''خوشی اور غم دو حجاب ہیں‘‘ اس نے کہا '' یہ رنگ دار عینک کی طرح ہیں، جو پہننے والے کو ہر شے ایک مخصوص رنگ میں دکھاتی ہے۔ یہ بدلا ہوا رنگ دماغ کو دھوکا دیتا ہے۔
اپنی زندگی میں ہر کردار اور اس سے منسلک ہر واقعے کو ہم خوشی اور غم کے پسِ منظر میں دیکھتے ہیں۔ تم جب یہ کہتے ہو کہ میرا اکلوتا فرزند نافرمان ہے۔ ہر وقت وہ من مانی پر تلا رہتاہے توتمہاری آنکھ میں غم ٹھہر گیا ہے۔ زندگی کی رعنائیوں سے تم لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔ جب تمہاری زندگی ایک نیا موڑ مڑتی ہے، ایک نیا کردار تم سے متعارف ہوتاہے تو کچھ دیر تم اچنبھے سے اسے دیکھتے رہتے ہو۔ لاشعوری طور پر تم یہ توقع رکھتے ہوکہ وہ اپنے رویّے سے یا مادی طور پر کسی نہ کسی صورت تمہیں نفع پہنچا کر تمہاری خوشی کا باعث ہوگا۔ بسا اوقات ایسا نہیں ہوتا۔ تکلیف اور نقصان پہنچتا ہے تو تم شکایت کرتے ہو۔ خوشی کے انتظار میں اور بعض اوقات غم کی شکایت میں زندگی تمام ہو جاتی ہے ۔حقیقت اس سے کچھ پرے ہے ۔ وہ اس وقت کھلتی ہے، آدمی جب یہ حجاب نوچ پھینکتا ہے‘‘۔
میرا اکلوتا فرزند واقعی نافرمان تھا۔ یہ ایک ایسا درد تھا، ہمیشہ ، ہروقت جو مجھے لہو رلاتا تھا۔کسی نے مجھے اس شخص کا بتایا تھا۔ یہ کہ اس کے پاس ہر غم کی دوا ہے۔ یہی امید مجھے یہاں کھینچ لائی تھی ۔ کوئی وظیفہ، کوئی قرینہ جسے اختیارکرنا میرے بس میں ہوتا تو ضرور میں ایسا کر گزرتا۔ ''میرے پاس صرف سچ کا وظیفہ ہے۔ اگر تم دلچسپی رکھتے ہو تو میں ایک بڑی تصویر تمہیں دکھا سکتا ہوں، جو تمہارا تناظر وسیع کر دے۔ ماورا حقیقت کو آشکار کر دے‘‘۔ اس نے کہا ''اگر تم علم پا گئے، اگر بڑی حقیقت تم پر کھل گئی تو تمہارا دل قرار پا جائے گا‘‘۔
''بڑی حقیقت؟ ‘‘ میں نے سوچا۔ ویسے مجھے صبر کی بجائے مسئلے کا حل درکار تھا۔
''ہاں بڑی حقیقت‘‘ اس نے کہا ''ایک حقیقت تو وہ ہے ، جو تمہارے سامنے ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو تمہاری آنکھ اور کان کے ذریعے تمہارے دماغ تک پہنچتے ہیں۔ خوشی اور غم کے پسِ منظر میں جینے والا دماغ ان کی تعبیر کرتا ہے۔ اگر یہ حقائق مسرّت انگیز ہیں تو وہ ایک خاص قسم کے کیمیکل خارج کرتاہے، جس سے تمہیں لذت کا احساس ہوتاہے۔ اگر وہ تکلیف کا باعث ہیں تو وہ دوسری قسم کے کیمیکل ہیں جو تمہیں غم میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔ یہ سب حسیات کا کھیل ہے۔ یہ ایک ایسا پردہ ہے، جس نے بڑی حقیقت کو ڈھانپ رکھا ہے‘‘۔
''حسیات جھوٹ ہیں‘‘ اس نے کہا ''آنکھ نہیں دیکھتی، دماغ دیکھتا ہے۔ روشنی آنکھ سے گزرتی ہے، تصویر بنتی دماغ میں ہے۔ بسا اوقات اس عمل میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ آدمی وہ کچھ سنتا اور دیکھتا ہے جو دوسرے نہیں سنتے۔ ایسے شخص کو ہم دیوانہ کہتے ہیں۔
بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہم سب پاگل ہیں ۔ پاگل پن سے گزارے جا رہے ہیں ۔ جیسا کہ میں نے کہا، آنکھ نہیں دیکھتی اور کان سنتا نہیں ۔ اگر تم ذرا گہرائی میں سوچو تو دماغ دیکھتا اور سنتا ہے۔ اگر تم زیادہ گہرائی میں سوچو تو دماغ کا دیکھنا اور سننا بھی جھوٹ ہے۔ بڑی حقیقت یہ ہے کہ دماغ سنتا اور دیکھتا نہیں بلکہ ایک خاص مقصد کے تحت کچھ چیزیں اسے دکھائی، سنوائی جا رہی ہیں۔ بڑی حقیقت یہ ہے کہ خوشی اور غم کا کوئی حقیقی وجود نہیں بلکہ مصنوعی طور پر دماغ خوشی اور غم سے گزارا جارہا ہے‘‘۔
''کاش میرا بیٹا کسی طرح سدھر جائے‘‘ میں نے سسکی لے کر کہا۔
''کون سا بیٹا ؟‘‘ اس نے ہنس کر کہا ''مصنوعی طور پر تمہارے دل میں اولاد کی محبت پیدا کی گئی ہے۔کیا تم نے کبھی بلّی کو دیکھا ہے؟ اپنے نوزائیدہ بچّے کے قریب بھی وہ کسی کو پھٹکنے نہیں دیتی۔ جب وہ بڑا ہوجاتاہے، اپنا دفاع کرنے لگتا ہے تو ایک دن اس کے دل سے محبت اٹھا لی جاتی ہے۔ وہ اسے چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے۔ ہم انسانوں میں یہ محبت باقی رکھی جاتی ہے کہ آزمائے جاتے رہیں۔ یہ محبت آزمائش ہے، اولاد ایک Testہے۔ خدا یہ کہتا ہے کہ ایک دن میں اسے ختم کر دوں گا۔ ماں باپ اور بہن بھائی ایک دوسرے کو پہچاننے سے انکار کر دیں گے‘‘۔
مجھے اب غصہ آنے لگا تھا۔ میں اسے یہ کہنا چاہتا تھا کہ اخلاقیات پر درس کی بجائے وہ مجھے مسئلے کا حل بتائے۔ اس کے پاس جانے والے بتاتے تھے کہ وہاں سے وہ پُرسکون لوٹتے ہیں۔کم از کم مجھے تو اب تک ایسے کوئی آثار نظر نہیں آئے تھے۔
''مسئلہ ختم ہو یا اس کا احساس، بات ایک ہی ہے‘‘ اس نے کہا ''اگر تم یہ بات سمجھ لو کہ مسلسل تم آزمائے جا رہے ہو۔ تمہارا مشاہدہ کیا جا رہا ہے تو تم سنبھلنے لگو گے۔ اس بات کو سمجھنے کی تم کوشش کرو کہ تم Existکرتے ہو اور نہ تمہارا فرزند۔ خوشی کا کوئی وجود نہیں،غم جھوٹ ہے۔ صرف تمہارا شعور ایک حقیقت ہے۔ سچ صرف یہ ہے کہ تمہارا دماغ خوشی اور غم سے گزارا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ سب جھوٹ ہے۔ بڑی حقیقت یہ ہے کہ جس عمل سے گزر کر میں اور تم وجو د میں آئے ہیں، پتھر اور درخت، کائنا ت کا ہر عنصر اسی سے تو بنا ہے۔ ہلکے عناصرکا بتدریج بھاری عناصر میں بدلنے کا عمل ہمیشہ سے جاری تھا، ہمیشہ جاری رہے گا۔ انسان یا اس جیسی ذہین مخلوق ہمیشہ پیدا کی جاتی رہے گی۔ شعور ہمیشہ وجود پاتا رہے گا ۔ ہمیشہ نئے وجود آزمائش سے گزارے جاتے رہیں گے‘‘۔
''بڑی حقیقت یہ ہے کہ جس عمل سے گزر کر میں اور تم وجود میں آئے، کائنات کی تمام جاندار اور بے جان اشیا اسی سے بنی ہیں‘‘ اس نے دہر اکر کہا ''صرف ہم ہی شعور نہیں رکھتے، ہوا اور مٹی بھی سوچتی ہے لیکن اسے اختیار کا حق نہیں دیا گیا۔ بڑی حقیقت یہ ہے کہ امتحان لینے والے کے سوا باقی سب وجود جھوٹ ہیں۔ ہم دھوکے سے گزارے جا رہے ہیں‘‘۔
میں وہاں سے اٹھ آیا۔ جب میں سیڑھیاں اتر رہا تھا تو اس نے آواز دے کر یہ کہا ''میرے چار فرزند نافرمان ہیں ۔ میرا مطلب ہے کہ مجھے چار بیٹوں کے نافرمان ہونے کی آزمائش سے گزارا جا رہا ہے‘‘۔
دیکھنے میں وہ زور آور نظر آتا تھا وگرنہ شاید پلٹ کر میں اس پہ پل پڑتا۔