تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     23-10-2015

’’آپ کوئی فکر نہ کریں‘‘

آج جو لوگ ہم پہ مسلّط ہیں، کیا ان کے اجداد نے ایک دھیلا اور ایک دن بھی تحریکِ پاکستان کو دیا تھا؟ کاش نواز شریف، آصف علی زرداری اور الطاف حسین کی بجائے مدراس کے ان یتیم بچّوں کو اقتدار مل گیا ہوتا۔ 
اگر تحریکِ انصاف کو موصول ہونے والے چندے کا نظام اتنا ہی شفاف ہے، جتنا کہ پارٹی لیڈر دعویٰ کرتے ہیں تو انہیں اس پر کیا اعتراض ہے کہ الیکشن کمیشن اسے جانچ لے؟ وہ اس میں جعلی اندراجات نہیں کر سکتا۔
سبکدوش آڈیٹر جنرل کے دفتر نے ایک رپورٹ مرتب کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ گردشی قرضے کی ادا کردہ رقم میں 195 ارب روپے کی بے قاعدگی پائی گئی۔ اسحق ڈار اگر سچّے ہیں تو جواب کیوں نہیں دیتے؟ 
پیپلز پارٹی کے بدعنوان لیڈروں کے خلاف نیب کی طرف سے تفتیش پر آصف علی زرداری بھڑک کیوں اٹھے ہیں؟ اگر ان کا دامن صاف ہے تو اس قدر وہ بے چین کیوں ہو گئے؟ جنرلوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا انہوں نے اعلان کیا۔ ردّعمل پھوٹا تو پیپلز پارٹی کے رہنما تاویلات پیش کرتے رہے۔ اب جو لوگ زیرِ دام ہیں، زرداری صاحب نے ان کے بے گناہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ ان کا استدلال عجیب ہے! ان کی جماعت کا احتساب کیوں ہے؟ 
نئے آڈیٹر جنرل نے بجلی کمپنیوں کو ادا کی گئی رقوم کو منظور کرنے کا جو حکم صادر کیا ہے، تحریکِ انصاف اس پر واویلا کیوں نہیں کر رہی؟ امیرِ جماعتِ اسلامی سراج الحق کیوں خاموش ہیں؟ ایک ہفتے سے معاملہ میڈیا میں زیرِ بحث ہے مگر ایم کیو ایم اور زندگی بھر اصولوں کی دہائی دینے والے محمود خان اچکزئی منہ میں گھنگنیاں کیوں ڈالے بیٹھے ہیں؟ 
جب ایک قوم کو اپنی قیادت پر اعتماد ہوتا ہے تو تحریکِ پاکستان ایسے معجزے رونما ہوتے ہیں۔ قائدِ اعظم ایک چونّی کی رسید پر بھی خود دستخط کیا کرتے۔ یہ بچّوں کے چند خطوط ہیں، جو تحریکِ پاکستان کے ہنگام قائدِ اعظم کے نام لکھے گئے۔ یہ ڈاکٹر ندیم شفیق کی کتاب "Children's correspondence with Quaid I Azam" سے لفظ بہ لفظ نقل کیے جا رہے ہیں۔ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب۔ جب الائو بھڑکا اور چراغاں ہو گیا۔ ہم نے مگر اسے بُجھ جانے دیا۔ اب ہماری باگ ان لیڈروں کے ہاتھ میں ہے، جو سب کچھ ہضم کر جاتے ہیں۔
29-4-1944 
جناب بابا جی صاحب۔ حضور جناح صاحب
بعد آدابِ غلامانہ کے عرض ہے کہ پھوپھا جان بیس دن ہوئے، دوستوں سے کہتے تھے کہ حضور جناح صاحب نے مسلمانوں کے کام واسطے ہر مسلمان سے چندہ مانگا ہے آگے نہیں مانگا تھا۔ بابا جی صاحب مجھ غلام کو جو پیسہ ملتا ہے، میں نے اکھٹا کر لیا ہے۔ آپ کوئی فکر نہ کریں۔ آٹھ آنے جمع ہو گئے ہیں۔ ٹکٹ لے کر اس لفافے میں بند کر کے بھیجے ہیں۔ خدا کرے آپ کو مل جائیں۔ آپ بالکل فکر نہ کریں۔ میں اور بھی پیسے جمع کروں گا۔ اگر یہ آٹھ آنے آپ کو مل گئے اور بھی بھیجوں گا۔ آپ کوئی فکر نہ کریں اور جب بڑا ہوں گا اور بھی زیادہ روپے بھیجوں گا۔ خدا آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آداب
راقم
آپ کا غلام، عزیزالرحمٰن طالبِ علم 
جماعت پنجم چشتیہ ہائی سکول امرتسر
29-3-1942
حضرت قائدِ اعظم دام ظلالکم۔ 
ہم دونوں بہن بھائی سکول میں تعلیم پا رہے ہیں۔ میں درجہ ششم میں پڑھتا ہوں اور میری چھوٹی بہن درجہ چہارم میں تعلیم پا رہی ہے۔ میں نے اخبار منشور میں اپنے محبوب قائدِ اعظم کا جب قوم کے نام پیغام پڑھا تو اسی روز سے ہم دونوں بہن بھائیوں نے تہیہ کر لیا کہ جو پیسے ہمارے والدین ہمیں روزانہ دیں گے، جب کہ ہم سکول جاتے ہیں، دیتے ہیں، ان کو جمع کر کے اپنے محبوب قائدِ اعظم کے سرمائے میں جمع کریں۔ آٹھ آنے کے ٹکٹ ناچیز سے قبول فرمائیں۔ قائدِ اعظم زندہ باد۔ 
