پاکستان کے کسی بھی صدر اور وزیراعظم کاہر بیرونی دورہ ‘نہایت کامیاب ہوتا ہے۔ میں نے آج تک ایسے کسی بھی دورے کے اختتام پر یہ خبر نہیں پڑھی کہ دورہ ناکام رہا۔ ان دنوں جناب نوازشریف‘ امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے کسی بھی لیڈر کے لئے‘ ایک بڑا اعزاز ہوتا ہے۔ ہمارا جو حکمران بھی‘ امریکی صدر سے ملاقات کر کے وطن واپس آتا ہے‘ بہت دنوں تک اس کے پیر وں کا پورا بوجھ ‘زمین پر نہیں پڑتا۔ یوں لگتا ہے ‘ وہ فوم کے گدے پر چل رہا ہو۔ اپنے وزیراعظم کے حالیہ دورے کے اختتام پر ‘مجھے بھی اسے کامیاب لکھنا پڑے گا۔ حب الوطنی کا تقاضا یہی ہے۔ لیکن امریکہ سے جس طرح کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں اور جتنی علامتیں اور نشانیاں ابھی تک دکھائی دی ہیں‘ انہیں پڑھ کر اس دورے کے بارے میں جو حقائق ‘عالمی میڈیا پر سامنے آئیں گے‘ ان کی بنیاد پر تو کچھ اور ہی لکھنا پڑے گا۔ وہ میرے بس کی بات نہیں۔ ہر اشاعتی ادارے کی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اگر میں لکھ بھی دوں‘ تو کمپیوٹر ٹائپ نہیں کرے گا۔ اگر ٹائپ کر کے تیارشدہ اخبار پریس میں بھیجا جائے‘ تو مشین چھاپنے سے انکار کر دے گی۔ مشین نے چھاپ دیا‘ تو اخبار کی پیکنگ کرنے والے عملے کے ہاتھ پائوں پھول جائیں گے اور ان سارے مراحل سے گزر کر بھی اخبار ‘قارئین تک پہنچ گیا‘ تودرجنوں نئے نئے کروڑ پتی اینکر اور صحافی ‘میرا اس سے بھی برا حال کریں گے‘ جو سرکاری مشینری ‘ عمران خان کا کر رہی ہے۔میں مخمصے سے دوچار ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ ہمارے سرکاری نمائندوں نے ‘بھارت کی کارستانیوں پر تین ڈوزیئر ‘ امریکی حکام کے حوالے کئے ہیں۔ جو شخص بھی امریکی انتظامیہ کے اندر ہے‘ وہ ہر ڈوزیئر کے مندرجات کو پہلے سے جانتا ہے اور بھارت کی طرف سے اسے جو کچھ بھیجا جاتا ہے‘ اسے بھی جانتا ہے۔ یہ ایک 70سال پرانی پریکٹس ہے‘ جو1948ء کے بعد‘ ہماری ہر حکومت نے کی ہے۔ دنیا میں صرف چند کتابیں ایسی ہیں‘ جنہیں انسان دوسری یا تیسری بار پڑھ سکتا ہے۔ 70سال سے چھپنے والے‘ سالانہ ڈوزیئر کتنی بار پڑھے جا سکتے ہیں؟ ہر ڈوزیئر کی نئی اشاعت میں ایک دو پرانے واقعات ‘نئی تاریخوں کے ساتھ دہرائے جاتے ہیں۔ڈوزیئر ‘ امریکیوں کو پہنچ گیا۔ میں وزیراعظم اور ان کے وفد کی طرف سے کئے گئے اس اقدام کی بنیاد پر لکھوں گا کہ دورہ بے حدکامیاب رہا۔
امریکی وزیرخارجہ نے مہمان وزیراعظم سے ایک خصوصی ملاقات کی۔ پروٹوکول کے تمام تقاضے برطرف کرکے ‘انتہائی قریبی دوستوں جیسی بے تکلفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ امریکی وزیرخارجہ نے ہمارے لیڈر کوعزت مآب وزیراعظم کہنے کے بجائے‘ صرف ان کے پہلے نام ''نواز‘‘ سے مخاطب کیا ۔ دوران گفتگو سامنے رکھی شیشے کی میز پر‘ ایک مکا بھی مارا۔ یہ بات روایتی باخبر حلقوں اور میڈیا کے نمائندوں نے‘ اپنے ناظرین اور قارئین تک پہنچائی۔ مجھے اس پر یقین نہیں آیا۔ لیکن جب ہمارے وزیراعظم اپنے پورے وفد کے ساتھ امریکی وزیرخارجہ سے ملے‘ تو یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ اس ملاقات کے دوران ‘جان کیری کے سامنے صرف ایک چھوٹی اور گول سی میز رکھی گئی تھی اور اس پر اتنا بڑا گلدان دھرا تھا ‘ جس نے میز کے پورے شیشے کو ڈھانپ رکھا تھا۔ کیری کے میز پر مکا مارنے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی گئی تھی۔یہ تصویر میں نے دیکھی ہے۔ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جان کیری نے اس ملاقات کے دوران دل کے اندر ہی اندر‘کتنے بھی مکے چلائے ہوں‘ میز پر مکا مارنے کی ہمت نہیں کر سکے۔ جب میں اپنے وزیراعظم کے کامیاب دورے پر لکھوں گا‘ تو میرے ذہن میں یہ منظر بھی موجود ہو گا۔ اس کے باوجود میں کامیاب دورے کی مثالیں پیش کرتے ہوئے‘ ان واقعات کا حوالہ بھی دوں گا۔
دورے سے پہلے امریکی میڈیا میں جو قیاس آرائیاں کی گئیں‘ ان میں افغانستان کا خصوصی ذکر کیا گیا تھا۔ دورہ ہرچند نیا تھا۔ لیکن قیاس آرائیاں اتنی پرانی تھیں ‘ جتنا کہ خود افغانستان۔ وہی پرانی باتیں۔ پاکستانی حکمرانوں کے بارے میں شکوک و شبہات کہ وہ ہم سے ڈالر لے کر‘ دہشت گردوں سے‘ ہمارے ہی فوجیوں پر حملے کراتے رہے۔ جنرل ضیاالحق‘ جنرل پرویزمشرف اور جنرل کیانی‘ تینوں کے بارے میں امریکی‘باری باری ایک ہی رائے کا اظہار کرتے رہے۔جنرل ضیاالحق کو امریکیوں نے زیادہ ہی گرمجوشی سے خراج تحسین پیش کیا‘ میں وزیراعظم کے حالیہ کامیاب دورے کی ستائش کرتے ہوئے‘ سانحہ بہاولپور کا ہرگز ذکر نہیں کروں گا۔ بلکہ پاک امریکہ تعلقات میں مسلسل خیرسگالی کی تاریخ ایک بار پھر دہرائوں گا۔ یہ تاریخ مجھے ہر کامیاب دورے کے بعد دہرانا پڑتی ہے۔میں ایک آزاد ملک کا شہری ہوں۔ جمہوری ملک کا صحافی ہوں۔ مجھے آمریت اور جمہوریت دونوں کا باربار تجربہ ہوا۔ میں نے دونوں قسم کے ادوار میں‘ ایک ہی طرح کی حکومتی کامیابیوں کی تعریف و تحسین‘ ایک ہی جیسے الفاظ میں کی۔میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے پاکستان کے ہر وزیراطلاعات و نشریات سے بڑھ کر نہیں‘ تو کم از کم حکومت کی‘ اس کے مساوی تعریف و تحسین ضرور کی۔ مجھ میں اور وزرائے اطلاعات و نشریات میں ایک فرق ضرور ہے کہ جو بھی وزیراطلاعات ونشریات‘ ایک بار کابینہ سے باہر ہوا‘ دوبارہ اس کا نام یا تو اخباروں میں آنا ہی بند ہو گیا اور کبھی کسی کا نام آیا‘ تو پورا اخبار کئی بار پڑھ کر ڈھونڈنے سے ملا۔ لیکن میں وزرائے اطلاعات و نشریات کی طرح بے وفا نہیں۔ ہر وزیر جب تک اپنے منصب پر فائز رہتا‘ حکمرانوں کی مدح و ستائش میں نئے نئے مضامین تلاش کر کے پیش کرتا۔ مگر وزارت چھوٹتے ہی یا تو وہ چپ ہو جاتا یا پھر حزب اختلاف کے بدزبان لیڈروں کی طرح بولنے لگتا۔ لیکن میں ہمیشہ ثابت قدم رہا ہوں۔ ہر صدر اور وزیراعظم کے کامیاب غیرملکی دوروں پر ‘ پرانے الفاظ میں ‘نئے نئے مفہوم ٹھونس کر‘ حب الوطنی کے تقاضے پورے کرتا ہوں۔
ہمارے حالیہ وزیراعظم کے حالیہ دورہ امریکہ سے پہلے‘ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ پاکستان کے چھوٹے جوہری ہتھیاروں پر امریکی حکام سے مذاکرات ہوں گے۔ ان مذاکرات میں پاکستان پر دبائو ڈالا جائے گا کہ وہ بھارتی حکمرانوں پر کپکپی طاری کرنے والے‘ ننھے منھے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری بند کر دے یا ان پر عالمی نگرانی قبول کرے۔ ہمارے وزیراعظم جیسے ہی واشنگٹن پہنچے‘ ان کے طورو اطوار دیکھ کر‘ امریکی مبصروں اور سیاسی دانشوروں کے چھکے چھوٹ گئے اور پاکستانی وزیراعظم پر نظر پڑتے ہی‘ سب کے سب لوٹے بن کر‘ اسی طرح ہمارے وزیراعظم کی تحسین و ستائش کرنے لگے‘ جیسے ہم کرتے ہیں۔ ملاقات ہونے سے پہلے ہی سب نے لکھ دیا کہ وزیراعظم نوازشریف‘ صدراوباما کو صاف صاف بتا دیں گے کہ پاکستان چھوٹے جوہری ہتھیاروں پر کوئی پابندی قبول نہیں کرے گا۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان ارنسٹ نے‘ چہرے کی اڑی ہوئی رنگت کے ساتھ مان لیا کہ وزیراعظم نوازشریف کے چار روزہ دورے کے دوران‘ کوئی جوہری معاہدہ نہیں ہو گا۔ اس معاملے میں وزیراعظم کی ثابت قدمی دیکھ کر‘ تمام امریکی حکام‘ جناب نوازشریف کے سامنے ‘ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی طرح مودب ہو گئے۔ جب میں وزیراعظم کے دورے کو کامیاب ثابت کرنے کے لئے قصیدہ لکھوں گا‘ توامریکی حکام کے مودب ہونے کی یہ مثال پیش کرنا نہیں بھولوں گا۔
وزیراعظم کا دورہ امریکہ شروع ہونے سے پہلے‘ امریکی تحقیقاتی ادارے کے مائیکل کوگلمین نے کہا ''امریکہ کو صرف یہ تشویش ہے کہ پاکستان ایک بہت غیرمستحکم ملک ہے۔ جہاں مختلف قسم کے کئی شدت پسند گروہوں نے پناہ لے رکھی ہے اور امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے ‘ان میں سے کچھ گروہوں کے ساتھ‘ ناپسندیدہ تعلقات ہیں۔ پھراس میں یہ بات بھی شامل کریں کہ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔‘‘عرصہ ہوا ہم نے وزیرخارجہ رکھنا چھوڑ دیا ہے۔ اس سے ایک لگژری کار‘ ایک کوٹھی اور وزیر کے درجے کا ایک دفتر‘ بچ جاتا ہے۔ ہم نے دو آدھے آدھے وزیرخارجہ بنا کر‘ بھارت کے چھکے چھڑا دیئے ہیں۔ دشمن کے چھکے چھڑانے کے لئے‘ اپنے خزانے کے چھکے بھی چھوٹ جائیں‘ تو کوئی بات نہیں۔دورہ امریکہ کے دوران ہی ایک آدھا وزیرخارجہ‘ امریکی سامراج کی سنگدلانہ میزبانی کی نذر ہو گیا۔ لیکن باقی ماندہ وزیرخارجہ نے یہ کہہ کر ہمارے جوہری پروگرام کا لاجواب دفاع کیا کہ ''ہمارا مقصد بھارت کا مقابلہ کرنا ہے اور ہمارے جوہری پروگرام کی نوعیت دفاعی ہے۔‘‘ جو اب میں امریکی یہ کہنے سے ڈر گئے کہ آپ کے ایٹمی ہتھیار ہمیں بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔میں اس جواب کو پڑھ کر دیر تک جھومتا رہا۔ ابھی ایک بار مجھے اور بھی جھومنا ہے۔ جب وزیراعظم کی واپسی پر‘ ان کے کامیاب دورے کی ایک دوسرے سے بڑھ کر تعریفیں کرنے والے قلم کاروں کا مقابلہ کر کے‘ میں اللہ کے فضل و کرم سے ایک بار پھر ثابت کروں گا کہ قائد اعظم ثانی‘ اصلی قائد محمد علی جناحؒ سے زیادہ کامیاب لیڈرہیں۔ہے کوئی مائی کا لال‘ جو اس مقابلے میں مجھے پچھاڑ سکے؟ یہ کالم پڑھ کر اگر کوئی مجھے نذیر ظافر بھی کہے‘ تو میں اس پر فخر کروں گا ع
کسب ِکمال کن کہ عزیز ِجہاں شوی