تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     21-10-2015

یادیں

اس کے جانے کے بعد وقت کا سارا تصور اور مفہوم ہی بدل گیا ہے۔ آج اسے رخصت ہوئے پورے تین سال گزر گئے ہیں لیکن یہ تین سال ایسے تھے کہ جس میں ہر سال تین سو پینسٹھ دن پر تو ہر گز مشتمل نہیں تھا۔ کبھی لگتا ہے کہ یہ تین سال اتنے لمبے اور طویل ہیں کہ اس کے ساتھ گزارے ہوئے چھبیس سال چھ ماہ اور سترہ دن کا عرصہ ان کے سامنے پل دو پل کا عرصہ محسوس ہوتا ہے اور کبھی لگتا ہے کہ وہ درس قرآن پر گئی ہے اور آنے والی ہوگی۔ ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ میں اس کے بستر کی بائیں طرف اس کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا اور ڈاکٹر نے اس کے منہ پر لگا ہوا آکسیجن کا ماسک اتارا اور اپنا سٹیتھو سکوپ کانوں سے اتار کر گلے میں لٹکا لیا۔ مجھے تو کچھ ...سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ اتنی جلدی میں کیا ہو رہا ہے، وہ تو جب کومل کمرے کی دیوار کے ساتھ لگ کر خاموشی سے ہچکیاں لینے لگی تب مجھے سمجھ آیا کہ کھیل ختم ہو گیا ہے۔ جانے والا آپ کے جتنا قریب ہو، اس کی رخصتی کا یقین اتنی ہی دیر سے آتا ہے۔
ڈاکٹر پاشا نے 19اکتوبر کو مجھے کہا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم کومل کا نکاح ادھر ہسپتال میں کر دیں؟ میں نے حیرانی سے ڈاکٹر پاشا سے پوچھا کہ ایسی کیا بات ہے کہ ہم اس کا نکاح اس افراتفری میں ہسپتال میں کر دیں۔ بس آج سے اکیس دن بعد اس کا نکاح ہے۔ اگلے دن رخصتی ہے۔ پاشا خاموش ہو گیا۔ میں نے اس سے پوچھا کیا فرزانہ کی حالت اتنی خراب ہے؟ وہ ایک دم ڈاکٹر سے دوست بن گیا اور کہنے لگا نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں، بس میں ویسے ہی کہہ رہا تھا کہ شاید ایسا کرنے سے بھابی خوش ہو جائیں گی۔ میں نے کہا اگر اس کو یہ احساس ہوا کہ یہ نکاح قبل از وقت اس لیے کیا جا رہا ہے کہ شاید اس کے پاس اب وقت نہیں ہے تو وہ خوامخواہ پریشان ہو جائے گی۔ پتہ نہیں اس کے دل میں کیسے کیسے خیال آئیں۔ پاشا نے آہستہ سے کہا ہاں یہ بات تو ہے۔ یہ کہہ کر وہ اوپر والی منزل کی طرف چل پڑا جہاں اس کا کمرہ تھا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ در اصل مجھے مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اگر وہ مجھے سچ بتا دیتا تو شاید میں اس سے وہ باتیں کر لیتا جو میں اس سے نہ کرنے کا ملال اب تک دل میں لیے پھرتا ہوں۔ تا ہم یہ میرا خیال ہے کہ شاید میں اس سے وہ باتیں کہہ پاتا۔ ممکن ہے میں اگر حقیقت جانتا تب بھی اس سے وہ باتیں نہ کہہ پاتا کہ اسے یہ احساس دلانا میرے لیے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ جا رہی ہے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ اس کے جانے سے محض چند منٹ پہلے تک میرے دل میں کبھی گمان بھی نہیں آیا تھا کہ وہ اس بار ہسپتال سے گھر اس طرح واپس آئے گی کہ سب تکلیفوںسے آزاد ہو چکی ہو گی۔ موت بر حق ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ میرے دل سے موت کا خوف نکالنے میں دو عورتوں نے بنیادی کردار انجام دیا ہے۔ موت کی تکلیف اور دم نکلنے کا مرحلہ اتنا آسان بھی ہو سکتا ہے؟ کوئی اتنی آسانی اور سہولت سے جان دے سکتا ہے؟ پہلے میں اس سوال کا جواب شاید نہ دے سکتا مگر اب دے سکتا ہوں۔ ہاں، جان اس طرح سہولت اور آسانی سے دی جا سکتی ہے۔ جیسے میری ماں نے دی تھی، میری اہلیہ نے دی تھی۔ عطار کی دکان کے باہر فقیر نے صدا لگائی کہ اللہ کے نام پر کچھ دے دو۔ عطار نے اندر سے کہا کہ دیکھتا نہیں میں مصروف ہوں۔ فقیر نے کہا اگر تو اتنا مصروف ہے تو اللہ کو جان کیسے دے گا؟ عطار نے کہا میں اللہ کو جان ویسے ہی دوں گا جیسے تو دے گا۔ فقیر نے کہا اچھا تو یہ بات ہے۔ تو میری طرح جان دے گا؟ میری طرح؟ اچھا! ایسی بات ہے تو دے کر دکھا۔ یہ کہہ کر فقیر عطار کی دکان کے تھڑے پر لیٹا اور کہنے لگا۔ اب میری طرح جان دے کر دِکھا۔ عطار نے دکان کے تھڑے پر پڑے ہوئے بے حس و حرکت فقیر کی نبض دیکھی، سینے پر کان رکھ کر دھڑکن سننا چاہی، کچھ ہوتا تو ملتا۔ عطار نے بھری دکان چھوڑی اور پھر دکان میں دوبارہ قدم نہ رکھا۔ اسے سمجھ آ چکی تھی کہ حقیقت کیا ہے۔ یہ فریدالدین عطار تھے۔ میری ماں نے اور اہلیہ نے اس طرح تو جان نہیں دی تھی مگر ایسی ہی سہولت سے دی تھی۔ چند منٹ پہلے تک ہمیں تسلی اور حوصلہ دیتے ہوئے۔ جانے سے تھوڑ دیر پہلے کومل کی آنکھوں میں آنسوئوں کی جھلک نظر آئی تو مسکرا کر کہنے لگی، بزدل ڈاکٹر۔ پھر اپنی بات پر خود ہی اتنی بے ساختگی سے ہنسی کہ اردگرد موجود پریشان چہروں پر مسکراہٹ آ گئی۔
جب کوئی کہتا ہے کہ عادتیں تبدیل نہیں ہو سکتیں تو میں دل میں ہنس پڑتات ہوں۔ بھلا عادتیں چھوڑنا کیا مشکل ہے، بس ایک لمحے کی بات ہے، آپ سوچتے ہیں اور عادتیں بدل جاتی ہیں۔ جیسے میں نے اپنی عادتیں بدلی ہیں۔ میں نے تو اپنی عادتیں بدلنے کی قیمت ادا کی ہے اور وہ بھی بہت بڑی، لیکن اگر میں چاہتا تو ان عادتوں کو پہلے بھی بدل سکتا تھا مگر ہمیشہ اسی غلط فہمی میں رہا کہ بھلا عادتیں کب تبدیل ہوتی ہیں؟ اب میں ویسا ہوں جیسا وہ چاہتی تھی بلکہ وہ تو اتنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ اس سے کہیں کم، جیسا کہ میں اب ہوں۔ اب میں وہ بھی جانتا ہوں جو اس نے کبھی کہا نہیں تھا مگر ملال یہ ہے کہ اس کام میں بڑی دیر کر دی۔ میں نے کیا دیر کر دی؟ سب نے ہی دیر کر دی۔ اسے کومل کی شادی کا شوق تھا۔ وہ اس کے جانے کے بیس دن بعد ہوئی۔ اسے سارہ کے رزلٹ کا انتظار تھا۔ اس نے ماں کے جانے کے بعد یونیورسٹی میں ٹاپ کیا۔ اسے انتظار تھا کہ اسد کب میرے جتنا اونچا ہو گا۔ اسد مجھ سے اونچا ہو گیا ہے لیکن اس کام میں بھی تھوڑی دیر ہو گئی۔ میں اب ویسا ہوں جیسا وہ چاہتی تھی مگر اس کام میں بھی دیر ہو گئی۔ صرف یہی کیا، ہر کام میں دیر ہو گئی۔
میں اب بھی سفر میں رہتا ہوں۔ پہلے یہ میرا شوق تھا، اب میں دل بہلانے کے لیے، دل لگانے کے لیے سفر کرتا ہوں۔ دل لگتا تو نہیں مگر کوشش کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔
جانے سے دس روز قبل گیارہ اکتوبر کو وہ مجھے تنور سے روٹیاں لینے کے بہانے گھر سے باہر لے گئی۔ گزشتہ ایک سال سے وہ میرے ساتھ وہاں بھی جانے لگی تھی جہاں وہ پہلے نہیں جاتی تھی جیسے کتابوں کی دکان، جہاں جا کر میںگم ہو جاتا تھا۔ مگر اب وہ وہاں بھی میرے ساتھ جاتی تھی اور باہر گاڑی میں بیٹھی رہتی تھی۔ واپسی پر دیر ہو جائے تو گلہ بھی نہیں کرتی تھی۔ تنور سے واپسی پر پہلے جوس کی دکان پر رک گئی۔ پھر اس نے مجھے کچھ سمجھانے اور بتانے کی کوشش کی کہ مجھے اس کے بغیر کیا کچھ کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ یہ بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ وہ مجھے چیزوں کے بارے سمجھانا چاہتی تھی مگر میری حیرانی دیکھ کر وہ پہلی بار روئی، گاڑی کے ڈیش بورڈ پر سر رکھ کر اس نے مجھ سے ایک فرمائش کی۔ میں نے انکار کر دیا۔ وہ کہنے لگی میں آپ کی مشکلوں کے بارے سوچ رہی ہوں جس کا آپ کو اندازہ نہیں۔ یہ کہہ کر اس نے ڈیش بورڈ سے سر اٹھایا۔ چادر سے آنکھیں صاف کیں اور کہنے لگی مجھے آپ کے لیے آسانیوں کی فکر ہے۔ پھر وہ ہمیشہ کی طرح مسکرائی اور کہا، آپ کو تو زندگی بھر اندازہ نہیں ہوا مگر مجھے پتہ ہے کہ آپ کتنے سست، کاہل اور کام چور ہیں۔ میں نے مسکرانے کی کوشش کی مگر مجھ سے یہ مشکل کام نہ ہو سکا۔ اس نے دوبارہ کہا اور میں نے دوبارہ انکار کر دیا۔ وہ خاموش ہو گئی۔ گھر تک ہم خاموش رہے۔ واپس گھر پہنچ کر وہ بیڈ روم میں چلی گئی اور میں لائبریری میں چلا گیا۔ رات گئے میں بیڈ روم میں گیا تو اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ پھر ہماری اس موضوع پر دوبارہ بات نہیں ہوئی۔ اس نے مجھے کچھ سمجھانے کی دوبارہ کوشش ہی نہ کی۔ اگلے چھ روز وہ اتنی ہی نارمل اور خوش باش تھی جتنی کہ سدا سے تھی۔ چھ روز بعد ہم اسے ہسپتال لے گئے۔ میں نے اس روز امریکہ روانہ ہونا تھا۔ اس بار ہسپتال میں اس کا قیام مختصر رہا۔ محض چار روز، پھر یہ سارا معاملہ ہی ختم ہو گیا۔
تین سال اسی ایک سوال کا جواب تلاش کرتے گزر گئی کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ ...حکم ربی اور قانون قدرت اٹل ہیں اور کسی کو اس سے نہ مفر ہے اور نہ رعایت۔ مگر سوال کیا ہے؟ اور مصیبت یہ ہے کہ جس چیز کو سوچ سے کھرچنا چاہیں وہ اور بری طرح سے چپک جاتی ہے۔ اسی ایک سوال کی طرح۔ کینیڈا میں تھا کہ ایک نام سنا۔ عرصے بعد یاد آیا کہ کسی نے بد دعا دی تھی۔ بد دعا کس طرح آپ کا پیچھا کرتی ہے، مجھے اس کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ تینتیس سال؟ اگر مجھے اس وقت پتہ ہوتا تو میں اس سے معافی مانگ لیتا۔ بعد میں اندازہ ہوتا تو اسے تلاش کرتا اور درگزر کی درخواست کرتا مگر تب کھلنڈرے پن میں کچھ اندازہ ہی نہ تھا۔ بد دعا سے ڈرنا کیا معنی رکھتا تھا، الٹا مذاق اڑایا۔ تب خلیل اور منیر نے منع بھی کیا تھا مگر میں تب کس کی سنتا تھا؟ کاش یہ خیال پہلے آ گیا ہوتا، مگر اب فائدہ؟ ان تین سالوں میں جہاں اور بہت سی باتوں کا پتہ چلا ہے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ بد دعا سے بچنا چاہئے۔ یہ عشروں تک آپ کا پیچھا کرتی ہے۔ یہ بات مجھے تینتیس سال بعد اس کے چلے جانے کے تین سال بعد معلوم ہوئی ہے۔ آج 21اکتوبر ہے۔ آج اور بہت کچھ بھی یاد آ رہا ہے۔ یاد کرنے کے علاوہ اور اب ہے بھی کیا؟۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved