تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-10-2015

فرصت کے دھندے

ترقی یافتہ ممالک کا کوئی بھی مخمصہ ہماری سمجھ میں نہیں آسکتا۔ آئے بھی کیسے؟ ہم ترقی یافتہ جو نہیں ہیں! بیشتر ترقی یافتہ معاشرے عشروں کی محنت کے بعد اپنے ہاں بہت کچھ ختم کرچکے ہیں جس کے نتیجے میں اچھا خاصا خلاء پیدا ہوچکا ہے۔ ہم نے بہت سے عِلّتوں کو اب تک گلے لگایا ہوا ہے جس پر دنیا ہمارا تمسخر اڑاتی ہے مگر دنیا کو یہ بات نہیں معلوم کہ ع 
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل 
یعنی چند ایک پختہ عادتوں کو اپنائے رہنے ہی میں عافیت ہے۔ اگر ترقی کے چکر میں ہر عِلّت سے پنڈ چھڑالیا تو ہر طرف ویرانی کا راج ہوگا۔ دل میں کچھ نہ کچھ باقی رہنا چاہیے۔ جو کچھ بھی دل چاہے وہ اگر مل ہی جائے تو جینے میں کیا خاک مزا رہ جائے گا؟ ع 
پھر دل میں کیا رہے گا جو حسرت نکل گئی! 
ناروے کی ایک خبر پڑھ کر ہم چونک پڑے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ خبر پڑھنے سے پہلے ہمیں اس بات نے چونکا دیا کہ ناروے سے کوئی خبر آئی ہے۔ سکینڈینیویا کے ممالک نے ذرا سی ترقی کیا کرلی ہے، باقی دنیا سے ان کا رابطہ ختم سا ہوکر رہ گیا ہے۔ ہفتوں، بلکہ مہینوں میں بھی وہاں سے کوئی ایسی ویسی خبر نہیں آتی۔ وہاں زندگی اتنی خاموش گزر رہی ہے کہ کبھی کبھی تو یقین ہی نہیں آتا کہ فن لینڈ، ناروے، سوئیڈن، ڈنمارک وغیرہ دنیا کے نقشے پر ہیں! اب ایسی ترقی کس کام کی کہ دنیا والوں کو پتا ہی نہ چل پائے کہ آپ دنیا میں ہیں بھی یا نہیں! ان سے اچھے تو ہمارے جیسے ممالک ہیں جو کسی نہ کسی بہانے تقریباً یومیہ بنیاد پر اپنے وجود کا احساس تو دلاتے رہتے ہیں!
خیر، خبر کچھ ایسی تھی کہ پڑھ کر پہلے تو ہم چند لمحات تک گم سم رہے۔ کچھ سمجھ ہی میں نہ آیا کہ فوری ردعمل کیا ہونا چاہیے۔ اور پھر کچھ سمجھنے کی کوشش میں اتنا وقت گزر گیا کہ فوری ردعمل کی گنجائش نہ رہی۔ حواس بحال ہوئے تو ہماری ہنسی چُھوٹ گئی۔ آپ بھی وہ خبر پڑھتے تو ہنسنے کے سِوا کچھ نہ کر پاتے۔ خبر یہ ہے کہ ناروے کی پولیس کو ایک پیکٹ ملا ہے اور وہ آج کل اس کے مالک کو تلاش کر رہی ہے۔ آپ سوچیں گے یہ تو اچھی بات ہے کہ پولیس کو کوئی چیز ملی ہے اور وہ اس چیز کو اس کے مالک تک پہنچانا چاہتی ہے۔ یہ تو فرض شناسی کی مثال ہوئی۔ ہمارے نزدیک بھی یہ اچھی ہی بات ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ناروے کی پولیس کو جو پیکٹ ملا ہے اس میں 90 گرام چرس پائی گئی ہے! اس نے چرس کے مالک کو بہت تلاش کیا۔ جب نہ ملا تو سوشل میڈیا پر اس معاملے کو مشتہر کرنے کا سوچا۔ چرس کے پیکٹ کی تصویر پولیس نے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر پوسٹ کردی اور پیکٹ کے مالک سے استدعا کی ہے کہ وہ اپنا پیکٹ وصول کرلے! 
اب آپ ہی بتائیے کہ کیا کیا جائے۔ ناروے میں جرائم ختم ہوچکے ہیں۔ ایسے میں پولیس کے پاس کرنے کے لیے کوئی کام بچا ہی نہیں اس لیے وہ ایسی اوٹ پٹانگ حرکتیں کر رہی ہے۔ اور ایک ناروے پر کیا موقوف ہے، ہر ترقی یافتہ ملک کی پولیس فرصت کے مزے لُوٹ رہی ہے اور فرصت کے دھندے تو ایسے ہی ہوا کرتے ہیں! 
ناروے کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں چرس اور اسی نوعیت کے دیگر نشوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ ترقی خود اتنا بڑا نشہ ہے کہ اس سے فرصت ملے تو کوئی اور نشہ اپنایا جائے! اب اگر کوئی ناشکرے پن کا مظاہرہ کرے اور ترقی کا نشہ ہوتے ہوئے بھی چرس وغیرہ کی طرف جائے تو اُسے سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ ناروے میں پانچ گرام یا اس سے زائد چرس کسی کے پاس سے برآمد ہوجائے تو اس کے خلاف عدالتی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ ہم پانچ گرام سے زائد چرس رکھنے کی سزا کا سن کر تھوڑا سا حیران ہوئے۔ یورپ میں شخصی آزادی کا بہت غلغلہ ہے۔ وہاں ہر انسان کا یہ بنیادی حق تسلیم کرلیا گیا ہے کہ وہ جس طور چاہے یعنی اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کسی کو چرسی ہونے سے کیوں روکا جائے؟ اگر کسی کی مرضی ہو کہ اس کے پاس چرس ہو تو پھر وہ پانچ گرام ہو یا پانچ کلو، شخصی آزادی کا احترام کیا جانا چاہیے! 
