تصور پاکستان دینے والے عظیم شاعر اقبالؒ نے لکھا تھا ؎
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم‘ وطن ہے ہندوستاں ہمارا
قائد اعظم محمد علی جناحؒ ‘ہندو مسلم اتحاد کے سرکردہ مسلمان رہنما تھے۔ ایک وطن پرستی میں نمایاں اور دوسرا بین المذاہب اتحاد و اخوت کا علمبردار۔ دونوں ہی نے ہندومسلم اتحاد کے تصور کو خیرباد کہہ کے قیام پاکستان کا راستہ ہموار کیا۔ اقبالؒ نے ''ہندی ہیں ‘ ہم وطن ہیں‘‘ کا تصور چھوڑ کے‘ مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا اور بین المذاہب اتحاد کے علمبردار قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے نعرے کو چند ہی سال کے اندر‘ حقیقت میں بدل دیا۔ برصغیر کی ہندوئوں اور مسلمانوں میں تقسیم وطن کا عظیم کام اتنا آسان نہیں تھا کہ صرف 10سال کے اندر اندر‘ حقیقت میں بدل جائے۔ یہ تقسیم حقیقت میں موجود تھی، لیکن اعلیٰ انسانی ذہن اور جذبات رکھنے والے‘ اسے تسلیم کرنے سے گریزاں تھے۔ جب سلگتے ہوئے حقائق کی آنچ تیز ہوئی‘ تو اقبالؒ اور محمد علی جناحؒ دونوں کوسرزمین ہند کو ہندوئوں اور مسلمانوں میں بانٹنے کی ضرورت کا احساس ہوا اور جب انہوں نے وقت کی نبض پر انگلی رکھی‘ تو لاعلاج مرض کی تشخیص ہوئی۔ یہ ہندو مسلم منافرت کے پکے ہوئے پھل کی طرح تھی۔ اگر ان دونوں قوموں کو علیحدہ وطن نہ ملتا‘ تو جو خونریزی 1947ء میں ہوئی‘ لوگ اسے بھول جاتے اور مسلمان جو پچاس پچپن کروڑ سے زیادہ ہو چکے ہوتے‘ انہیں ہندوئوں کی حکمرانی میں آج تک خون میں نہلایا جا رہا ہوتا اور 55کروڑ انسانوں کو نیست و نابود کرنا آسان نہیں تھا۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں انسانی خونریزی کا سانحہ ‘کتنے عشروں تک جاری رہتا۔
یہ معمولی بات نہیں تھی کہ اقبالؒ جیسے وطن پرست اور قائد اعظمؒ جیسے انسان دوست اور مذہبی تعصبات سے بالاتر انسانوں نے ‘اپنے عمر بھر کے نظریات کو چھوڑ کر‘ قیام پاکستان کی جدوجہد کی اور اسے ہندو مسلم ریاستوں میں تقسیم کر دیا۔ ورنہ آج کے بھارت میں مسلمانوں پر جو گزر رہی ہے اگر یہ تقسیم نہ ہوتی‘ تودرندہ صفت ہندو انتہاپسند‘ مسلمانوں کے خون کے دریا بہا رہے ہوتے۔ دنیا کے ہر مذہب سے زیادہ سفا ک مذہبی تصورات رکھنے والی یہ قوم‘ جو اپنے آپ کو ایک مذہب پر یقین رکھنے کا قائل سمجھتی ہے‘ درحقیقت اس کا کوئی مذہب ہی نہیں۔ نہ کوئی پیغمبر ہے۔ محض دیومالائی قصے کہانیاں ہیں‘ جنہیں ان لوگوں نے ایک مذہب کا نام دے رکھا ہے۔ یہ آپس میں کبھی ایک مذہب کے پیروکار نہیں بن سکیں گے‘ جس کا زندہ ثبوت ان میں آپس کی تقسیم ہے۔ بھارتیوں میں ذات پات اور رنگ و نسل کی جتنی تقسیم پائی جاتی ہے‘ اس کی گنتی نہیں کی جا سکتی۔ ہر خیال اور ہر عقیدے کو ماننے والے‘ ایک دوسرے سے شدیدنفرت کرتے ہیں‘ دیگر مذاہب رکھنے والوں سے زیادہ ۔ میں ان باہمی نفرتوں کی گنتی نہیں کر سکتا‘ جو ہندوئوں کے اپنے اندر پائی جاتی ہیں۔ اپنے نام نہاد مذہب کی بنیاد پر‘ جتنی انسانیت دشمنی ان لوگوں میں پائی جاتی ہے‘ وہ ایک دوسرے سے مختلف مذہب رکھنے والوں کے مابین نہیں ہے۔ مسلمانوں کے اندر وہ باہمی نفرت نہیں پائی جاتی‘ جو ہندو تہذیب کا خاصہ ہے۔ میں یہ لکھتے
ہوئے شرم سے ڈوب رہا ہوں کہ ہمارے درمیان مسالک کی بنیاد پر‘ ایک دوسرے کے ساتھ جنگوں کی تاریخ بڑی طویل ہے اور آج مسلمان‘ مسلمان کو مار رہا ہے۔ باہمی خونریزی میں وحشت اور درندگی کے جو مظاہرے دیکھنے میں آ رہے ہیں‘ وہ بھی اپنی طرز کی درندگی میں ہندوئوں سے پیچھے نہیں۔ مجھے عراق‘ شام‘ لبیا‘ افغانستان‘ تیونس اور شرق اوسط کے کئی ملکوں میں ہونے والی باہمی خونریزی کی تفصیل پڑھ کے ندامت ہوتی ہے۔ میرا یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن اسلام کا پیغام‘ سارے برسرپیکار عقیدوں اور مسالک کی تقسیم ختم کر کے‘ سب کو یکجا کر دے گا۔ یہ بات میں ہندو کے بارے میں نہیں کہہ سکتا۔ مسلمانوں کے مابین باہمی خونریزی کی زیادہ وجوہ مسلک‘ عقیدے اور اقتدار کی بنیادیں ہیں۔ ہندوئوں میں ایسا نہیں۔ یہ وہ درندہ صفت قوم ہے‘ جو انسان کی پیدائش سے پہلے ہی اس کے جینے مرنے کا فیصلہ کر دیتی ہے۔ دلت‘ جن کو یہ اچھوت کہتے ہیں‘ انہیں کسی عقیدے اور مسلک کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا مستحق نہیں ٹھہراتے۔ وہ ان کی پوری نسل ہی کو انسانی حق دینے سے انکاری ہیں۔ چند روز پہلے بھارت کے اندر جو واقعات ہوئے‘ ان کی ابتدا پاکستان دشمنی سے ہوئی، مگر حقیقت جلد ہی کھل کر سامنے آ گئی‘ جب ہریانہ میں دلت ذات سے تعلق رکھنے والے‘ ایک خاندان کے معصوم بچوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ ان کا پاکستان سے کیا تعلق تھا؟ یہ ہندو ذہن کی درندگی ہے‘ جس کا اظہار پاکستان مخالف نعرے سے کیا گیا۔ اس نعرے کی آڑ میں جو انسانیت دشمن واقعات ہوئے‘ وہ اپنی جگہ ہیں۔ سدھیندرا کلکرنی ایک وطن پرست اور پکا ہندو تھا۔ وہ بی جے پی کا سرکردہ رکن بھی رہ چکا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری‘ بھارت میں اپنی کتاب کے تعارف کے لئے گئے‘ تو کلکرنی نے ممبئی میں ان کے لئے استقبالیہ تقریب رکھی۔ اس پر کوئی خاص ردعمل نہیں ہوا۔ حد یہ کہ شیوسینا نے بھی جوابی طور پر کچھ نہیں کیا۔ صرف بی جے پی کی حکومت نے چند آوارہ گردوں کو جمع کر کے‘ ممبئی کرکٹ بورڈ کے دفتر میں بھیجا۔ وہ بڑے آرام سے گئے۔ میڈیا میں کوریج ہوئی اور صرف تین غنڈوں نے کلکرنی کو سڑک پر گھیر کے‘ ان پر کالک انڈیل دی۔شیوسینا ہمیشہ سے پاک بھارت کرکٹ میچوں کے خلاف رہی ہے۔ وہ کتاب کی تقریب کو خراب کر کے‘ پاک بھارت میچوں کا سلسلہ روکنا چاہتی تھی۔ کرکٹ میچ روکنے میں حکمران جماعت چونکہ خود دلچسپی رکھتی تھی، اس لئے کرکٹ کے رابطے تو فوراً ہی ختم ہو گئے، مگر آفرین ہے سدھیندرا کلکرنی پر کہ وہ اپنے منہ پر پھری ہوئی کالک لے کر‘ سارے بھارت کے منہ پر ملنے کے لئے پریس کانفرنس میں جا بیٹھا اور خدا کا بندہ کتاب کی تقریب منعقد کرا کے ہی رہا، لیکن ہریانہ میں دلت خاندان کے بچے جلانے کا
ان واقعات سے کیا تعلق تھا؟ اور پھر مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے ایک منتخب رکن کے منہ پر ‘دہلی میں کالک ملنے کی کیا تک تھی؟ درحقیقت ہندو انتہاپسندی یہی ہے کہ وہ نسلی طور پر مختلف انسانی گروہوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ہم عقیدہ لوگوں کو بھی مارتے ہیں۔ دوسرے مذاہب سے بھی نفرت کرتے ہیں۔ عیسائیوں کے گرجوں اور سکھوں کے گورودواروں پر بھی حملے کرتے ہیں۔ذات پات کی بنیاد پر جتنی تقسیم ہندو ئوں میں پائی جاتی ہے‘ وہ دنیا کے تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے تمام انسانوں میں نہیں ملے گی۔ ساری دنیا کی آبادی میں مذاہب پر یقین رکھنے والوں کی تعداد ہندوئوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ جنگ و جدل ان میں بھی ہوتا ہے، مگر ہر دسواں خاندان باقی ماندہ نو خاندانوں سے اس قدر نفرت نہیں کرتا‘ جتنی ہندوئوںمیں ایک عقیدے کے لوگ دوسرے عقیدے کے لوگوں سے کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سارے کرۂ ارض پر پائے جانے والے تمام انسانوں میں اتنی نفرتیں نہیں ہوں گی‘ جتنی بھارتی مسلمانوں کو چھوڑ کے باقی ماندہ مذاہب سے تعلق رکھنے والے بھارتیوں میںپائی جاتی ہے۔ ہندو‘ سکھ اور عیسائیوں کے جھگڑے چھوڑیئے۔ ہندو آپس میں بھی ایک دوسرے کے انسانی حقوق کو تسلیم نہیں کرتے۔ بھارت کے سارے دلت اچھوت ہیں۔ سب کے سب ہندو ہیں، مگر جتنے مظالم ان پر ڈھائے جاتے ہیں‘ دنیا کو ان کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ اپنے آپ کو برتر نسل کا سمجھنے والے ہندوئوں کی تعدادچار پانچ کروڑ سے زیادہ نہیں ہو گی۔ باقی ساری آبادی‘ ان چار پانچ کروڑ ہندوئوں سے کم تر سمجھی جاتی ہے۔ میرے علم کے مطابق دنیا میں کسی خطے کے لوگ اپنے مردوں کو خود نہیں جلاتے۔ ہندو‘ واحد قوم ہے‘ جو نہ صرف اپنے مرنے والے قریبی عزیزوں کو خود جلاتی ہے بلکہ لکڑیوں پر تیل یا گھی‘ مرنے والے کے اپنے بیٹے چھڑکتے اور چتا کو آگ لگاتے ہیں۔جو قوم اتنی سنگدل ہے کہ اپنے ہی خاندان کے مر نے والے ‘افراد کوبقائمی ہوش و حواس خود جلانے کا اہتمام کرتی ہے‘ اس کے اندر انسانی رشتوں کا احترام کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور قبرستانوں کی قلت کی وجہ سے زمین کو محفوظ رکھنے کی ضرورت بھی ہے۔ اس کے لئے ترقی یافتہ ملکوں میں وہ مشینیں بن چکی ہیں‘ جن میں ایک طرف مردے کو کفن دفن پہنا کر رکھ دیا جاتا ہے اور مشین کے دوسری طرف وہ تھوڑی سی راکھ کی صورت میں نکل آتا ہے۔ اہل خاندان وہ راکھ لے کر مٹی میں دفنا دیتے ہیں۔ جلتے ہوئے کوئی نہیں دیکھتا۔ اس کا مشاہدہ کرنا ہو‘ تو برطانیہ میں رہنے والے ہندو جا کر اس عمل کو دیکھ سکتے ہیں۔ میں بھی ایک مختصر سے کالم میں تضادات کے کس جنگل میں گھس گیا؟ ہندو وہ قوم ہے‘ جس کے تضادات اور محیرالعقول عقیدوں کا احاطہ آج تک کوئی نہیں کر سکا اور کوئی نہیں کر سکے گا۔ ہندو اسی طرح رہے گا اور اپنی پھیلائی ہوئی نفرت کے پہاڑ میں خود ہی دب کر مفقود ہوجائے گا۔ بھارت میں کس کا غلبہ رہے گا؟ یہ تو میں نہیں کہہ سکتا، مگر ہندو کا غلبہ کبھی نہیں رہ سکے گا، کیونکہ ہندو موجود ہی نہیں ہو گا۔ یہ ختم ہو جانے والی قوم ہے۔ میں یہ بات کسی نفرت کی بنا پر نہیں لکھ رہا۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں کہ انسان اتنی بڑی تعداد میں اپنا وجود مٹانے پربضد ہیں۔خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ پاکستان بن گیا۔ مزید شکر اس طرح ادا کرنا چاہیے کہ یہ قوم اپنوں کو جلانے پر یقین رکھتی ہے ‘ خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ۔