تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     21-10-2015

دن دہاڑے ایک سو نوے ارب روپے کا ڈاکہ!

جناب اسحاق ڈار اور آڈیٹر جنرل رانا اسد امین جس ڈرافٹ آڈٹ رپورٹ کو چھپائے بیٹھے تھے وہ مرے ہاتھ لگ گئی۔ ہو سکتا ہے کہ میرے ہاتھ نہ لگتی، تو کبھی منظر پر نہ آتی۔اس رپورٹ کو چھپانے کے پیچھے ایک خوفناک کہانی ہے۔ 
سابق آڈیٹر بلند اختر رانا کو 2013ء میں پتہ چلا کہ وزارت خزانہ نے چپکے سے چار کھرب اسی ارب روپے کی ادائیگیاں سٹیٹ بنک کے ذریعے آئی پی پیز اور دیگر اداروں کو کر دی تھیں جو غیرقانونی تھا۔ ضروری تھا کہ وہ بل اکائونٹنٹ جنرل پاکستان کو جاتے۔ ان کا پری آڈٹ ہوتا اور پھر ادائیگی ہوتی لیکن اس سارے عمل کو ختم کر کے ادائیگیاں کی گئیں۔ اس پر بلند اختر رانا نے سٹیٹ بینک کی انکوائری شروع کی، وہ بھلا چار کھرب اسی ارب روپے بغیر پری آڈٹ کیسے دے سکتے تھے۔ اس وقت ان تمام معاملات کو وزارت فنانس میں اسحاق ڈار کے مشیر رانا اسد امین دیکھ رہے تھے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر ملازم ہو گئے ۔ سوچا گیا کہ اگر چار سو اسی ارب کے آڈٹ سے بچنا ہے تو فوری طور پر بلند اختر رانا کو ہٹایا جائے۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے ممبران شامل تھے۔ بلند اختر رانا کو اس بات پر ہٹوا دیا گیا کہ انہوں نے اپنی تنخواہ میں چند ہزار روپے کا اضافہ غیرقانونی طور پر کیا تھا ۔ جنہوں نے چار سو اسی ارب روپے کسی پوچھ گچھ اور بلوں کی چیکنگ کے بغیر ادا کیے، انہیں کسی نے نہیں پوچھا اور جس نے چند ہزار روپے اپنی تنخواہ بڑھائی اسے برطرف کر دیا گیا۔
اس کے بعد اسحاق ڈار رانا اسد امین کو آڈیٹر جنرل کی سیٹ پر لائے؛ تاہم جانے سے پہلے بلند اختر رانا آڈٹ کا حکم دے گئے تھے۔ اب وہ چلے گئے تو اسد امین کو وہ رپورٹ پیش کی گئی کہ وہ اسے منظور کر کے پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بھجوا دیں۔ اس پر رانا اسد امین کانپ گئے کیونکہ براہ راست اس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چار سو اسی ارب روپے میں سے ایک سو نوے ارب روپے کی ادائیگیاں درست نہیں ہیں۔ یعنی گھپلا ہے۔ اس رپورٹ پر اسحاق ڈار، سیکرٹری ڈاکٹر وقار مسعود، وزارت پانی و بجلی کے اعلیٰ حکام، سٹیٹ بینک کے سابق گورنر اور سب سے بڑھ کر رانا اسد امین خود اس میں پھنستے ہیں ۔ لہٰذا یہ رپورٹ دبانے کا فیصلہ ہوا۔ تاہم یہ ڈرافٹ رپورٹ میرے ہاتھ لگ گئی۔ اس میں جو انکشافات کیے گئے ہیں وہ آپ کو بھی ہلا کر رکھ دیں گے۔ 
اس رپورٹ کے مطابق ایک معاہدے کے تحت آئی پی پیز پر 23 ارب روپے کا جرمانہ تھا کیونکہ وہ وقت پر بجلی نہیں دے سکی تھیں۔ جب ان آئی پی پیز کو ادئیگیاں کی گئیں تو اس وقت اسحاق ڈار نے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری اور حکم ہوا کہ ان کمپنیوں کو 23ارب روپے جرمانہ معاف کر دیا جائے۔ جب کہ دوسری طرف وزارت خزانہ نے بجلی خریدے بغیر IPPsکو ساڑھے 32ارب روپے ادا کردیئے۔ اس طرح معاہدے کے تحت آئی پی پیز خود ہی تیل خرید کر بجلی پیدا کر کے حکومت کو بیچتیں۔ تاہم آئی پی پیز نے خود تیل نہ خریدا اور بجلی کم پیدا کی۔ ان پر جرمانے کی بجائے الٹا حکومت پاکستان نے انہیں پونے3ارب کی ادئیگی کر دی۔ معاہدے کے مطابق تیل فراہم کرنا IPPsکی ذمہ داری تھی نہ کہ حکومت کی۔ معاہدہ کے مطابق بجلی نہ دے سکنے پر IPPsکی جواب دہی ہونا چاہئے تھی نہ کہ پونے3ارب دیے جاتے۔ اس طر ح میٹرنگ کمیٹی کی جانب سے ڈیٹا کی عدم فراہمی کے باوجود ساڑھے4ارب روپے ادا کئے گئے۔
میٹر ریڈنگ طے شدہ قانونی طریقوں سے ہٹ کر کی گئی،جس سے ادائیگیوں میں بے ضابطگیاں ہوئیں،میٹر ریڈنگ سسٹم میں بجلی کی ادائیگیوں میں 16ارب روپے کا فرق سامنے آیا۔میٹر ریڈنگ رپورٹس میں نقائص کے باوجود اربوں کی ادائیگیاں کرنا خلاف قانون ہے۔یونٹس کی پیمائش کیلئے مین میٹرنگ سسٹم پر انحصار کیا گیا جس سےIPPsکو ناجائز فائدہ پہنچایا گیا۔
چند مزید انکشاف ملاحظہ ہوں:۔ 
٭IPPs کو ادائیگیوں کیلئے ڈالرکا زیادہ ریٹ استعمال کر کے ساڑھے8 کروڑ روپے کی زائد ادائیگی کی گئی۔ حکومت نے معاہدہ کی خلاف ورزی کے باوجود IPPsکو 41ارب اضافی دئے۔ آئی پی پیز نے گیس کی بجائے ہائی سپیڈ ڈیزل سے بجلی پیدا کر کے سوا35ارب روپے کا نقصان کیا ۔ IPPsنے گیس کی بجائے بچے کھچے تیل سے بجلی پیدا کر کے سوا6ارب روپے کا نقصان کیا۔ معاہدہ کے مطابق گیس سے بجلی پیدا کر کے ساڑھے41ارب روپے بچائے جا سکتے تھے۔ گیس کی بجائے آئل سے بجلی فی یونٹ ساڑھے8روپے مہنگی پیدا ہوئی۔
٭ حکومت نے آئی پی پیز کو جنرل سیلز ٹیکس بھی دیا ۔ آئی پی پیز نے جنرل سیلز ٹیکس کی ادائیگی کا نہ کوئی ثبوت دکھایا نہ ہی کوئی چالان۔ آئی پی پیز کو جنرل سیلز ٹیکس واپسی کی مد میں بغیر ثبوت دکھائے پونے18ارب روپے ادا کئے گئے۔
٭آئی پی پیز کو''اوپن سائیکل لاگت‘‘ کی مد میں سوا26کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی۔ 
٭آڈٹ رپورٹ میں آئی پی پیز کو ادایئگیوں کیلئے SOPsنہ ہونے کا انکشاف۔
٭ SOPsکی بجائے افسران کی اہلیت پر انحصار کیا جا رہا ہے۔
٭انرجی کا آڈٹ نہ ہونے سے بھی بجلی کی مجموعی پیداوار میں کمی ہوتی ہے۔انرجی آڈٹ ہوتے رہتے تو پاور پلانٹس کی کارکردگی بڑھتی۔
٭گزشتہ چند سال میںIPPsکی مجموعی پیداوار میں 246میگاواٹ کی کمی ہوئی ہے۔
٭آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں ''نقائص ‘‘کے باعث اربوں کی ادائیگی کرنا پڑی۔
٭آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے گردشی قرضہ بڑھانے کا باعث۔
٭معاہدہ کی ایک شق کے مطابق ایک کمپنی ہے جس کے بل میں14روز کی تاخیر کے بعد سود لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ معاہدہ میں ایک ناقص شق کی وجہ سے سود کی مد میں اس کمپنی کوپونے11ارب روپے ادا کئے گئے۔ عام حالات میں جو سود 40روز بعد شروع ہوتا ہےIPPsکیلئے26دن پہلے کیوں؟
