اوسلو سے فیصل ہاشمی کا تازہ مجموعۂ کلام ''ماخذ‘‘ موصول ہوا ہے۔ اس سے پہلے وہ ''کسی حیران ساعت میں‘‘ نامی کتاب پر اہلِ فن کی بھرپور داد حاصل کر چکے ہیں۔ یہ کتاب فیصل ہاشمی کی اندر کی آوازوں سے بھری پڑی ہے اور یہ نظمیں آشنا آشنا اس لیے بھی لگتی ہیں کہ ہر کوئی اپنے اپنے اندر ہی سے آواز لگاتا ہے اور اس طرح یہ نظمیں ''میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ کی تصویر بن گئی ہیں۔ ان نظموں کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ یہ غزل اورئنٹڈ قاری کو بھی نظم پڑھنے پر اُکساتی ہیں اور نئے سے نئے دروازے اور کھڑکیاں کھولتی چلی جاتی ہیں۔ یہ خوبصورت اور تحفہ کتاب شاہد شیدائی نے ''کاغذی پیرہن‘‘ سے چھاپی ہے جو اپنے فاضلانہ دیباچے میں کتاب پر رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
فیصل ہاشمی کا خیال جب لفظوں میں ڈھلتا ہے تو احساس کا کوندا بھی ایک تازہ رو کی طرح، نظم کے مصرعوں میں سرایت کر جاتا ہے اور جذبے کی شدت(جذباتیت سے دور رہتے ہوئے) ان کے فن میں سرایت کرتی جاتی ہے۔ ایسے میں وہ اپنی فکر کے طلائی ریزوں کو چُن کر زبان و بیان کی کٹھالی میں یوں پکا لیتے ہیں کہ ان کا اسلوب کندن کی طرح لو دینے لگتا ہے۔ اور قاری، کلام پڑھتے ہوئے محسوس کرتا ہے کہ شاعر کے دل میں ایک ایسی کسک موجزن ہے جسے پار کرنے کے لیے اس نے اپنے جسم کی نائو کو بلا خوف و خطر تند و تیز موجوں کے سپرد کر دیا ہے۔ یکا یک شاعر کے دل سے ہوک اُٹھتی ہے اور وہ خالقِ کائنات سے شکوہ کرتا ہے کہ اس کے زخم کب مندمل ہوں گے کہ اسے تو ہر طرف خاک ہی خاک اڑتے دکھائی دے رہی ہے اور وہ فضا کی حدوں کے اس طرف زندگی گزارنے پر مجبور ہے...‘‘
جوگندر پال ان نظموں کی تحسین اس طرح کرتے ہیں:
''آپ کی نہایت اوریجنل شعری وارداتیں بظاہر مختصر ہونے کے باوصف زندگی کے بیچوں بیچ بڑی گنجان حیرتوں میں اتار لے جاتی ہیں اور اس نشاط آفریں مہم کو سر کرنے کے بعد آپ کا قاری اپنے آپ کو نو بہ نو محسوس کرنے لگتا ہے۔ آپ واقعی بہت اچھے شاعر ہیں۔‘‘
اب معروف نقاد محمود ہاشمی کی رائے دیکھیے:
''آپ کے مجموعے کی ہر نظم مجبور کرتی ہے کہ اس میں شامل دوسری نظمیں بھی پڑھی جائیں۔ چنانچہ میں انہیں پڑھ رہا ہوں... ایک مرتبہ، دو مرتبہ اور بعض بار بار، شکریہ کہ آپ نے اس زمانے میں جب کہ شاعری بالخصوص آزاد شاعری اکثر صورتوں میں خستہ و خوار ہو رہی ہے، مجھے موقع دیا کہ میں اس ضمن میں عمدہ نظموں کا مطالعہ کر سکوں۔‘‘
بلراج کومل کے مطابق ''فیصل ہاشمی کا شمار میں جدید تر نسل کے ان اردو شاعروں میں کرتا ہوں جو پچھلے چند برسوں میں ابھر کر سامنے آئے اور توجہ کے مستحق ثابت ہوئے۔ ان کی نظمیں مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ایک ایسا جہانِ اسرار خلق کرتی ہیں جو ہر قدم پر قاری کو حیرت و استعجاب کے تجربے سے روشناس ہونے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ بظاہر شفاف کیفیات فیصل ہاشمی کی نظموں سے اُبھر کر کچھ ایسے خدو خال اختیار کر لیتی ہیں کہ ان تک مکمل رسائی حاصل کرنے کے لیے بار بار ان کو قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کو جی چاہتا ہے۔‘‘
ان کے علاوہ پس سرورق ڈاکٹر وزیر آغا کی رائے بزبانِ انگریزی درج ہے۔ کتاب جو اعلیٰ درجے کے کاغذ پر اور عمدہ گیٹ اپ سے شائع کی گئی ہے اس کا انتساب اس طرح سے ہے:
امی جان، شاہ جی اور ڈاکٹر وزیر آغا کی یادمیں۔
خوبصورت سرورق ریاظ نے بنایا ہے جبکہ اس کی قیمت 200روپے رکھی گئی ہے۔ اس میں سے کچھ نظمیں:
زمیں پر آخری لمحے
اندھیرے دوڑتے ہیں رات کی... ویران آنکھوں میں... چراغوں کی جڑوں سے روشنی کا... خون رِستا ہے... سمندر... کشتیوں میں چھید کرتی مچھلیوں سے... بھر گئے ہیں...منزلوں کی خواہشوں سے دور ہے... اب ہر مسافر... اور صدا اس قید گہ سے... بھاگ جانے کی کڑی کوشش میں... زخمی ہے... زمیں، فالج زدہ ہونٹوں کی جنبش سے... ٹھہر جانے کو شاید کہہ رہی ہے... ہوا کی سانس ٹھوکر کھا رہی ہے!
میں جو موجود تھا
رات کی بے اماں وسعتوں میں... کہیں کھو گیا... آسماں... جس کو دیکھا گیا تھا کبھی... اب زمیں دوز ہے... اور زمیں، نامرادوں کی اک پھیلتی... بے نشاں قبر ہے... رینگتے آنکھ کے منظروں میں... کئی اجنبی شہر ہیں... آج تک جن سے کوئی بھی گزرا نہیں... کیوں کسی کو کسی پر بھروسا نہیں... دور جاتے ہوئے کارواں کو بلاتا ہوں میں... ریت پر نقش پا کی طرح... مٹتا جاتا ہوں میں... میں جو موجود تھا... اب کہیں بھی نہیں... جسم و جاں میرے بس میں نہیں...میں کسی کے تو کیا... اپنی بھی دسترس میں نہیں!
وقت کی دُھول ہوں میں
مجھے اب یقیں ہو چلا ہے...میں خلقت سے پیچھے کہیں رہ گیا ہوں... اور اب میں زمانوں کے قدموں سے اپنے قدم... ملانے کی کوشش میں تھک بھی چکا ہوں... جہاں بھیڑ میں... لوگ بہتے چلے جا رہے ہیں... وہیں راستے کے... اس اگلے کنارے پہ رُک کر... فلک پروروں... بادلوں سے اُلجھتی... کئی خواب بُنتی نظر... کے تماشے میں مشغول ہوں میں... گزرتے ہوئے وقت کی... دُھول ہوں میں!
دُور صدیوں پرے
دُور... صدیوں پرے... اک خریدے ہوئے کرب میں مبتلا... جسم کے اُس طرف... رُوم کی دُھند میں... اپنے کاندھے پر خود کو اُٹھائے ہوئے... چیختا ہی رہا... ''میں یہاں ہوں یہاں‘‘... کوئی سُنتا نہ تھا... کتنا عاجز تھا میں کتنا مجبور تھا... اور دعا کے اثر سے بہت دُور تھا... مردہ خانے کی وحشت میں... روزِ ازل ہی سے محصور تھا!!
میں سویا نہیں
گرمیوں کی دوپہر تھی... جب فلک سے... ابر کا تُرشا ہوا ٹکڑا کوئی... نیند کی آسودگی کو چیر کر... ریڑھ کی ہڈی میں آ کر دھنس گیا... حادثے کے درد سے... بیدار کچھ ایسا ہوا... قرنوں سے میں سویا نہیں... اب تھکے اعصاب کی تکلیف کا شہکار ہوں... نیند کی آسودگی کا آرزو بردار ہوں!!
آج کا مطلع
بجھا ہے رنگِ دل اور خواب ہستی کربلا ہے
کہ جیتے ہیں نہ مرتے ہیں یہ کیسی کربلا ہے