تحریر : آغا مسعود حسین تاریخ اشاعت     20-10-2015

بھارت سیکولر ریاست؟

پاکستان اور بھارت کے مختلف حلقوں کو یہ خوش فہمی تھی، کہ بھارت ایک سیکولرریاست ہے جہاں ہر شخص کو اپنے عقیدے کے تحت زندگی بسر کرنے کے تمام مواقع حاصل ہیں، لیکن انہیں اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں تھا کہ بھارت کبھی بھی سیکولر ریاست تھا اور نہ کبھی بن پائے گا، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت ذات پات میں بٹا ہوا ایک ایسا ملک ہے جہاں اعتدال پسندی کا تصور محال ہے، نیز بھارت میں سیکولرازم کا تصور بھی ایک مستعار شدہ تصور ہے جس کے تمام تانے بانے یورپ کی ثقافت سے ملتے ہیں جبکہ بھارت میں ہمیشہ سے دھرم کی بنیاد پر اپنے ہی لوگوں کو یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ کانگریس نے پنڈت نہرو کی قیادت میں اعتدال پسندی (سیکولرازم) کو فروغ دینے کی کوشش کی تھی، لیکن وہ ناکام رہے تھے۔ وہ سترہ سال بھارت کے منتخب وزیراعظم رہے، اس دوران بھارت کی اقلیت خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ پُر تشدد سلوک کیا گیا جس میں نیچی ذات کے ''دلت‘‘ بھی شامل ہیں۔ لیاقت علی خان اور نہرو کے مابین اقلیتوں کے تحفظ کے سلسلے میں جو تاریخی معاہدہ ہوا تھا، اس کی وجہ بھی بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے قتل وغارت گری کے واقعات تھے، جبکہ پاکستان میں بھارت کے مقابلے میں اقلیتوں کے خلاف ایسے واقعات رونما نہیں ہوئے ، جیساکہ بھارت میں کانگریس کی حکومت میں ہوئے تھے اور اب بی جے پی کے دور میں ہورہے ہیں۔ 2002ء میں گجرات میںمسلمانوں کی نسل کشی سے قبل بابری
مسجد گرانے والے انتہا پسند ہندووں کے ہاتھوں کئی ہزار مسلمان مرد، عورتیں اور بچے قتل ہوئے۔ ان کی املاک کو لُوٹا گیا اور آج بھی اجودھیا میں( جہاں بابری مسجد واقع ہے) مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد محرومی کی زندگی بسر کررہی ہے۔ اسی ی طرح بمبئی میں مسلمانوں کو انتہا پسند ہندووں نے بڑی بے دردی سے قتل کیا تھا۔ اس قتل وغارت گری میں بی جے پی کے علاوہ شوسینا شامل تھی۔ بھارت اور پاکستان کے قیام کے بعد بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہزاروں فسادات کرائے گئے تاکہ ان کو مالی ومعاشی طورپر کمزور کردیا جائے۔ بھارت کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب سچر نے اپنی کتاب میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے علاوہ تمام اقلیتیں خوف کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔یہاں تک کہ معاشی طورپر مسلمان‘ دلتوں یعنی نچلی ذات کے ہندوئوں سے بھی زیادہ بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ تصور کرنا کہ بھارت ایک سیکولرریاست ہے، انتہائی لغو او ر بے بنیاد بات ہے، اور اب بی جے پی کی حکومت کے دوران یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ بھارت بڑی سرعت کے ساتھ ایک ہندو ملک بنتا جارہا ہے، جہاں مذہبی انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے جو اقلیتوں کے سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ 
اس صورتحال کی مثال پاکستان کے سابق وزیرخارجہ خورشید قصوری کے حالیہ دورئہ بھارت سے دی جاسکتی ہے، جہاں وہ بمبئی میں اپنی تازہ کتاب کی رونمائی کے لئے گئے تھے۔ قصوری صاحب ایک معتدل مزاج انسان ہیں۔ ان میں کسی قسم کا تعصب یا عصبیت نام کو نہیں ہے۔بحیثیت وزیرخارجہ انہوںنے پاکستان اور بھارت کے مابین ہمسائیگی کے اچھے تعلقات بحال کرنے میں نمایاں خدمات انجام دی تھیں ۔ آج بھی ان کا یہ استدلال ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے تمام ایشوز پر کھلے دل سے بات چیت کرنی چاہئے، جن میں کشمیر کامسئلہ بھی زیر بحث آنا چاہئے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ مشرف صاحب اور قصوری صاحب کی کوششوں سے کسی حد تک کشمیر کا مسئلہ حل ہونے والا تھا۔ اس دوران مشرف صاحب کی چھٹی ہوگئی، چنانچہ جب قصوری صاحب اپنی کتاب کی رونمائی کے لئے بمبئی پہنچے تو شو سینا نے پہلے تو ان کے میزبان کو قتل کی دھمکیاں دیں لیکن جب وہ ان دھمکیوں میں نہیں آئے تو ان کے چہرے پر کالک مل دی گئی لیکن اس کے باوجود وہ خوف زدہ نہیں ہوئے اور اسی کالک کے ساتھ انہوںنے قصوری صاحب کا پروگرام کیا جو خاصا کامیاب بھی رہا۔دراصل جو کالک بھارتی میزبان کے چہرے پر ملی گئی تھی، وہی چہرہ اب بھارت کا بن چکا ہے، جس کی تمام تر ذمہ داری بی جے پی کے انتہا پسند بھارتی وزیراعظم نریندرمودی پر عائد ہوتی ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بی جے پی کا سابق وزیراعظم واجپائی پاکستان یا پھر بھارت میں بسنے والے چوبیس کروڑ مسلمانوں کا اتنا دشمن نہیں تھا، جتنا مودی ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کو تباہ کرنے کے سلسلے میں پروگرام بناتا رہتا ہے۔ قصوری صاحب کی طرح ایک اور واقعے کا تعلق مشہور گلوکار غلام علی سے بھی ہے، وہ بھی بمبئی میں اپنا شو کرنا چاہتے تھے، ان کی میزبان نے اس سلسلے میں تمام تیاریاں مکمل کرلی تھیں لیکن شو سینا نے اس ضمن میں ہنگامہ کھڑا کردیا اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ غلام علی کا یہ شو نہیں ہونا چاہئے، لااینڈآرڈر کے بگڑ جانے کے خدشے کی وجہ سے غلام علی کا یہ شو نہیں ہوسکا، جس کا بمبئی والوں کو بے حد افسوس رہا۔ بہر حال دہلی میں یہ شو ممکن ہوسکا جہاں کچھ اعتدال پسند لوگوں نے اپنی ذمہ داری پر غلام علی کا شو کرایا ۔
بالائی سطور میں، میں نے جن حقائق کا اظہار کیا ہے ، ان کا مطلب صرف یہ ہے کہ اب بھارت تیزی سے ہندو ازم کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کو اس طرف دھکیلنے میں بی جے پی ، شوسینا اورآر ایس ایس کے علاوہ دیگر انتہا پسند تنظیموں کا ہاتھ ہے، جو گہری حکمت عملی کے تحت بھارت کو ان افکار سے دور لے جانا چاہتے ہیں، جس کی بنیادگاندھی جی اور پنڈت نہرو کے علاوہ ان کے دیگر ساتھیوں نے رکھی تھی۔ بھارت میں تیزی سے پھیلتے ہوئے انتہا پسند مذہبی جنون کی وجہ سے بھارت کے اندر رہنے والی تمام اقلیتیں معاشی طورپر کمزور ہوتی جارہی ہیں بلکہ خوف زدہ بھی ہیں جو کہ خود بھارت کی معاشی ترقی کے پس منظر میں انتہائی تشویش کی بات ہے۔ بھارت کا اب انتہا پسندی کے پس منظر میں کالک لگا ایسا چہرہ سامنے آرہا ہے، جو ان افراد کے لئے صدمہ کا باعث ہے، جو بھارت کے بارے میں اچھے گمان رکھا کرتے تھے۔ اب یہ تمام خوشی گمانیاں غائب ہورہی ہیں، تاہم سوال یہ ہے کہ کیابھارت دوبارہ اس راہ پر گامزن ہوسکے گا، جس کی بنیاد اس ملک کے Founding Fatherنے رکھی تھی۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہوسکے گا۔ دھرم کو استعمال کرکے بھارت میں بی جے پی نے اقتدار حاصل کیا تھا، اب وہ مذہب کو اور زیادہ استعمال کرکے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کوشش کررہی ہے، اس افسوسناک پس منظر میں بھارت کے اندر بسنے والی دیگر اقلیتوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے، خاص طورپر مسلمانوں کا جن کی دشمنی میں بھارتی وزیراعظم اندھے ہو چکے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved