تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     20-10-2015

خورشید قصوری : شو سینا کی مسخری

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کی کتاب کا افتتاح 12اکتوبر کو ممبئی میں ہونے والا تھا ۔اس کا انتظام سدھیندر کلکرنی نے کیا تھا ۔شیو سینا نے نہرو سینٹر میں ہونے والے اس پروگرام کو کھند بنڈ کرنے کی دھمکی دی تھی ۔حالانکہ مہاراشٹر کی سرکار نے کہا بھی تھا کہ وہ پروگرام کی مکمل حفاطت کا بندوبست کرے گی ۔یہی بات مہاراشٹر سرکار نے غلام علی کے غزل پروگرام کیلئے کہی تھی لیکن اس پروگرام کو بھی ڈر کے مارے انتظامیہ نے رد کر دیا۔سرکار کچھ نہیں بولی اور اب بھی سرکار کچھ نہیں بولے گی ۔سرکار میں شو سینا شامل ہے ۔اگر سرکار میں دم ہوتا تو وہ کہتی کہ پروگرام ہو کر رہے گا ۔دیکھیں کس کی ہمت ہے کہ وہ ٹانگ اڑاتا ہے؟
مجھے لگتا ہے کہ یہ معاملہ غلام علی یا خورشید قصوری کا نہیں ہے۔اور نہ ہی اس کا پاکستان سے کچھ لینا دینا ہے ۔اس وقت کوئی بھارت پاک جنگ نہیں چل رہی ۔یہ معاملہ بی جے پی شو سینا لڑائی کا ہے ۔بی جے پی کو نیچا دکھانا شو سینا کا خاص ہدف ہے ۔چیف منسٹر کی کرسی پر چاہے بی جے پی کا آدمی بیٹھا ہولیکن ممبئی پر بادشاہت تو شو سینا کی ہی ہے ۔شو سینا نے یہ ثابت کر دیا ۔وہ چناؤ میں ہار گئی لیکن داداگیری میں جیت گئی ۔اس کی دادا گیری صرف ممبئی تک محدود ہے ۔اگر اس میں دم ہوتا اور اس کی بات میں ذراسی وطن پرستی ہوتی تو اس کی دلی اور لکھنؤ میں بھی چلتی لیکن خورشید قصوری کی کتاب کا افتتاح دلی میں دھوم دھام سے ہو ااور اس میں لعل کرشن ایڈوانی بھی مدعو تھے ۔غلام علی کو دلی اور لکھنؤ کی سرکاروں نے بھی دعوت نامے بھیج دیے ہیں ۔جہاں تک شو سینا کے ذریعے پاکستان بائیکاٹ کا سوال ہے ‘ابھی کچھ دن پہلے پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان کے پروگرام میں بال ٹھاکرے کی فیملی کا ہونہار خود موجود تھا ۔
خورشید قصوری کو میں گزشتہ پچیس سال سے جانتا ہوں ۔وہ نہایت ہی باتمیز‘ تعلیم یافتہ اور مہذب انسان ہیں ۔مشرف کے زمانے میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے جو چار نکاتی معاہدہ تیار کیا تھا ‘اگر وہ نافذ ہو جاتا تو آج بھارت پاک رشتوں کا نقشہ ہی کچھ دوسرا ہوتا‘حالیہ لیڈروں کیلئے راستہ دکھانے جیسا کام ہے ۔'آبزرور ریسرچ فائونڈیشن‘کے ڈائریکٹر سدھیندر کلکرنی کو کون نہیں جانتا ؟ان کی حب الوطنی شک کے دائرے سے بہت دور ہے ۔وہ دانشور ہیں اور انہوں نے بھارت پاک تعلقات سدھارنے کیلئے بھر پور کوششیں کی ہیں۔وہ ایڈوانی جی کے صلاح کار بھی رہے ہیں لیکن شو سینا کے لوگ اپنے آپ کو پوپ سے بھی زیادہ پوتر سمجھتے ہیں وہ بار بار مسخرے کے کردار میں اتر جاتے ہیں ۔