خیر، بنیادی حقوق پر یہ ''عالمانہ‘‘ بحث پھر کبھی سہی۔ بات ہو رہی ہے پولیس کے اطوار کی۔ ایسی پولیس کس کام کی جو چرس کے پیکٹ کا مالک بھی تلاش نہ کر پائے؟ اگر ترقی یافتہ ممالک کی پولیس ایسی ہی ہے تو ہم بے پولیس بھلے۔ بے پولیس کہنے پر چونکیے مت۔ ہمارے ہاں پولیس جس انداز سے جلوہ گر ہے اس کی روشنی میں اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ بقول غالبؔ ع 
ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے! 
مگر صاحب، ہماری پولیس گئی گزری ہونے پر اتنا دم خم تو رکھتی ہے کہ کہیں سے کوئی چیز ملے تو اس کے مالک کو تلاش کرلے یا پھر نظریۂ ضرورت کو بروئے کار لاتے ہوئے از خود نوٹس کے تحت (خود سمیت) کسی کو بھی مالک بنادے! صد شکر کہ ہماری پولیس کے پاس کرنے کو ابھی بہت سے کام ہیں۔ ایک طرف تو وی وی آئی پیز کیلئے سکیورٹی ڈیوٹی ہے اور دوسری طرف آنے والی تین چار نسلوں کا مستقبل تابناک بنانے کا مرحلہ! تہواروں پر گھر والوں کی خاطر مال بھی بٹورنا ہوتا ہے اور پھر اپنی ذاتی ٹور بنانے کے لیے بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں کس کو پڑی ہے کہ چرس یا کسی اور منشیات کا پیکٹ کہیں پڑا ہوا ملے تو مالک کو تلاش کیا جائے۔ عقل اور مصلحت کا تقاضا ہے کہ ایسی ہر چیز اپنے نیفے میں اڑس لی جائے! اور اگر کبھی اوپر والوں کی طرف سے برتی جانے والی سختی کے نتیجے میں کچھ کارکردگی دکھانی ہی ہو تو مشکوک پیکٹ کسی کے بھی کھاتے میں ڈال کر اُسے حوالات کی ہوا کھلائیے اور چَین کی بنسی بجائیے۔ کام تیزی سے نمٹانے کا یہی ایک مجرّب نسخہ ہے۔ ہماری پولیس کے سَر پر ذمہ داریوں کے پوٹلے لَدے ہوئے ہیں۔ ایسا نہ کرے تو وہ کس طور ذمہ داریوں سے ''سُبک سَر‘‘ ہو؟ اگر پولیس فارغ بیٹھی ہو اور مجرم پکڑنے سمیت کوئی بھی دردِ سر نہ ہو تو عجیب نفسی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایسے میں ویسی ہی بھولے بادشاہ جیسی پولیس فورس منظر عام پر آتی ہے جیسی ناروے میں پائی جاتی ہے! بہت سے پاکستانی ترقی یافتہ معاشروں اور بالخصوص یورپی ممالک میں پولیس کا رویہ دیکھ کر اکثر کنفیوز ہوجاتے ہیں۔ جس خلوص کے ساتھ پولیس شہریوں کی مدد کرتی ہے اور ان کے لیے ہر ممکنہ آسانی یقینی بناتی ہے اُسے دیکھ کر لگتا ہے کہ مذاق فرمایا جارہا ہے۔ چند ایک تجربات کے بعد یقین آتا ہے کہ سینگ مارے جانے کا کوئی خطرہ نہیں، یہ پولیس تو واقعی اللہ میاں کی گائے جیسی ہے! 
اور اب ذرا سادگی کی انتہا بھی ملاحظہ فرمائیے۔ سوشل میڈیا میں دیئے جانے والے اشتہار میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ''مقامی منڈی‘‘ میں 90 گرام چرس ایک ہزار ڈالر کی ہے۔ یعنی تھوڑی رعایت سے بھی بیچی جائے تو ایک کلو گرام چرس ناروے میں دس ہزار ڈالر تو دے ہی جائے گی۔ ہمارے ہاں جن لوگوں نے یہ خبر پڑھی ہوگی ان میں سے چند کے لیے تابناک مستقبل کی منصوبہ بندی آسان ہوگئی ہوگی۔ انہوں نے بخوبی اندازہ لگالیا ہوگا کہ ناروے جائیں تو کتنی چرس لے جائیں کہ فروخت ہو پائے تو ساری محنت وصول ہوجائے یعنی وطن واپس آنا نصیب ہو تو باقی عمر کچھ نہ کرنا پڑے! 
دیکھا آپ نے؟ اگر پولیس فورس کا دماغ فراغت سے بھرا ہوا ہو تو مجرم پکڑنے کے لیے دیا جانے والا اشتہار مزید مجرم تیار کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے! ہماری پولیس کے پاس بھی کرنے کو اگر کچھ نہ ہو تو ایسی ہی حرکتوں سے لوگوں کو ہنسایا کرے۔ مگر خیر، پاکستانی معاشرے میں پہلے ہی ہر معاملے میں اتنا مزاح پایا جاتا ہے کہ پولیس کی طرف سے کسی اضافی مزاح کے متعارف کرانے کی گنجائش نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved