وزیر اعظم نواز شریف کے 20 اکتوبر سے شروع ہونے والے سرکاری دور ۂ امریکہ سے دس دن اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی متوقع امریکہ روانگی سے پچیس دن قبل سابق صدر آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی ساتھی اور ان کی حکومت میں وزیر دفاع کے عہدے پر فائز رہنے والے چوہدری احمد مختار کا بھارت کے ایک نجی ٹی وی چینل کو دیا جانے والا انٹر ویو عجب قیامت ڈھا گیا۔ پاکستان کے سر تھونپے جانے والا الزام بڑی مشکل سے ابھی دھویا ہی گیا تھا کہ اس ''پلانٹڈ‘‘ انٹرویو کے ذریعے اسے پھر سے سامنے لانے کی مذموم حرکت کی گئی۔ اس انٹر ویو کیلئے جس قسم کی ٹائمنگ منتخب کی گئی اس سے تو کوئی شک رہ ہی نہیں جاتا کہ یہ کسی بہت ہی ہوشیار اور چالاک قسم کے ہدایت کار کا کمال ہے۔ چوہدری احمد مختار جیسا شخص جس کے بارے میں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ وزارت دفاع سے فارغ ہونے کے بعد وہ کدھر اور کہاں ہیں‘ اس طرح رونما ہوئے کہ بھونچال بن گئے۔ اپنی وزارت دفاع کے منصب سے سبکدوش ہونے کے ڈھائی سال بعد اچانک بھارت کے ایک ٹی وی چینل کی سکرین پر ان کا یہ کہتے ہوئے رونق افروز ہونا کہ'' یکم اور دو مئی 2011ء کو امریکیs Seal Navy کے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد والی رہائش گاہ پر حملے کے وقت تک ان کی(اُسامہ) پاکستان میں موجو دگی سے آئی ایس آئی‘ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور اعلیٰ سول قیا دت اچھی طرح آگاہ تھی۔ ایسا کہتے ہوئے یہ کیسے ممکن تھا کہ چوہدری احمد مختار، وزیر اعظم اور آرمی چیف کے دورہ ٔامریکہ اور ان کے مجوزہ ایجنڈے سے لا علم ہوں؟۔کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکی سر زمین پر قدم رکھنے سے پہلے ہی گیند پاکستان کے ا قتدار اعلیٰ کی D میں پہنچانے کیلئے انٹرویو والا یہ ڈرامہ رچایا گیا ہو ؟۔پاکستان کی گردن پریہ الزام دھرتے ہوئے چوہدری احمد مختارکو ایک لمحہ کیلئے بھی یہ خیال کیوں نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کس کے بارے میں کن سے کہہ رہے ہیں ؟۔ انہوں نے ذرا سا بھی سوچنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ ایسا کہتے ہوئے وہ کسی شخصیت پر نہیں بلکہ اپنے وطن کی جانب سوالیہ نشانات اٹھا رہے ہیں؟۔ چوہدری احمد مختار‘کیلی فورنیا امریکہ سے آپریشنل مینجمنٹ کے ڈگری ہولڈر ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ پاکستان پر لگائے جانے والے دہشت گردی کے الزامات کے مقابلے میں ضرب عضب میں افواج پاکستان کے افسروں اور جوانوں کے خون کی قربانیاں سر چڑھ کر بول رہی ہیں حتیٰ کہ امریکی صدر بارک اوباما بھی ان لازوال قربانیوں کو تسلیم کرنے کے بعد بے ساختہ کہہ اٹھے ہیں کہ ''افغانستان کی موجودہ دہشت گردی کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ پاکستان نے اپنی سرحدوں کے اندر موجود القاعدہ سمیت ایک ایک دہشت گرد کے ٹھکانے کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے ۔ القاعدہ سمیت سب دہشت گرد فرار ہو کر افغانستان کا رخ کر رہے ہیں۔ اب ہمارا اور افغانستان کی فورسز کا فرض ہے کہ انہیں اپنے اندر قدم رکھنے سے پہلے ہی ختم کردیں‘‘۔