دیکھیں ‘اولی کیا کرتے ہیں
نیپال کے نئے آئین کے ساتھ نئے وزیر اعظم بھی آگئے ۔ نام ہے ان کا کے پی شرما اولی !نیپالی آئین کے تحت وزیر اعظم کا چناؤ پارلیمنٹ کرتی ہے ۔اس چناؤ میں اولی کو 338 ووٹ ملے یعنی 39ووٹ زیادہ ملے ۔اگر ان کو 299 ووٹ بھی مل جاتے تو بھی وہ جیت جاتے ۔لیکن یہ جیت کوئی بڑی جیت نہیں ہے ۔ان کی پارٹی ایکی کرت مارکس وادی لینن وادی پارٹی (ایمالے) تو دو نمبر کی پارٹی ہے‘ پارلیمنٹ میں زیادہ نشستیں تو نیپالی کانگریس کو ملی ہیں۔اُس کے امیدوار سابق وزیر اعظم سشیل کوئرالاشکست کھا گئے‘کیونکہ اولی کی حمایت میں پرچنڈ کی مائو وادی پارٹی ‘راشٹریہ پرجاتنترپارٹی‘ مدھیسی جن ادھیکار فورم اور کچھ چھٹ پٹ پارٹیوں کے اراکین پارلیمنٹ میں آ گئے ۔یعنی اولی کی ڈگر آسان نہیں ہوگی ‘انہیں تلوار کی دھار پر چلنا ہوگا ۔
ان سب پارٹیوں نے اولی کی حمایت کیوں کی ؟کیونکہ یہ سب پارٹیاںمدھیسیوں کے مقابلے میں اولی کو اپنا لیڈر مانتی ہیں ۔اولی مدھیسیوں کو سر چڑھانے کے خلاف ہیں ۔وہ اپنے آپ کو پکا نیپالی مانتے ہیں‘ جبکہ مدھیسیوں کو بھارت کا دلال مانا جاتا ہے ۔نیپال میں کوئی بھی کسی پارٹی میں ہو ‘اگر وہ مدھیسیوںکو لگام دینے کا حامی ہے تو وہ اولی کے ساتھ ہے۔ اولی کی عوام میں مقبولیت کا دوسرا سبب یہ ہے کہ وہ بھارت کے خلاف مانے جاتے ہیں ۔صرف اولی ہی نہیں ‘نیپالی کانگریس کے کئی بڑے لیڈر وں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں‘جنہوں نے گاہے گاہے بھارت کے خلاف بول کرہی اپنی سیاست کو چمکایا ہے ۔اولی کی حمایت کی تیسری وجہ ہے اقتدارسے پیار !اقتدار کے بنا سیاست کیا ہے ؟اب اتحادی سرکار میں چھوٹے موٹے بھی اپنی پوریاں تلیں گے ۔
دوسرے الفاظ میں اولی کو بہت خبردارہو کر سرکار چلانی ہوگی ۔بھارت کی مودی سرکار نے مدھیسی معاملے میں سیدھی مداخلت کرکے بچگانہ حرکت کی ہے‘ غالباً بہار کے چناو ٔجیتنے کیلئے ایسا کرنا مجبوری ہے ۔مدھیسیوں کے لاکھوں بہاری رشتے داروں کے ووٹ شاید بی جے پی کو مل جائیں لیکن بھارت کی اس سیاست نے نیپالیوں کو ناراض کر دیا ہے ۔اولی اگر اس معاملے کو سدھار نہیں پائے تو ان کا عہدۂ وزیر اعظم بے لذت ہو جائے گا۔انہیں چین کی طرف جھکنا پڑے گا ۔وہ پاکستان کی طرٖف بھی رخ کریں توحیرانی نہیں ہوگی ۔ایسی حالت میں تنازع بڑھے گا اور نیپال کی اقتصادی حالت اور خراب ہوتی چلی جائے گی ۔نریندر مودی نے اولی کو مبارک باد دے کر اچھی شروعات کی ہے لیکن دیکھنا ہے کہ اولی کیا کرتے ہیں ؟ 
مصنفوں کاغصہ 
وزیر اعظم نریندر مودی نے بیان دے دیا ۔اُنہوں نے محمد اخلاق اور غلام علی دونوں کے ساتھ ہوئے واقعات کو بدقسمتی قرار دیاہے ۔اب بتائیے‘ہمارے ادیب دوست کیا کریں گے؟مودی نے انہیں اُلجھن میں ڈال دیا ہے ۔اب وہ کیا اپنے اعزاز واپس مانگیں گے ؟مودی نے بڑی چالاکی سے کام لیا ۔پہلے سبھی ادیبوں کو اعزاز لوٹانے دیا۔مودی نے سوچا ہو گا کہ پندرہ بیس دن میںچار پانچ سو تو لوٹاہی دیں گے ‘بعد میں سب کو مسخرا ثابت کر دیں گے لیکن مودی کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی ۔مشکل سے پچاس ادیب بھی نہیں جٹے ۔ادیب عموماً سیدھے سادے ہوتے ہیں۔پس پچاس کے لگ بھگ ہی بھیڑ چال میں پھنس گئے ۔انہیں کیا پتا تھا کہ انہیں لینے کے دینے پڑجائیں گے۔اب ادبی اکیڈمیاں انہیں بلا کر ان کے اعزاز تو انہیں واپس نہیں کرنے والی ۔بیچاروں کا اعزاز بھی گیااور لاکھ لاکھ روپیہ بھی ۔نین تارا سہگل نے ایک لاکھ کا چیک واپس بھیجا تو دوتین لیکھکوں کو بھی اُن کی تقلید کرنا پڑی۔اصلی نقصان یہی ہوا۔ویسے اعزاز لوٹانے سے کوئی نقصان نہیں ہوا‘فائدہ ہی ہوا۔جب انہیں اعزاز ملاتھا تو مشکل سے ہی کسی کونے میں چھوٹی موٹی خبر چھپی ہوگی ۔اب جب انہوں نے لوٹایا تو بڑی خبر بنی ۔اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر بھی!اب وہ اپنے بایو ڈیٹامیں اعزاز لوٹانے کی بات ضرور لکھیں گے ‘جس میں یہ چھپا ہوگا کہ انہیں یہ اعزاز ملا تھا ‘یعنی پانااور لوٹاناایک برابر ہوگیا ۔
محمداخلاق کا قتل غیر انسانی عمل تھا ‘اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے لیکن اس کا ادبی اکیڈمی سے کیا لینا دینا تھا؟مصنفوں کا کہنا ہے کہ ادبی اکیڈمی نے اس پرتنقید کیوں نہیں کی؟یا اکیڈمی دان بھولکر کے قتل پر چپ کیوں رہی؟سوال یہ ہے کہ اخلاق اور دان بھولکر جیسے حادثے کیا پہلی بار ہوئے ہیں ؟دان بھولکر کا قتل تو سونیامن موہن سرکار کے دور میں ہوا تھا۔کیا ادبی اکیڈمی کا ایسے سب معاملوں میں ٹانگ اڑانامناسب ہے ؟اس وقت اعزاز لوٹانے والوں کو بھیڑ چال چلنے کی نہیں سوجھی ۔تب اکیلے ادیہ پرکاش نے ہمت دکھائی۔
ہمارے ادیب خود بڑے موقع پرست اور دبو لوگ ہیں ۔ اعزازاور انعامات کیلئے معمولی لیڈروں اور افسروں کے جوتے چاٹتے پھرتے ہیں ۔اب وہ بھارت میں تانا شاہی کی شکایت کرتے ہیں ۔مودی کی داداگیری کا دبے چھپے ڈھنگ سے اشارہ کرتے ہیں ۔صاف لکھنے اور بولنے کی جرأت ان میں نہیں ہے۔اگر ہمیں مودی یااس کی پارٹی یا اس کے حامیوں پر غصہ ہے تو اسے لکھ کر‘بول کر یا مظاہرہ کر کے نکالیں ۔ایمرجنسی میں ان لوگوں کی گھگھی بندھی ہوئی تھی ۔میرے جیسے سیکڑوں لیکھک اور مفکر تب بھی ڈٹ کراپنی بات کہتے تھے اور اب بھی کہتے ہیں ۔کوئی تاناشاہی لانے کی ہمت تو کرے ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved