دسمبر2004 ء میں امریکن نیشنل انٹیلی جنس کونسل نے سی آئی اے کی ایک رپورٹ جاری کی‘ جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ '' ایٹمی ہتھیاروں کے ڈیزائن میں آسانیاں پیدا کر دینے سے دہشت گرد جوہری ہتھیار بنانے کیلئے خام ایٹمی مواد حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں‘‘ اس رپورٹ کا شارہ روس اور پاکستان کی جانب تھا کہ ان کے ایٹمی ہتھیار چوری یا خریدے جا سکتے ہیں۔یہ رپورٹ دینے والی سی آئی اے‘ سب سے بہتر جانتی ہے کہ ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کیلئے ضروری ٹیکنالوجی اور مواد بلیک مارکیٹ میں بڑی آسانی سے دستیاب ہیں لیکن ان کا مقصد چونکہ صرف پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے بغض ہے اس لئے ان کی ہر رپورٹ‘ ہر خبر کی ابتدا اور انتہا ''پاکستان کی ایٹمی صلاحیت‘‘ کے غصے پر ہی آ کر رکتی ہے۔ یہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے؛ البتہ جوں ہی جنرل اسمبلی کا اجلاس اور وزیر اعظم پاکستان کا دورۂ امریکہ قریب آیا تو اس موضوع پر پھر سے حاشیہ آرائی ہونے لگی۔
سی آئی اے سمیت اب تک دوسری سب رپورٹیں اور خبریں انتہائی متنازع اور زمینی حقائق کے منافی ہیں۔ پاکستان کے سٹرٹیجک اثاثے کسی غلطی کے امکان سے مبرا کنٹرول میں اور مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات انتہائی تربیت یافتہ اور با اعتماد فوجی کمانڈو یونٹوں کی نگرانی میں ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون سے بہت پہلے ‘فروری 2000ء میں ایک بہت ہی اچھا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم وضع کر لیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ بائیس اکتوبر سے شروع ہونے والے وزیراعظم کے دورۂ امریکہ کے دوران پاکستان کے ان چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کی بات ایجنڈے میں سرفہرست ہے جو کسی بھی روایتی جنگ میں پاکستان کا خطرناک ترین ہتھیار ہیں اور جو اب تک لاکھ خواہشوں کے با وجود بھارت کو پاکستان کی جانب بڑھنے سے روکے ہوئے ہیں۔ انہی ہتھیاروں سے بھارت کو سب سے زیا دہ تکلیف ہے ۔
گزشتہ پچیس سا لوں سے دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی اولین ایٹمی قوت پاکستان، مغرب کے ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو گائوں کے بیچ نصب پانی کے نلکے کی مانند دکھائی دیتی ہے کہ جب بھی کوئی چاہے گا پانی بھر کر لے جائے گا‘ یہی وجہ ہے کہ ہمہ وقت اس کے چھین لئے جانے اور گم ہوجانے کی کہانیاں خوفناک خوابوں کی صورت میں سب کو ڈراتی رہتی ہیں۔ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ نے اپنے ایک انٹر ویو میںکہا تھا کہ پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا دنیا بھر کیلئے درد سر بن چکا ہے ۔ نیویارک ٹائمز نے اپنے واشنگٹن کے چیف کارسپانڈنٹ ڈیوڈ ای سینگر کی ایک کتاب''THE INHERITANCE: THE WORLD OBAMA CONFRONTS AND THE CHALLENGES TO AMERICAN POWER'' کے ایک باب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار اور وارہیڈز لے جانے والے ایٹمی میزائل دنیا کے امن کیلئے خطرہ بنتے جا رہے ہیں جو کسی بھی وقت القاعدہ جیسی دہشت گرد عالمی تنظیم کے قبضے میں جا سکتے ہیں۔ پشاور بڈھ بیرکا واقعہ ہوتے ہی سب نے پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہونے کا ایک بار پھر شور مچا نا شروع کر دیا۔ بد قسمتی سے پاکستان میں جب بھی دہشت گردی کی کوئی کارروائی ہوتی ہے‘ دنیا بھر کی قوموں کے درمیان جاری تہذیبوں کی جنگ روکنے پر کروڑوں ڈالر خرچ کرنے والے‘ یک دم مغربی طالبان کا روپ دھارتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مقابل‘ خم ٹھونک کر کھڑے ہو جا تے ہیں۔ ان لوگوں کا صحافتی چھچھورا پن عقل و خرد سے عاری شخص سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان میڈیا گروپوں میں نفسیاتی مریضوں کو لا کر بٹھا دیا گیا ہے۔ 27دسمبر2007ء کی شام جب محترمہ بے نظیر بھٹو لیاقت آباد راولپنڈی بم دھماکہ میںشہید ہوئیں تو TIMEجیسے مشہور میگزین نے اپنے 14 جنوری2008ء کے شمارے کے ٹائٹل پرسائمن رابنسن کیNO ONE COULD SAVE BENAZIR BHUTTO WHY WE NEED TO SAVE PAKISTAN'' کے عنوان سے کور سٹوری چھاپی‘ قارئین یہ تحریر پڑھ کر سخت حیران ہوئے کہ یہ الفاظ لکھتے ہوئے ٹائمز کی انتظامیہ اور ان کا ادارتی عملہ یہ کیوں بھول گیا تھاکہ جب امریکہ کی مصروف ترین سڑکوں پر آپ لوگ اپنے صدر جان ایف کینیڈی کی حفا ظت نہیں کر سکے تو پھر آپ دنیا کی قیا دت کا نعرہ کس منہ سے لگاتے ہیں۔ مقبول ترین امریکی صدر کے قتل کے چند گھنٹے بعد صدر کینیڈی کے قاتل اوسوالڈ کو‘ پولیس اور سی آئی اے کی حفاظتی تحویل میں ہونے کے با وجود جیکب روبی کے ہاتھوں قتل سے نہ بچایا جا سکا‘ توآپ ایٹمی اثاثے کیسے محفوظ گردانے جا سکتے ہیں؟۔
نیو یارک ٹائمز ‘ واشنگٹن پوسٹ اور وال سٹریٹ جرنل سمیت سب میڈیا گروپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آپ کے صدر ریگن پر امریکہ ہی کی سڑکوں پر دن دہا ڑے گولیوں کی بارش کی گئی تھی جس سے وہ زخمی ہوگئے تھے تو کیا آپ سے یہ کہنا منا سب ہو گا کہ امریکی اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت نہیں کر سکتے ؟۔ 9/11 کے سانحہ میں ٹون ٹاور اور پینٹاگان کے ایک حصے کی تباہی تو سب کے سامنے ہے۔ اسرائیل جس کی حفاظت کیلئے امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور پورا یورپ ایک ساتھ کھڑا ہے۔ اسرائیل جس کی موساد کے دنیا بھر میں چرچے ہیں۔ کیا اسی اسرائیل کے صدر اسحاق رابن کو ان کی سر زمین پر دن کی روشنی میں قتل نہیں کیا گیا ؟۔ کیا اس طرح اسرئیل کی تمام ایجنسیاں ناکام نہیں ہوئی تھیں؟۔ کیا اسرائیل ایٹمی قوت نہیں ہے؟۔ برطانیہ میں کئی سال آئر لینڈ لبریشن آرمی نے پورے برطانیہ میں بم دھماکو ں کا طوفان مچائے رکھا‘ کیااس سے یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ برطانوی سکیورٹی کمزور ہونے کی وجہ سے ان کے ایٹمی اثا ثے غیر محفوظ تھے؟۔جرمنی ، فرانس، برطانیہ،امریکہ اور یورپ کے دوسرے ملکوں کا میڈیا اور ان کے اپنے بنائے گئے تھنک ٹینکس ایک ہی واویلا کیے جا رہے ہیں کہ راولپنڈی جو پاکستان کا گیریژن شہر ہے وہاںصدر اور وزیر اعظم سمیت فوج کے جرنیل بھی محفوظ نہیں ہیں اور اسی راولپنڈی میں آرمی کے لیفٹیننٹ جنرل مشتاق کو خود کش دھماکے میں اڑا دیا جاتا ہے اور اسی کے لیاقت با غ میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو بم دھماکہ سے دن دہا ڑے قتل کر دیا جا تا ہے لیکن کیا یہ تھنک ٹینک بتانا پسند کریں گے کہ جب بھارت کی بر سر اقتدار وزیر اعظم اندرا گاندھی کو دن دہاڑے دہلی کے وزیر اعظم ہائوس میں ہی قتل کیا گیا تھا تو کیا اس وقت بھارت ایٹمی قوت نہیں تھا؟ کیا دہلی گیریژن ٹائون نہیں تھا؟۔
پچھلے سال ستمبر میں جب نئی دہلی میں ایک ساتھ تیس دھماکے ہوئے تو کیا اس وقت دہلی گیریژن ٹائون نہیں تھا؟۔ جب بھارت کے ایک اوروزیر اعظم راجیو گاندھی کو ایک ہندو تامل نے خود کش حملے میں قتل کیاتو کیا اس وقت بھارت ایٹمی قوت نہیں تھا؟۔ اس وقت دنیا بھر میں پھیلے کسی ایک تھنک ٹینک نے کہا تھا کہ بھارتی ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہیں؟۔ بھارتی حکومت اور میڈیا کی رپورٹس کے مطا بق 26/11کو صرف دس مسلح لوگوں نے پورے ممبئی کو یرغمال بنا لیا‘ وہ ممبئی جہاں بھارت کابہت بڑابحری اڈہ ہے۔ اگر ممبئی کا نقشہ دیکھیں تو اوبرائے ہوٹل ، تا ج محل ہو ٹل اور نریمان ہائوس سمیت وکٹوریہ ٹرمینل ایک دوسرے کی مخالف سمتوںمیں واقع ہونے کے با وجود بھارت کے سات سے زیا دہ قانون نا فذ کرنے والے اداروں کے ہزاروں لوگ ان دس افراد کے سامنے بے بس تھے اور ان دس لوگوں نے ممبئی کے تین سب سے بڑے ہوٹل، مشہور شیوا جی ریلوے ٹرمینل سمیت سات اہم ترین جگہوں پر پورے ساٹھ گھنٹے قبضہ کیے رکھا۔ کیا کسی ایک بھی امریکی‘ یورپی یا بھارتی میڈیا نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر دس لوگ پورے ممبئی کو یر غمال بنا سکتے ہیں تو وہاں سے چند میل کے فا صلے پر واقع بھا بھا ایٹمی پلانٹ کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے؟!!