تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     23-10-2015

کرکٹ سینڈ روم اور بھارت کی عزت افزائی

یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں ہماری ساری ڈپلومیسی کرکٹ کے گرد ہی کیوں گھومتی ہیں۔ وہ ہمیں دھتکارتے ہیں اور ہم ان کے قدموں میں بچھے جاتے ہیں۔ ممبئی میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں کے ساتھ توہین آمیز بدسلوکی کے بعد بھی شہر یار خان کی خوش گمانیاں دیکھ کر ایک گھسا پٹا لطیفہ یاد آیا۔ میراثی کے دن پھرے تو اُس کا بیٹا باہر چلا گیا۔ ڈھیروں کمائی نے جہاں اُسے خوشحال بنایا، وہاں اُسے بیوقوفی کی حد تک خوش گمان بھی بنا دیا۔ اُس کی جو شامت آئی تو نئی نئی دولت کے نشے میں چُور، گائوں کے بد مزاج چودھری کی بیٹی کا بیٹے کے لیے رشتہ مانگنے چل پڑا۔ چودھری، میراثی کی اس حرکت پر آپے سے باہر ہو گیا۔ اُس نے ملازموں کو اشارا کیا، جنہوں نے اُسے خوب پھینٹی لگائی۔ میراثی پھینٹی سے ''مشرف‘‘ ہونے کے بعد کپڑے جھاڑ کر اٹھا اور بولا چودھری صاحب! فیر میں تہاڈے ولوں انکار ای سمجھاں! کچھ ایسی کیفیت اور حالت شہریار خان اور نجم سیٹھی کی ممبئی شہر میں تھی جب وہ بھارتی کرکٹ بورڈ کے ساتھ ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ سیریز کے حوالے سے مذاکرات کرنے پہنچے۔ شوسینا کے بدمعاشوں نے ممبئی کرکٹ بورڈ کے آفس پر دھاوا بول دیا۔ انہوں نے پاکستان کے خلاف نفرت سے بھرپور نعرے لگائے پاکستان کو گالیاں دیں مگر آفرین ہے ہمارے ان رہنمائوں پر، پاکستان کا وقار اور عزت دائو پر لگی تھی اور وہ اپنی طرف سے برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کرتے رہے۔ ہر طرح کی دشنام طرازی اور عزت افزائی کے بعد بھی ''گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا‘‘ والی کیفیت میں رہے۔ افسوس کہ ان شہ دماغوں کے لیے کرکٹ کا فروغ، ملک کے وقار، عزت و احترام سے بڑھ کر ہے۔ پاکستان کو لاحق اس کرکٹ سینڈروم نے مہلک صورت اختیار کر لی ہے۔ اب اس کے دوادارو کی بھی ضرورت ہے اور پی سی بی کے عہدیداروں کو بھی حب الوطنی اور قوم پرستی پڑھانی پڑے گی۔
شوسینا کی پاکستان سے نفرت کی کارروائیوں کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے مگر اس پر بھارتی حکومت کی خاموشی نیم رضا مندی نہیں بلکہ دہشت گردی کی ان تمام کارروائیوں پر مکمل رضا مندی کا اظہار ہے۔ اس سے پہلے خورشید قصوری اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کے لیے ممبئی پہنچے تو شوسینا کے بدمعاشوں نے، تقریب کے آرگنائزر کو زدوکوب کر اس کا منہ کالا کیا۔ مسٹر کلکرنی نے اسی حلیے کے ساتھ خورشید قصوری کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔ انتہا پسند ہندو کبھی پاکستانی میوزک بینڈ کا کنسرٹ کینسل کرواتے ہیں، کبھی امپائر علیم ڈار کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ پاکستان کے ممتاز کلاسیکل گلوکار غلام علی کے شو کو کینسل کرایا۔ انہیں دھمکیاں دیں کہ خبردار! جو پھر کبھی ممبئی کا رُخ کیا۔
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ہمارے فنکار اور گلوکار آخر بھارت کی محبت میں اس قدر غرق کیوں ہیں کہ انہیں سامنے کا منظر بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے ملک کے نامور فنکار وہاں جا کر انڈیا کی تھرڈ کلاس فلموں میں تھرڈ کلاس کردار کر کے خود کو عظیم فنکار سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسے ماحول میں جب ہر فنکار بھارتی فلموں میں کام کرنے کے لیے حقیقتاً مرا جا رہا ہو وہاں فلمسٹار شان کی حب الوطنی کو نہ سراہنا زیادتی ہو گی۔ فلمسٹار شان نے متعدد بار بھارتی فلموں کی پیش کش کو ٹھکرایا اور کہا کہ انہیں اپنا وطن اور اپنی پاکستانیت، انڈین فلموں میں کام کرنے سے زیادہ عزیز ہے۔ دوسری طرف شہریار خان ہیں جو پوری قوم کا وقار دائو پر لگائے بھارتیوں کی منت سماجت کرنے میں مصروف ہیں۔ع 
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے!
کراچی کی ایک پاکستانی فیملی کو پورے ممبئی میں کسی ہوٹل میں ایک رات قیام کی جگہ نہ دی گئی۔ جرم یہ تھا، کہ وہ پاکستانی تھے؛چنانچہ وہ بے چارے غریب الوطنی میں رات فٹ پاتھ پر گزارنے پر مجبور ہوئے۔ پاکستان سے اس نفرت انگیز واقعے کا تذکرہ، ہندوستان ٹائمز کی ایک صحافی خاتون نے اپنے بلاگ میں کیا اور پھر ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ دو سال پہلے ہم کراچی میں پاکستانی صحافیوں کے ساتھ ایک کانفرنس میں تھے، وہاں بازار میں ایک چاٹ والے نے ہمیں انڈیا سے آئے محترم مہمان جان کر ہم سے چاٹ کے پیسے لینے سے انکار کر دیاتھا، اس محبت کے سامنے، پاکستان سے آئی فیملی کے ساتھ ممبئی میں جو کچھ بیتا وہ قابلِ افسوس ہے۔!
سوال یہ ہے کہ بھارت میں بھی ایسے صائب الرائے لوگ ہیں جو اس وقت ہندوئوں کی انتہا پسند کارروائیوں کی مذمت کر رہے ہیں مگر حکومت پھر بھی خاموش ہے۔ بھارتی ادیبوں کا بطور احتجاج سرکاری اعزازات کو واپس کرنا بھی مودی حکومت کی ہٹ دھرمی کو نرم نہیں کر سکا۔ دادری میں مشتعل ہندوئوں کے ہاتھوں اخلاق احمد کے بہیمانہ قتل پر بھی مودی حکومت خاموش ہے، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نفرت کی یہ کارروائیاں جو پاکستانیوں اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف ہو رہی ہیں اس میں بھارتی حکومت بھی شریک ہے! سوال یہ ہے کہ اس ساری نفرت، بدسلوکی اور تشدد کے جواب میں پاکستان کا رد عمل کیا ہونا چاہیے۔ کیا ہمیں ہمیشہ کی طرح معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے کہ کہیں بھارت سرکار ہم سے ناراض ہی نہ ہو جائے، یا پھر اپنی قومی غیرت اور پاکستانیت کو عزیز رکھتے ہوئے، فیصلے کرنے چاہئیں۔ وقت آ گیاہے کہ کرکٹ ڈپلومیسی کے خمار سے باہر نکل کر سفارتی اقدامات کئے جائیں۔ بین الاقوامی فورم پر بھارت کی اس بدسلوکی کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے۔ اگر ایسا ہی سلوک، بھارت سے آنے والوں کے ساتھ ہوتا تو اس وقت بھارت پوری دنیا میں واویلا مچا کر ہمدردیاں بٹور کر پاکستان کو تنہا کر چکا ہوتا۔ 
بھارت سے ثقافتی تعلقات کے حوالے سے بھی حکومت کو اپنا مؤقف واضح کرنا چاہئے۔ اگر حالات وہاں اتنے نفرت انگیز ہیں تو پھر پاکستانی فنکاروں کو بھارت جانے سے روکنا چاہیے کیونکہ یہ پاکستان کی عزت اور وقار کا مسئلہ ہے۔ کرکٹ سینڈروم کے عارضے میں مبتلا پی سی بی کو بھی کچھ پاکستانیت کا درس دینا چاہیے جو ہر قیمت پر پاک بھارت کرکٹ سیریز دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہندوئوں کی بلا اشتعال فائرنگ سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں آئے روز نہتے پاکستانی شہید ہوتے ہیں۔ ان کی جان و مال پاک بھارت کرکٹ میچ کی سنسنی خیزی سے یقینا زیادہ قیمتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved