سینیٹر انور بیگ کا فون تھا ۔ وہ میرے ایک ٹی وی شو کے حوالے سے بات کر رہے تھے کہ یار اس ملک کا کیا بنے گا ۔ یہاں جو جتنا کرپٹ ہے وہ اتنی ہی بڑی دھمکی دے کر بچ جاتا ہے۔ کسی کے نزدیک کرپشن کرنا کوئی ایشو نہیں رہ گیا۔ ان لوگوں نے پاکستان کو چراہ گاہ سمجھ رکھا ہے۔ یہ سب یہاں نازل ہوتے ہیں۔ چار پانچ سال تک دیہاڑی لگاتے ہیں اور پھر لُوٹ مار کر کے چلے جاتے ہیں اور پھر باہر سے دھمکیاں جاری کرتے ہیں۔
میں نے کہا‘ بیگ صاحب! کرپشن اس ملک اور عوام کا ایشو نہیں ہے۔ یہ لمبی بحث ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کہیں نہ کہیں غلط کام کر رہا ہوتا ہے۔ اپنی اپنی قابلیت اور حیثیت کے مطابق ہم سب کچھ نہ کچھ ایسا کر رہے ہوتے ہیں جو قانونی طور پر جرم ہوتا ہے۔ اپنے ہی بنائے گئے اصول ہم خود پر لاگو نہیں کرتے۔ جو غلط کام ہم کرتے ہیں اس کے جواز بھی ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے جب دوسرے کرپشن کرتے ہیں تو ہم اسے زبان سے برا کہتے ہیں تاکہ دوسرے ہمیں غلط نہ سمجھیں لیکن ہم بھی اپنے اپنے مقام اور حیثیت کے مطابق وہی کرتے ہیں جو ہمارے حکمران کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکی۔ اُوپر سے قانون گھر کی باندی ہے۔ قانون موم کی ناک ہے جیسے چاہیں‘ جس طرف چاہیں موڑ دیں۔ میںنے کہا‘بیگ صاحب! آپ بھی اپنی حیثیت کے مطابق غیرقانونی کام کرتے ہیں ۔ آپ بھی سیٹ بیلٹ نہیں باندھتے کیونکہ آپ کو لگتا ہے آپ کو کوئی پولیس والا نہیں پکڑ سکتا۔ بولے‘ یار! ابھی موٹروے پر چالان ہوا ہے۔ میں نے کہا‘ یہ اچھا ہوا کیونکہ اسلام آباد میں، آپ کو میں نے کبھی سیٹ بیلٹ پہنے نہیں دیکھا۔ آپ کے نزدیک سیٹ بیلٹ کا قانون اتنا اہم نہیں کہ اس پر عمل کیا جائے اسی لیے آپ روزانہ اسے توڑتے ہیں۔
اسی طرح اگر آپ کی مثال ہم کسی وزیراعظم یا وزیر پر اپلائی کریں تو پتہ لگے گا کہ وہ بھی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق قوانین پر عمل نہیں کرتے کیونکہ ایک تو آپ کی طرح یہ کوئی اتنا بڑا قانون نہیں ہے جس کے توڑنے سے کوئی قیامت آجائے گی۔ جیسے ہمیں سیٹ بیلٹ کا قانون معمولی لگتا ہے‘ ایسے ہی وزیراعظم یا صدر یا وزیر کو کسی کنٹریکٹ میںکچھ ارب روپے کما لینا بھی معمول کی بات لگتی ہے۔
دوسرے انہیں پتہ ہے کہ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ میں بھی میں اپنی حیثیت کے مطابق قانون توڑتا ہوں ۔ ہمارا ہر دوسرا بندہ کسی نہ کسی کی جیب سے مال نکلوانے کے چکر میں ہے۔ وہ خود دولت کمانے یا کاروبار کرنے کے غیرقانونی طریقے اختیار کرتا ہے۔ دوسروں کو مال پانی دے کر اپنا کام چلاتا ہے۔ سو روپے کے فائدے کے لیے کسی کو بیس روپے رشوت دینے سے نہیں چوکتا۔ اسے پتہ چل گیا ہے پاکستان میں ایسے ہی چلتا ہے۔ عقل کی باتیں کرنا فیشن ہو گیا ہے کہ یار ایسا نہیں ہونا چاہیے اور آخر میں ہم خود یہ کہتے ہیں کہ یار کیا کریں‘ اس کے بغیر گزارا بھی تو نہیں ہوتا۔ یوں جس جس کا جو مقام ہے وہ اس پر وہی کچھ کرتا ہے جو ایک عام آدمی گلی محلے میں کرتا ہے کہ جہاں دائو لگتا ہے لگا لو۔ مان لیتے ہیں سب لوگ ایسے نہیں ہوں گے۔ بہت سارے اچھے لوگ اپنی فطرت کے مطابق ایماندار ہوتے ہیں۔ لیکن اکثریت کا چلن ایسا ہی ہے۔ اسے وہ اپنی ذہانت‘ قابلیت اور چالاکی قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے سیاستدان اور بیوروکریٹس کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ان کی اپنی قابلیت اور مہارت ہے کہ وہ لوگوں کے ووٹ لے کر اقتدار میں پہنچے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں اختیار ہے، طاقت ہے اور یہ دونوں چیزیں اگر وہ اپنی ذاتی دولت میں اضافہ کرنے کے لیے استعمال نہیں کریں گے تو پھر وزیراعظم یا وزیر یا صدر بننے کا کیا فائدہ؟ اس لیے ان کے نزدیک یہ اقتدار اور طاقت ایک کاروبار کی طرح ہے جیسے ہمارے لیے ہمارا پیشہ ہے۔ جس طرح ہم روزانہ ایک اچھی خبر چاہتے ہیں‘ اسی طرح شاید یہ لوگ بھی روزانہ ایک جگاڑ لگانا چاہتے ہیں اور لگارہے ہیں۔
بیگ صاحب بولے: لیکن اب تو کرپشن کھلے عام ہورہی ہے اور جو لوگ کرتے ہیں وہ اُلٹا اب میڈیا کو ڈانٹتے بھی ہیں کہ انہیں ان کے کارناموں کو سامنے لانے کی جرأت کیسے ہوئی ۔ میں ہنس پڑا اور بولا: آپ درست کہتے ہیں۔ یہی دیکھ لیں کہ وزیراعظم گیلانی کی کابینہ کے وزرا میاں بیوی کے خلاف نیب نے انکوائری شروع کی ہے تو انہوں نے قیامت کھڑی کر دی ہے۔ عاصمہ ارباب کی دھمکیاں سنیں تو پتہ چل جائے گا یہ لوگ کس قدر طاقتور ہوچکے ہیں۔ کبھی جن لوگوں کی نیب سے جان جاتی تھی وہ اب نیب کو دھمکیاں دیتے ہیں کیونکہ نیب کے افسران بھی انہی سیاستدانوں کے آلہ کار بن کر رہ گئے تھے ‘وہ بھی اپنی حیثیت اور مقام سے فائدہ اٹھانے لگے‘ جیسے ہم سب اٹھاتے ہیں۔
میں نے ایک ٹاک شو میں، وزیراعظم گیلانی کی ایک سابق مشیر سے ایک سوال کیا تھا کہ ان کے دوبئی کے ایک ذاتی بینک اکائونٹ میں بنکاک سے پانچ پانچ لاکھ ڈالرز کے پانچ پے آرڈرز ایک چینی کمپنی نے کیوں جمع کرائے تھے؟ یہ پچیس لاکھ ڈالرز ایک چینی کمپنی کی طرف سے ادا کیے گئے تھے کیونکہ ان کے خاوند اس وقت وزارت مواصلات کے وزیر تھے۔ وہ سرے سے مکر گئیں ۔ میں نے پھر پوچھا: دو اکتوبر 2012ء کو یہ ڈرافٹ دوبئی میں جمع ہوئے۔ میرے پاس ان ڈرافٹ کی دستاویزات موجود ہیں ۔ دوبئی بینک کی سٹیٹمنٹ ہے جس میں بنکاک سے دوبئی بھیجی گئی پچیس لاکھ ڈالرز کی رقم ظاہر ہو رہی ہے‘ لیکن انہوں نے بڑے دھڑلے سے کہہ دیا کہ نہیں جناب یہ غلط ہے۔ اب بتائیں اس کے بعد کیا ہوسکتا ہے۔میں نے کہا باقی چھوڑیں، 2010ء میں وفاقی وزیر ارباب عالمگیر کے بینک اکائونٹس میں اڑھائی کروڑ روپے سے زیادہ کیش رقم موجود تھی لیکن اس سال انہوں نے صرف اڑتالیس ہزار روپے ٹیکس ادا کیا‘ وہ بھی اس سرکاری تنخواہ پر جو انہیں وزیر کے طور پر مل رہی تھی جبکہ انہیں یہ تنخواہ ٹیکس کاٹ کر مل رہی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک روپے کا ٹیکس نہیں دیا۔
پبلک اکائونٹس کمیٹی میں ایک دفعہ انکشاف ہوا کہ عاصمہ ارباب اور ان کے خاندان کے پاس دو درجن سرکاری گاڑیاں زیر استعمال تھیںجو زیادہ تر این ایچ اے کی تھیں۔ عاصمہ ارباب نے اس کی بھی تردید کر دی تھی۔ اب نیب کا دعویٰ ہے کہ ارباب خاندان کے پاس غیرقانونی دولت ہے جس سے وہ حسب روایت انکاری ہیں ۔ میں نے کہا:ہماری بدقسمتی دیکھیں ‘جنہیں ہم ووٹ دے کر وزیر بناتے ہیں‘ وہ آ کر ہمیں ہی لُوٹنے لگتے ہیں ا ور اگر وہ پکڑے جائیں تو اُلٹا ہمیں ڈانٹتے بھی ہیں۔
ایک ٹاک شو میں جب میں نے عاصمہ ارباب سے سوالات پوچھنے شروع کیے تو وہ مجھ پر یہ کہتے ہوئے برس پڑیں ''آپ کی کوئی ''مجبوری‘‘ہے‘‘۔ مطلب یہ تھا کہ مجھے کسی نے ان کے سکینڈل سامنے لانے کے لیے ''ادائیگی‘‘ کی ہے یا میرا اس میں کوئی اور ذاتی مفاد ہے۔ اس شو میں ان کا زور مسلسل اسی نکتہ پر رہا کہ مجھے کیا مجبوری ہے کہ میں ان کے خلاف یہ سکینڈل ٹی وی پر بیٹھ کر پھوڑ رہا تھا۔ اُلٹا وہ مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش میں لگی رہیں ۔
ایک دور ہوتا تھا جس پر کرپشن کا الزام لگ جاتا تھا وہ کئی دن گھر سے باہر نہیں نکل پاتا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے۔رشتہ دار جینا حرام کر دیں گے۔ لوگ ترچھی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ بچوں کے دوست انہیں طعنے دیں گے کہ دیکھیں اس کے والد پر کرپشن کے الزامات لگ گئے ہیں ۔ اب تو یہ سب لُوٹ مار کر کے ٹی وی پر آتے ہیں۔ میک اپ کرانے کے بعد سج دھج کر بیٹھتے ہیں ۔ قہقہے لگاتے ہیں ۔ جب کسی بات کا دفاع نہیں ہوپاتا‘ تو کہتے ہیں ان کے خلاف انتقامی کارروائی ہو رہی ہے۔ دوبئی سے بیان جاری کر دیتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے کسی وزیر کو چھیڑا گیا تو سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ نتیجہ ہے اس ملک میں کرپشن کے خلاف خبریں دینے اور عوام میں شعور اُجاگر کرنے کا ۔
مجھے یاد آیا ایک دفعہ اپنے دوست کالم نگار ارشاد بھٹی کے اسلام آباد دفتر میں بیٹھا تھا کہ وہیں ہمارے دوست لیاقت بلوچ آ گئے۔ کرپشن پر بات ہورہی تھی۔ بولے: ہم دوسروں کا کیا کہیں سائیں۔ ہمارے اپنے مذہب کے نام پر ووٹ لے کر کچھ دوست 2002ء کی اسمبلی میں سائیکل پر قومی اسمبلی پر آئے تھے اور لینڈ کروزر پر واپس گھروں کو گئے۔ان باریش ایم این ایز کے پاس بھی مال کمانے کی وجوہ ہوں گی جیسے ہم جیسے گناہگاروں کے پاس ہوتی ہیں ۔اللہ بھلا کرے ہمارے حکمرانوں کا جنہیں پاکستان کے علاوہ اب بنکاک سے دوبئی کے ایک ذاتی بینک اکائونٹ میں ایک ہی دن میں پچیس لاکھ ڈالرز تک کی ادائیگی ہوتی ہے اوران''ایماندار ‘‘ فرشتوں سے سوال بھی نہیں پوچھا جا سکتا ۔ اگر غلطی سے پوچھ بیٹھیں تو ٹکا سا جواب ملتا ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ کی ''مجبوری‘‘ہے....
کر لیں جناب جو آپ نے کرنا ہے...!