ایک ایسے وقت میں جب سپر پاور کا صدر پاکستان کو دہشت گردی اور اچھے برے طالبان کے الزامات سے بری الذمہ ہونے کی کلین چٹ دے رہا ہے‘ چودھری احمد مختار نے نہ جانے کسے خوش کرنے کے لیے اسامہ بن لادن کی صورت میں بدنامی کا پھٹا ہوا ڈھول پاکستان کے گلے میں ڈالنے کی حرکت کی ہے؟ اس انٹرویو کے نشر ہوتے ہی پاکستان مخالف قوتوں اور بالخصوص بھارتیوں نے آسمان سر پر اُٹھا لیے ہیں۔ عالمی برادری کو باور کرایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے ایک سابق وزیر دفاع نے اپنے انٹرویو میں اعتراف کرلیا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو سپورٹ کرتا رہا ہے۔ شنید ہے کہ بھارتی حکومت اس انٹرویو کو اقوام متحدہ کے نوٹس میں لا کر ‘ پاکستان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے والی ہے۔
قطع نظر اس کے کہ چوہدری احمد مختار نے بھارتی ٹی وی چینل کے اینکر سے کیا کہا ہے‘ اہم ترین سوال یہ ہے کہ ایک خاموش طبع شخص‘ جس کی صنعت کی کاروباری رفاقت افواج پاکستان سے کئی دہائیوں سے جڑی چلی آ رہی ہے‘ کو یہ سب کچھ کہنے کی اس وقت ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟۔اگر گزشتہ ڈھائی سال سے ایک شخص کسی بھی قسم کی غیر معمولی سیا سی مصروفیت سے دور تھا؛ حتیٰ کہ وہ پارٹی کے اہم ترین اجلاسوں میں بھی کبھی کبھار ہی شرکت کرتا ہوا نظر آتا تھا ‘ اسے پاکستان کو بدنام کرنے والی یہ افسوسناک بات کہنے کی ضرورت کیسے آن پڑی؟۔ کیا ا س کیلئے احمد مختار کو کسی نے خصوصی طور پر تیار کیا تھا؟۔ کیا احمد مختار اس انٹرویو سے کچھ عرصہ قبل دوبئی گئے تھے؟۔کہیں ایسا تو نہیں کہ بھارت کے اس ٹی وی چینل سے ان کے انٹرویو کی تفصیلات وہیں پر کسی اور کی طرف سے طے کی گئی ہوں؟۔ کسی ایسے شخص کی مہربانی
سے جو پاکستانی فوج سے سخت قسم کا بیر رکھ رہا ہو؟۔ اس انٹرویو کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد چوہدری احمد مختار کی جانب سے اس کی تردید تو آ گئی ہے لیکن اس وقت جب تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ احمد مختار کے اس انٹرویو کے پس پردہ پیچ و تاب کھاتا ہوا کوئی شخص ہو۔ احمد مختار کے اس انٹرویو نے محب وطن پاکستانی کو دکھ دیا ہے۔ اب اس پر جتنی بھی قیاس آرائیاں کی جائیں‘ کم ہیں۔ لیکن ایک بات عیاں ہے کہ چوہدری احمد مختار اتنے بھی خود مختار نہیں ہیں کہ جو جی میں آئے کہتے پھریں اور وہ بھی کئی سالوں بعد؟۔پردے کے پیچھے جو بھی ہے اس کو احمد مختار تو جانتے ہی ہیں لیکن وہ بھی جان چکے ہوں گے جنہیں اس انٹرویو میں بطور خاص نشانہ بنایا گیا ہے۔ستم ظریف بھول گئے کہ وردی کی دشمنی کی آڑ میں انہوں نے اس دھرتی کو بھی اقوامِ عالم کی نظروں میں بے توقیر کرنے کی گھٹیا حرکت کر دی ہے۔اس انٹرویو کے بعد ہمارے دشمن کے میڈیا نے جس طرح اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی جانب موڑا ہے اس کی دھمک دنیا بھر میں سنائی دینے لگی ہے۔ وہ دھرتی جس نے چودھری صاحب اور ان کے خاندان کو دولت، عزت اور شہرت سے نوازنے کیلئے اپنی ہر نعمت ان پر نچھاور کر دی‘ آج وہ اپنی اس بے توقیری پر حیران ہے۔