٭کنٹریکٹ میں '' اضافی چارجز ‘‘کی شق کی وجہ سے ساڑھے5ارب کا نقصان ہوا۔
٭ ''سپلیمنٹل چارجز‘‘ نامی شق معاہدہ میں IPPs کوبلاجواز فائدہ دینے کیلئے شامل کی گئی۔
٭آئی پی پیز سے پیدا ہونے والی فی یونٹ بجلی کی لاگت ہائڈل پراجیکٹس اور 'جنکوز‘ کی نسبت بہت مہنگی۔
٭ہائڈل پراجیکٹس کی بجلی فی یونٹ ڈیڑھ روپے جبکہ IPPsکی فی یونٹ لاگت 19روپے بنی جو کہ بہت ہی مہنگی ہے۔
٭گیس کی خریدوفروخت کے معاہدوں میں تجدید نہ کر کے پونے29ارب غیر قانونی طور پر ادا کئے گئے۔
٭غیر قانونی طور پراصلی بلوں کی بجائے فوٹو کاپیوں پرساڑھے18ارب کی ادائیگی کی گئی۔آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے معاہدہ کے مطابق بل اصلی اور اس پر مجاز افسر کے دستخط ہونا چاہئیں۔
٭ 'پبلک پروکیورمنٹ رولز‘ کی خلاف ورزی کر کے سوا ارب روپے کا نقصان کیا گیا۔
٭سفری اخراجات کی شکل میںسوا ارب زائد لگا دیئے۔ فنانس ڈویژن نے 25ارب روپے گردشی قرضہ ایڈجسٹمنٹ کے بلز بھی فراہم نہ کئے۔ 25ارب روپے کہاں لگے،کوئی نہیں جانتا۔
٭آئی پی پیز نے جو مانگا ، ''تجربہ کار ٹیم‘‘ نے اس سے زیادہ دے دیا اور یوں بجلی کے بھاری بل بھیج کر لوگوں کی جانیں لینے والی حکومتIPPsکے سامنے بے بس ہو گئی اور عوام کی جیبوں سے نکالا گیا پیسہ بغیر آڈٹ کے IPPsپر نچھاور کر دیا گیا۔ آئی پی پیز کو تاخیر سے ادائیگیوں کی وجہ سے پونے32ارب روپے زائد ادا کئے گئے۔
٭ آئی پی پیز نے گیس کی بجائے ہائی سپیڈ ڈیزل سے بجلی پیدا کر کے سوا35ارب روپے کا نقصان کیا ۔
٭IPPsنے گیس کی بجائے بچے کھچے تیل سے بجلی پیدا کر کے سوا6ارب روپے کا نقصان کیا۔
٭معاہدہ سے ہٹ کرIPPsکوسوا کروڑ روپے کی بوگس ادائیگیاں کی گئیں۔
٭ 'معاہدہ ‘کے بر خلاف ملازمین اور غیر قانونی افراد کو سوا ایک کروڑ روپے ادا کئے گئے۔
٭گزشتہ چند سال میںIPPsکی مجموعی پیداوار میں 246میگاواٹ کمی ہوئی ہے۔
٭آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں ''نقائص ‘‘کے باعث اربوں کی ادائیگی کرنا پڑی۔
٭کنٹریکٹ میں '' اضافی چارجز ‘‘کی شق کی وجہ سے ساڑھے5ارب کا نقصان ہوا۔ 
٭ ہائڈل پراجیکٹس کی بجلی فی یونٹ ڈیڑھ روپے جبکہ IPPsکی فی یونٹ لاگت 19روپے۔
چھیالیس صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں ایسے ایسے انکشافات کیے گئے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کیسے برباد کیا جارہا ہے۔ ایک طرف 50 کروڑ ڈالر کے یورو بانڈزپر مہنگا ترین قرضہ لیا جاتا ہے جس پر 40 کروڑ ڈالرز کا سود ہوگا ۔ ایک طرف بھاری سود پر قرضے اور دوسری طرف آئی پی پی ایز کو اٹھارہ ارب روپے کی ادائیگی فوٹو کاپی بلوں پر کی گئی۔ تاخیر سے ادائیگی کے نام پر الٹا آئی پی پیز کو بتیس ارب روپے جرمانہ بھی ادا کیا گیا اور سونے پر سہاگہ یہ کہ آئی پی پیز کے ذمے واجب الاد ااٹھارہ ارب روپے جرمانہ بھی معاف کر دیا جاتا ہے۔ یہ ہیں تجربہ کار لیڈرز اور ان کی استادیاں۔۔کر لیں جو آپ نے کرنا ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved