وزیراعظم نواز شریف کی امریکی یاترا پر ایک بار پھر تبصرے، تنقید اور تجزیے ہو رہے ہیں۔ اس ملک کا کوئی بھی سربراہ یا سیاست دان جب امریکہ کا دورہ کرتا ہے تو اس پر خصوصی توجہ مرکوز رہتی ہے اور خوب بحث و تکرار ہوتی ہے۔ موجودہ نظام کے معذرت خواہان یہی تاثر پھیلاتے ہیں کہ آخری تجزیے میں ہمارے مسائل کے حل اور ملک کی بقا کا حتمی ضامن امریکہ بہادر ہی ہے۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ سے تعلق کی بنیاد ہی یہاں کے حکمرانوں کی مانگ، اطاعت اور احسان مندی ہے۔ عام حالات میں، جمود میں جکڑے عوام بھی ایسے دوروں کا تماشہ بیگانگی سے دیکھتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں سوائے بھٹو حکومت کے چند سالوں کے، روز اول سے ہر فوجی اور جمہوری حکومت نے امریکہ کو ہی اپنا ناخدا بنایا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد غالب عالمی سامراج اور پولیس مین کے طور پر برطانیہ کی جگہ امریکی سامراج نے حاصل کر لی تھی۔ جنگ میں تباہ ہونے والے یورپ، جاپان اور ایشیا و افریقہ کے بہت سے ممالک کی تعمیر نو میں امریکی سامراج نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔ اس عہد میں مارشل پلان (امریکی وزیر خارجہ جیمز مارشل کے نام پر) کے تحت اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری یورپ میں کی گئی۔ اسی قسم کا پلان امریکی کمانڈر ڈگلس میکارتھر نے مشرق میں جاپان، جنوبی کوریا، ہانگ کانگ اور ملیشیا وغیرہ میں نافذ کیا۔ ان منصوبوں کی قوت محرکہ دراصل مذکورہ ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط کر کے سوویت یونین کے اثر و رسوخ اور انقلابی تحریکوں کو زائل کرنا تھا۔
سوائے پرل ہاربر پر حملے کے، امریکی سر زمین دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں سے بالکل محفوظ رہی تھی ۔ لیکن اس دوران امریکہ میں حالت جنگ کے قوانین نافذ رہے اور امریکی سرمایہ
داروں نے انتہائی کم اجرتوں پر محنت کشوں سے بے پناہ پیداوار کروائی جسے جنگ کے بعد کی وسیع تعمیر نو میں کھپانے کے لئے ذخیرہ کیا گیا۔ امریکی اسلحہ ساز صنعت نے بھی جنگ سے بے پناہ منافع کمایا۔ علاوہ ازیں امریکی بینکوں نے جنگ میں برسر پیکار ممالک (بالخصوص برطانیہ) کو دوران جنگ اور بعد از جنگ بڑے قرضے دیے جن کی سود سمیت واپسی کئی دہائیوں تک جاری رہی۔ اسی طرح یورپ کے صنعتی ممالک کا انفراسٹرکچر اور صنعت جنگ سے برباد ہو گئی تھی جبکہ امریکی صنعت جنگ سے خوب فائدہ اٹھا رہی تھی۔ جنگ کے بعد امریکی سرمایہ داروں کو عالمی منڈی میں کسی سنجیدہ مقابلہ بازی کا سامنا نہیں تھا۔ ان بنیادوں پر جنگ کے بعد امریکہ معاشی اور عسکری طور پر سپر پاور بن کر ابھرا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ، افریقہ اور ایشیا میں بڑی انقلابی تحریکیں نظر آتی ہیں جن میں سے کئی سرمایہ داری کو اکھاڑنے میں کامیاب رہیں۔ اس سلسلے میں 1949ء کا انقلاب چین اور بعد ازاں انقلابی جنگوں کے ذریعے کوریا اور ویت نام میں سے سرمایہ داری کا خاتمہ اور سوویت طرز کی ریاستوں کا قیام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس سرخ آندھی کو روکنے کے لئے امریکی سامراج کے پالیسی سازوں نے مغربی جرمنی، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک میں بڑی سرمایہ کاری اور جبر کے ذریعے مضبوط سرمایہ دارانہ معیشت اور ریاست استوار کی تاکہ بہتر معیار زندگی، استحکام اور سماجی و معاشی اصلاحات کے ذریعے سرمایہ داری پر اعتماد بحال کیا جائے اور ''کمیونزم‘‘ کا راستہ روکا جائے۔ لیکن ان چند ممالک کو چھوڑ کر ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں سامراجی استحصال کی شدت سے غربت اور محرومی میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔ 1944ء کی بریٹن ووڈز کانفرنس کا مقصد ہی براہ راست نوآبادیاتی جبر کی جگہ سامراجی ڈاکہ زنی کی نئی شکلوںکو پروان چڑھانا تھا، جس کے لئے آج کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے مالیاتی اداروں کی بنیادیں ڈالی گئیں۔
اس عہد میں سوویت یونین پر براجمان افسر شاہی کی مجرمانہ پالیسیوں نے سرمایہ داری اور سامراج کو پنپنے کا موقع فراہم کیا۔ جنگ کے اختتام پر یالٹا، تہران اور پوٹس ڈیم میں ''ایک ملک میں سوشلزم‘‘ اور ''امن برائے بقائے باہمی‘‘ کے نظریات کے تحت سٹالن نے سامراجی ممالک سے معاہدے کئے اور کئی ممالک میں انقلابات کو زائل کروایا گیا۔ سوویت یونین جنگ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی قوت بن کر ابھرا لیکن سوویت افسر شاہی کی جہالت کی وجہ سے سامراج اسے قابو کرنے میں کامیاب رہا۔ ''اقوام متحدہ‘‘ اور اسرائیل کے قیام میں بھی سوویت بیوروکریسی نے کلیدی کردار ادا کیا۔
عالمی جنگ کے بعد 1948-1974ء کا عرصہ سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ کے سب سے بڑے معاشی عروج (Boom)پر مبنی تھا، اس عہد میں عالمی تجارت میں تیز اضافہ ہوا اور گلوبلائزیشن کے تحت دنیا ایک معاشی اکائی بن گئی جس پر تسلط منڈی کے آقائوں کا تھا۔ کارل مارکس نے اس سے تقریباً سو سال قبل اپنی شہرہ آفاق کتاب ''داس کیپیٹل‘‘ میں وضاحت کی تھی سرمایہ داری کا ارتقا ناگزیر طور پر ملٹی نیشنل اجارہ داریوں اور گلوبلائزیشن کو جنم دے گا۔ 1974ء میں سرمایہ داری کی تاریخ کا بلند ترین اور طویل ترین عروج اختتام پذیر ہوا جس کے بعد اپنایا جانے والا نیولبرل ازم ماڈل بالآخر 2008ء کے عالمی مالیاتی کریش پر منتج ہوا۔ یہ معاشی تنزلی عالمی سامراج کے طور پر امریکی ریاست اور معیشت کے کھوکھلے پن اور انتشار کا باعث بھی ہے۔
جب تک عالمی منڈی موجود ہے، سرمایہ دارانہ نظام رکھنے والا کوئی بھی ملک اس کی جکڑ سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ اسی جکڑ کی وجہ سے کمزور سرمایہ دارانہ ممالک کی تمام معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے سامراجی مفادات کے تحت طے کرتے ہیں۔ سیاست مجتمع شدہ معیشت کا عکس ہوتی ہے، لہٰذا معاشی طور پر محکوم ممالک کی سیاسی اور سفارتی پالیسیاں بھی آخری تجزیے میں اس نظام کے سامراجی آقائوں کے کنٹرول میں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لیاقت علی خان سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک، ہر پاکستانی حکمران امریکی یاترا کو سب سے بڑا سفارتی کارنامہ سمجھتا ہے۔ محکومی کی معیشت کے نمائندہ اور سامراجی ڈاکہ زنی میں ''کمیشن ایجنٹ‘‘ کا کردار ادا کرنے والے تیسری دنیا کے یہ حکمران اپنے آقائوں کی اطاعت پر مجبور ہیں۔ امریکی سامراج اپنے مفادات کے تحت ہی ان ممالک کی پالیسیاں طے کرواتا ہے۔ بوقت ضرورت وہ پاکستان جیسی ریاستوں کو ''سٹریٹیجک پارٹنر‘‘ بنا لیتے ہیں اور جب چاہیں دھتکار دیتے ہیں۔
لیکن سامراج کی بنیاد سرمایہ دارانہ معیشت ہے جو آج تاریخی استرداد کا شکار ہو کر کھوکھلی ہو چکی ہے، نتیجتاً امریکی سامراج کی عسکری، سیاسی اور سفارتی طاقت بھی ماند پڑتی جا رہی ہے۔ افغانستان اور عراق میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور آج حالات اس کے قابو سے باہر ہیں، بالخصوص مشرق وسطیٰ میں امریکی عزائم کی نامرادی پوری دنیا کے سامنے عیاں ہے اور اسرائیل سے لے کر عرب ممالک تک، نام نہاد ''اتحادی‘‘ ممالک من مانیاں کرتے پھر رہے ہیں۔ ایران سے حالیہ جوہری معاہدہ واضح کرتا ہے کہ امریکی سامراج کس قدر بے بسی کا شکار ہے۔ دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام تاریخی طور پر جس تنزلی کا شکار ہے اس کے پیش نظر چین، روس یا یورپی طاقتوں میں اتنی سکت نہیں ہے کہ عالمی سامراج کے طور پر امریکہ کا متبادل بن سکیں۔ اس کیفیت میں امریکی سامراج اپنی دھونس میں کامیاب ہو پا رہا ہے نہ اس سے دستبردار ہو سکتا ہے۔ ڈالر جتنی وسعت کسی دوسری کرنسی میں نہیں ہے لیکن ڈالر کی اپنی معیشت ڈالر چھاپ چھاپ کر (تکنیکی زبان میں مقداری آسانی یا QE)چلائی جا رہی ہے۔ لیون ٹراٹسکی نے عرصہ قبل وضاحت کی تھی کہ ''امریکی سامراج وہ دیو ہے جس کے پائوں مٹی کے ہیں‘‘۔
امریکی سامراج اگرچہ موضوعی اور معروضی طور پر زوال پذیر ہے لیکن پاکستانی ریاست کا داخلی انتشار اور معیشت کی خستہ حالی اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ سامراج کی کاسہ لیسی ہی ان حکمرانوں کا تاریخی کردار ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی دوسری صورت ممکن نہیں ہے۔ ''سالمیت‘‘ اور '' قومی خود مختاری‘‘ کی باتیں عوام کے زخموں پر نمک ہی چھڑکتی ہیں۔ سامراجی جکڑ، ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کی لوٹ مار اور سود در سود کے مالیاتی گھن چکر سے آزادی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کی زنجیریں توڑ کر ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