںچار مہینے حُرمت والے چلے آرہے تھے ، جن میں جنگ و جدال کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اُن کی تفصیل حدیث ِ پاک میں ان الفاظ میں بیان ہوئی : ''سال بارہ مہینے کا ہے ، ان میں سے چار حُرمت والے ہیں ، تین تو متواتر آتے ہیں یعنی ذوالقعدہ ،ذوالحجہ اور محرم الحرام اور ایک مہینہ'' رجبِ مُضَر‘‘ ہے جو جمادی الثّانیہ اور شعبان المعظم کے درمیان واقع ہوتا ہے۔(صحیح بخاری :4662)‘‘۔
اِن حُرمت والے مہینوں میں ایک مہینہ مُحرم الحرام کا ہے ،جو ابتدائے آفرینش سے ہی حُرمت والاہے ،اِس ماہ کا ایک دِن جسے یومِ عاشور (دس محرم ) کہاجاتاہے،عشر سے مشتق ہے ،جس کے معنیٰ دس کے ہیں ۔عاشورسے مراد ماہِ مُحرم کا دسواں دن ہے ۔بعض اہلِ علم کاقول یہ ہے کہ اس دن کو عاشوراِس لئے کہتے ہیں کہ اِس دن میں اللہ تعالیٰ نے دس انبیائے کرام علیہم السلام پر اپنی خصوصی نعمتوں کا نزول فرمایا ، اس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے :ـ
(1) زمین پر اترنے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی ۔(2)طوفانِ نوح تھم جانے کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی سلامتی کے ساتھ کوہِ جودی پر کنارے لگی ۔(3) حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اُن کی قوم کو فرعون اور فرعونیوں سے نجات ملی اور وہ سمندر میں غرق ہوئے ۔(4) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور انہیں آسمانوں پر اٹھایاگیا۔(5) حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی نے صحیح سالم ساحل پر اُگل دیا اور اِسی دن اُن کی اُمّت کا قصور معاف ہوا ۔(6) حضرت یوسف علیہ السلام کو صحیح سالم کنویں سے باہر نکالاگیا۔(7) حضرت ایوب علیہ السلام کوطویل بیماری سے صحت یابی ملی ۔(8) حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھالیا گیا۔ (9) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور اِسی دن اُن پر نارِ نمرود گلزار ہوئی۔ (10) حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملک عطاہوااور سلطنت سے نوازا گیا ۔ یہ روایات ہیں ، حقیقتِ حال اللہ تعالی بہتر جانتا ہے ۔
امام احمد بن حسین بیہقی لکھتے ہیں:'' حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ! اللہ تعالیٰ نے ہمیں یومِ عاشور کی فضیلت دی ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو یومِ عاشورمیں پیداکیا اور اِسی طرح زمینوں آسمانوں ، عرش ،کرسی اورلوح وقلم کو اسی دن پیدا کیا ۔ حضرت جبریل و ملائک اور حضرت آدم وحوا اور جنت کو اسی دن پیداکیااورانہیںاس میں ٹھہرایا ، اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام عاشوراء کے دن پیداہوئے اور اسی دن اُنہیں نمرود کی آگ سے نجات ملی،(فضائل الاوقات،ص:441)‘‘۔ الغرض سانحۂ کربلا سے پہلے بھی یومِ عاشور کو مُکرم ومُعظم ماناجاتاتھا ،ایک حدیث شریف کی رُو سے قیامت بھی دس مُحرم جمعۃ المبارک کو وقوع پذیر ہو گی ۔ اِ س دن کے روزے کی فضیلت بھی احادیث میں آئی ہے :
(1)''حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ یہود یومِ عاشوراء کاروزہ رکھتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا:اِس دن تمہارے روزہ رکھنے کا سبب کیا ہے؟انہوں نے جواب دیا :یہ ایک عظیم دن ہے ، اللہ تعالیٰ نے اِس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کردیا ،توحضرت موسیٰ علیہ السلام نے (اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا) شکراداکرنے کے لئے اِس دن کا روزہ رکھا اور ہم بھی (ان کی اتباع میں) اس دن کا روزہ رکھتے ہیں ،تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہاری بہ نسبت حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہماری(نظریاتی) قربت زیادہ ہے اور ہم اس بات کے زیادہ حق دار ہیں(کہ ان کی قائم کردہ سنّت کوجاری رکھیں) ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اور صحابۂ کرام کو بھی اس کا حکم فرمایا، (صحیح مسلم : 2653)‘‘۔
(2)'' عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے یومِ عاشورکا روزہ رکھا اورصحابۂ کرام کو بھی اس کا حکم فرمایا، تو صحابۂ کرام نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ! یہ ایسا دن ہے کہ یہود ونصاریٰ اس کی تعظیم کرتے ہیں ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب آئندہ سال آئے گا ،توہم ان شاء اللہ (عاشوراء کے ساتھ)نو تاریخ کا روزہ بھی (ملا کر ) رکھیں گے (تاکہ عاشوراء کے روزے کی سعادت بھی حاصل ہو اور یہود کے ساتھ مشابہت بھی نہ رہے)،(صحیح مسلم:2555)۔
(3) ''رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رمضان کے روزوں کے بعد اللہ کے حُرمت والے مہینے محرم کے روزوں کی فضیلت سب سے زیادہ ہے ،(سنن ترمذی :740)‘‘۔
(4)''حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا: رمضان کے روزوں کے بعد ایسا کون سامہینہ ہے، جس کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم فرماتے ہیں؟آپ نے اس سے فرمایا:میں نے اس کے بارے میں کسی کو سوال کرتے ہوئے نہیں سنا ، سوائے ایک شخص کے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ سے یہی سوال کیا تھا اور میں اس وقت آپ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! ماہِ رمضان کے روزوں کے بعد ایساکون سا مہینہ ہے، جس کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم فرماتے ہیں ؟آپ ﷺنے فرمایا:اگر تم رمضان کے روزے رکھنے کے بعد( کسی اور مہینے کے) روزے رکھناچاہتے ہوتو ماہِ محرم کے روزے رکھو،کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے،اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور بعد میں آنے والوں کی توبہ بھی اس مہینے میں قبول فرمائے گا،(سُنن ترمذی: 741)‘‘۔
(5)'' حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ قریش زمانۂ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے ،پھر رسول اللہ ﷺ نے (عہدِ اسلام میں )اس کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا،یہاں تک کہ(پھر) رمضان کے روزے فرض ہوگئے ،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(اب )جوشخص چاہے (نفل کے طور پر)عاشورہ کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے،(مسلم :2537)‘‘۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں یوم ِ عاشور کا روزہ واجب تھا، بعد میں اب اس کی حیثیت نفلی روزے کی ہے ۔لہٰذا جن احادیثِ مبارکہ میں عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ہے ، وہ سنّت و استحباب کے درجے میں ہے ۔