خادم قاضی اظہار معین 
متعلم درجہ ششم مظفر نگر
فصاحت منزل جامی روڈ حیدر آباد
محترم قائدِ اعظم السلام علیکم 
ابکی میں نے اپنے جیب خرچ کو sweets کے لیے خرچ نہیں کیا تھا لہٰذا وہ پانچ روپیہ میں قومی دفاعی فنڈ کے لیے بھیج رہی ہوں۔ میں ایک School Girl اس سے زیادہ نہیں بھیج سکتی۔ امید ہے کہ ایک لڑکی کے جیب خرچ کی یہ حقیر رقم آپ فنڈ میں جمع کر لیں گے۔ 
میں وہی لڑکی ہوں، جس نے آپ سے حیدر آباد میں Rockland Guest House میں 10اگست 41ء کو ملاقات کی تھی اور کچھ پاکستان اور مسلم ترقی کے بارے میں گفتگو کی تھی۔ 
فقط 
شمیم آرا
786
قائدِ اعظم کی خدمت میں عرض ہے کہ میں نے اپنے جمع کیے ہوئے سب پیسے، جو مجھے میرے ابّی جی دیا کرتے ہیں، آپ کو بھیج دیے ہیں ۔ میں نے سنا ہے کہ آپ ہم کو آزادی لے کر دیں گے۔ میں بڑا ہو کر آپ کے پاس آئوں گا۔ 
جاوید احمد خان 
جماعت دوم
بخدمت جناب محمد علی جناح 
بعد السلام علیکم کے دست بدستہ عرض پرداز ہوں کہ مبلغ پانچ روپیہ جو مجھ کو میرے والدین سے امتحان میں کامیاب ہونے کے آج ہی وصول ہوئے ہیں، خدمتِ اقدس میں پیش کر کے امید کرتا ہوں کہ اس حقیر رقم کو قبول کر کے شکریے کا موقع عطا فرمائیں گے۔ دعا ہے کہ خداوندِ کرم آپ کو اپنے اور ہمارے اور جملہ مسلمانانِ ہند کے مقصد میں کامیاب فرماوے اور ہمارے سروں پر ہمارے قائدِ اعظم کو تا بہ ابد زندہ اور سلامت رکھے۔ آمین یارب العالمین۔ 
مرسلہ
نوابزادہ احمد یار خاں جناحی فرخ آبادی 
جماعت پنجم، ہائی سکول، بہاولنگر ریاست بہاولپور
ملتان، 7جون 1942ء 
بخدمت جناب قائدِ اعظم صاحب سلام علیکم۔ آپ کے حکم کے مطابق مسلمانوں کے قومی فنڈ آٹھ آنے کا پوسٹل آرڈر نمبر 034272A بھیج رہا ہوں۔ یہ میں نے اپنے جیب خرچ سے جمع کیا ہے۔ امید ہے آپ میری حقیر رقم قبول فرمائیں گے۔ 
آپ کا خادم سعید اختر (جماعت نہم)
معرفت سید گوہر علی لیکچرر۔ ایمرسن کالج۔ ملتان 
25جولائی 1942ء 
یتیم خانہ اسلامیہ کڈھپہ 
بعالی خدمت حضرت قائدِ اعظم محمد علی جناح صدر مسلم لیگ کل ہند بمبئی 
ہمارے اچھے قائدِ اعظم! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
ہم یتیموں کی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تادیر سلامت رکھے۔ قائدِ اعظم آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں سے چندے کی درخواست کی ہے۔ یہ ہم کو اخباروں کے ذریعے معلوم ہوا۔ ہمارا بھی یہ خیال ہوا کہ ہم آپ کی خدمت میں کچھ چندہ پیش کریں اور آپ کو یہ معلوم ہے کہ ہم یتیم ہیں اور ہمارے کھانے پینے اور کپڑے وغیرہ کا انتظام یتیم خانے سے ہوتا ہے۔ ہمارے ماں باپ نہیں ہیں، جو ہم کو روز روپے دیں پھر بھی ہم نے طے کر لیا کہ آپ کی خدمت میں ضرور کچھ بھیجیں گے۔ اس لیے ہم کو دھیلہ پیسہ، جو کچھ بھی جہاں کہیں سے ملا، اس کوجوڑنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ تین روپیہ دو آنے 3.20 کی رقم جمع ہوئی۔ اب اس کو آپ کی خدمت میں روانہ کر رہے ہیں آپ اس کو قبول کیجیے۔ ضرور قبول کیجیے۔ ہم آپ سے اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو زندہ رکھا اور ہم خوب پڑھ کر جوان ہوئے تو مسلم لیگ کی بڑے زور سے خدمت کریں گے اور جب ہم کمانے لگیں گے تو آپ کی درخواست پر بہت سے روپیہ چندے دیں گے آپ ہمارے لیے دعا کیجیے۔ والسلام 
پیہم آپ کے لیے دعاگو
یتیم خانہ کڈھپہ کے یتیم 
کڈھپہ (صوبہ مدراس)
آج جو لوگ ہم پہ مسلّط ہیں، کیا ان کے اجداد نے ایک دھیلا اور ایک دن بھی تحریکِ پاکستان کو دیا تھا؟ کاش نواز شریف، آصف علی زرداری اور الطاف حسین کی بجائے مدراس کے ان یتیم بچّوں کو اقتدار مل گیا ہوتا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved