تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     23-10-2015

ٹیکس گزاروں کی رقم سے سخاوت

ایک معروف صحافی کی ایک معاصر انگریز ی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق صدر ممنون حسین نے غیر ملکی دوروں کے دوران ٹیکس گزاروں کی رقم میں سے چھ ملین روپے بطور ٹپ(انعام)جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے 2013-14 ء کے درمیان اپنے سٹاف کو سرکاری وسائل سے 3.7 ملین روپے کی عیدی دی۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق یہ اخراجات مالی نظم کی خلاف ورزی (بے جا اسراف) ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق صدر ِ مملکت نے چھ ملین کی بخشش کے علاوہ پر یذیڈنٹ اسٹیٹ کالونی میں ایک کمیونٹی سنٹر کے قیام پر Contingent Grant کے پانچ ملین روپے خرچ کردیے ہیں۔ آگے چل کر یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ صدر صاحب نے اکتوبر2013 ء میں بھی چین اور جنوبی فریقہ کے دورے کے دوران 2.65 ملین روپے بطور بخشیش دے دیے تھے۔ مئی 2014 ء میں چین کے ایک اور دورے کے دوران صدر صاحب نے ایک ملین روپے کی ٹپ دے دی۔ جون 2014 ء میںترکی، نائیجیریا اور ایک عرب ملک کے دورے کے دوران 1.9 ملین کی ٹپ، جبکہ اسی ماہ اسی عرب ملک کے ایک اور دورے کے دوران 496,750 روپے بطور ٹپ دے دیے تھے۔ 
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ دی گئی یہ ٹپس فنانس ڈویژن کی سفارشات کی خلاف ورزی تھیں۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق ایوان ِ صدارت کا موقف ہے کہ تمام دوروں کے دوران دی گئی ٹپس دراصل ''مختص کردہ بجٹ ‘‘ میں سے دی گئیں، اور ان سے خزانے پر ناروا بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ تاہم آڈیٹر جنرل نے ایوان ِ صدارت کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ان بے قاعدہ اخراجات سے آئندہ کے لیے گریز کیا جائے‘‘۔جہاں تک ایوان ِ وزیر ِ اعظم کا تعلق ہے تو رپورٹ نے اس بات کو سراہا ہے کہ 68.7 ملین کی سپلیمنٹری گرانٹ سمیت مختص کیے گئے 878 ملین روپوں میں سے صرف 730 ملین خرچ کیے گئے، لیکن ایک سے چار سکیل کے ملازمین میں 3.72 ملین روپے بطور عیدی تقسیم کیے گئے۔ جب آڈیٹر جنرل نے وزیر ِا عظم آفس سے اس بے قاعدہ خرچ کی بابت استفسار کرنے کے لیے رابطہ کیا تو بتایا گیاکہ یہ ایک روایت ہے کہ وزیر ِاعظم صاحب کی طرف سے نچلے درجے کے ملازمین میں عیدی تقسیم کی جاتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایک سے چار سکیل کے ملازمین میں چارہزار وپے فی کس بطور عیدی تقسیم کیے گئے۔ ایوان ِ وزیر ِ اعظم کا موقف تھا کہ فنانس ڈویژن کی جاری کردہ Contingent Grant وزیر ِ اعظم کی اتھارٹی سے ماورا نہیں ۔ رول آف بزنس 1973ء کے مطابق ایسے تمام معاملات میں وزیر ِ اعظم حتمی اتھارٹی رکھتے ہیں اور فنڈ کو اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرسکتے ہیں۔ تاہم آڈٹ جنرل نے ایوان ِ وزیر ِ اعظم کے اس موقف کو مستر کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لکھا۔۔۔'' ایوان ِ وزیر ِ اعظم کے جواب کوقبول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ فنانس ڈویژن کی طرف سے جاری کردہ گائیڈلائن Contingent Grant کی طرف سے کی جانے والی تمام ادائیگیوں کا احاطہ کرتی ہے۔ اس گائیڈ لائن کے مطابق ''پبلک فنڈ وزیر ِ اعظم کی ذاتی رقم نہیں ہوتا‘‘۔
اس رپورٹ میں آڈیٹر جنرل نے ایک اہم سوال اٹھایا ہے۔یہ فنڈیقیناسیاسی عہدیداروں کی ذاتی رقم نہیں، پبلک فنڈ تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نچلے درجے کے ملازمین کو عیدی ایک انتہائی دولت مند وزیر ِاعظم اپنی جیب سے کیوںنہیں دیتے؟ صدر ِ پاکستان ٹپ اپنی جیب سے دیں تو بہترہے، سرکاری رقم عوام کی امانت ہے، اس رقم کو اس دریا دلی سے خرچ کردینا کہاں کی سخاوت ہے؟لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد بھی کچھ نہیں ہوگا۔ کیا ہمارے عوامی نمائندے، صدر ِ مملکت، وزیر ِ اعظم، وزرائے اعلیٰ، گورنرز، وزرااور دیگر عوامی عہدیداران 
جانتے ہیں کہ عوامی فنڈ ز میںخیانت اُنہیں اُن کے عہدوں سے نااہل قراردے سکتی ہے؟یقینا اس ضمن میں بنائے گئے سخت قوانین کا مقصد یہ تھا کہ عوامی نمائندے پبلک فنڈز کو خرچ کرتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھیں، لیکن موجودہ نظام میں نہ ایسی احتیاط دکھائی دیتی ہے نہ احتساب۔عوامی عہدیداران کی اکثریت منتخب ہونے کے بعد ہر قسم کے قواعد وضوابط کو پامال کرنا اپنا جمہوری حق سمجھتے ہیں۔ اُن کا موقف ہوتا ہے کہ ان کی بداعمالیوں کا ''ثبوت‘‘ فراہم کیا جائے۔ آڈیٹر جنرل کی تازہ ترین رپورٹ کے بعد بھی ان کے خلاف کوئی اتھارٹی قانون کو حرکت میں لائے گی اور نہ سوموٹو نوٹس لیا جائے گا۔ 
یقینا ایسی بخشیش دینے پر صدر ِ مملکت کو آرٹیکل47اور وزیرِاعظم کو آرٹیکل 95یا 62(f) کے تحت سزا نہیں ملے گی، لیکن مہذب معاشروں میں عوام کی رقم کو اس طرح اُڑانے پر سخت باز پرس ہوتی ہے، لیکن ہم خاصے دریا دل واقع ہوئے ہیں۔ اپوزیشن بھی اس کے خلاف قرارداد لاتی دکھائی نہیں دے گی ، کیونکہ اس حمام میں سب کا ایک ساعالم ہے۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ عوامی عہدیدار قانون سے با لا تر ہیں؟کیا وزیر ِاعظم اور صدر صاحب قانون کے دائرے سے باہر اپنی اتھارٹی رکھتے ہیں؟یہ ہے ہماری اصل فالٹ لائن، کہ طاقتور سیاسی اور عوامی عہدے رکھنے والے خود کو ہر قسم کے قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف ہم پاکستان کو ایک اسلامی جمہوریہ قراردیتے ہیں،لیکن بہت دھڑلے سے اسلامی مساوات کے سنہرے اصولوں کو ہوامیں اُڑادیتے ہیں۔ اﷲ رب العزت کا ارشاد ہے۔۔۔'' اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خد کے لیے سچی گواہی دو خواہ(اس میں) تمہارا یا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا اُن کا خیر خواہ ہے۔ تو تم خواہش ِ نفس کے پیچھے چل کر عدل نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم شہادت سے بچنا چاہوگے تو جان رکھو، خدا تمہارے سب کاموںسے واقف ہے(النساء 4:135)۔
ٹیکس گزاروں کی رقم عوام کی امانت ہوتی ہے، لیکن ہمارے منتخب شدہ نمائندے اور حکمران اس کا بے جا اسراف کرتے ہوئے ذرا بھر شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ گزشتہ تین بجٹوں میں قومی اسمبلی نے اشرافیہ کے تعیش کے لیے بھاری ر قوم مختص کی ہیں۔ یہ فضول خرچی ایک مجرمانہ سرگرمی کے زمرے میں آتی ہے ، کیونکہ پاکستان کے غریب عوام پر ٹیکس کا بھاری بوجھ لیکن اس ٹیکس سے لطف اندوز ہونے والا طبقہ برائے نام ٹیکس ادا کرتا ہے۔ شہریوں کی اکثریت کے پاس نہ تو پینے کا صاف پانی اور نہ ہی تعلیم اور صحت کی سہولیات، اور اس پر مستزاد، اُن کے حکمران اُن کی آنکھوں کے سامنے ہوش ربا رقوم پانی کی طرح اُڑاتے ہیں۔ اگر ہمارے حکمرانوں پر سخی بننے کا بھوت سوار ہے تو وہ اپنی جیب کو زحمت دیں، عوام کی رقم عوام پر خرچ کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved